احوال وطن

علماء کا دنیا سے گزر جانا قدر دانوں کیلئے عظیم سانحہ ہے: مولانا شاہ جمال الرحمن مفتاحی

محبوب نگر: 25/ستمبر (عصر حاضر) ایک عالم کی موت ایک عالم کی موت ہوتی ہے قحط الرجال کے اس زمانہ میں علماء کرام کا یکے بعد دیگرے اس دنیا سے پردہ فرمانا یقینا ملت اسلامیہ کے لیے عظیم خسارہ اور علمی نقصان ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے حالانکہ انسان دنیا میں جینے کیلیے نہیں آتا مفتی احمد معاذ جیسے لوگ جو بہت کم وقت زندگی گزارتے اور ان کی زندگی قابل رشک بن جاتی ہے۔  مفتی احمد معاذ کے جانے کا مجھے بے حد افسوس ہوا۔ وہ میری چچا ہونے کی بحیثیت سے بہت قدر کیا کرتے تھے اپنے بڑوں اور چھوٹوں کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ میرے والد حضرت مولانا ابوالسعود صاحب علیہ الرحمہ ہر سال قربانی میں دو جانور ذبح کرتے تھے ایک جانور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور افراد خاندان کا نام سے قربان کرتے اور دوسرا جانور اپنے سات اساتذہ کے نام سے قربان کرتے تھے۔ آج علما اور اپنے اساتذہ کی قدردانی کی ضرورت ہے ہندوستانی ماحول میں یہ فضا بنائی جارہی ہے کہ علماء کو عوام سے دور کردیا جائے تاکہ ان کو بہت آسانی کے ساتھ بے دین کیا جاسکے اور ان کے اندر سے اسلامی غیرت و حمیت نکال دیا جائے اس طرح کی کوششیں چل رہی ہیں۔ ایسے میں علماء سے جوڑنے اور ان سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار حضرت احمد معاذ صاحب سعودی رشادی علیہ الرحمہ کا چچا حضرت مولانا لطف اللہ مظہر رشادی صاحب نے محبوب نگر کے الماس فنکشن پیالس میں منعقدہ اجلاس بعنوان علم اور علماء کی فضیلت بضمن وفات حسرت آیات مولانا احمد معاذ سعودی رشادی علیہ الرحمہ سے اپنے درد بھرے خطاب میں کیا مولانا محترم نے اپنے سلسلہ خطاب میں حضرت معاذ صاحب اور خاندانِ ابوالسعود کے مؤثر واقعات سناکر سامعین کو اشکبار کردیا اور عوام الناس سے یہ اپیل کہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کرے تاکہ وہ خود جنت کا حق دار بن جائے۔ اسپین کے حوالہ سے فرمایا کہ وہاں نو سو سال تک اسلامی حکومت رہی لیکن آج سینکڑوں مساجد گرجا گھروں میں تبدیل ہوچکے وہاں پر علماء کھڑے نہیں ہوئے اور وہاں پر مدارس نہیں تھے ہندوستان کی یہ خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر مدارس ہیں علماء مضبوط ستون بن کر کھڑے ہیں ان کی قدر کی جانی چاہیے اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی سعی کی جائے۔ ہندوستان میں کئی ایسے قدیم سے قدیم ترین مدارس موجود ہیں لیکن طلباء کی قلت، کی گہری تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ عوام کے اندر علم دین کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے۔
اجلاس کے صدر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی دامت برکاتہم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ کسی کا دنیا سے گزر جانا اور گزرنے والا اچھائیوں اور خوبیوں کا مالک ہو یقینا قدردانوں کیلئے بڑا سانحہ ہے ایسے لوگ دنیا سے تو گزر جاتے ہیں لیکن بعد والوں کیلئے اہم ترین پیغام چھوڑ جاتے ہیں اب قدر دانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کے پیغام کو ہمیشہ اپنے سینوں میں محفوظ رکھیں۔ مفتی احمد معاذ صاحب کے انتقال کی خبر پر میں بارہا پوچھتا رہا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے اس لیے کہ مجھے کافی دیر تک یقین ہی نہیں ہوتا رہا۔ ہم لوگ ابھی حضرت مفتی اشرف علی صاحب رحمۃ الله علیہ کے انتقال کے غم سے نکلنے اور سنبھلنے ہی نہ پائے تھے کہ یہ خبر سننے میں ملی جس پر بہت افسوس ہوا۔ حدیثوں میں یہ بات بتائی گئی کہ آخری زمانہ میں علم اٹھا لیا جائے گا اس پر کسی نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ اس پر فرمایا گیا کہ اہل علم کو اٹھا لیا جائے گا۔ اچھے خاصے لوگ اچانک گزر جانے پر لوگ تعجب کرتے ہیں حالانکہ آدمی کے مرجانے سے زیادہ زندہ رہنا تعجب خیز ہے اس لیے کہ ہماری حقیقت تو ایسی ہے کہ
مری زندگی بھی عجب زندگی ہے
ادھر آرہی ہے ادھر جارہی ہے
ہم خود روانہ اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کے ذریعہ موت کا سامان کرتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی زندہ رہتے ہیں یقینا اللہ رب العزت  کی جانب سے انسان کے اندر جو دفاعی نظام بنایا گیا ہے اسی سے انسان بچا ہوا ہے۔ اس کو مثال کے ذریعہ سمجھایا کہ انسان کے حلق میں دو نالیاں ہوتی ہیں آدمی جب پانی پیتا ہے تو اسی نالی میں جاتی ہے جس کا راستہ پیٹ کی طرف جاتا ہے اگر ہوا والی نالی کی طرف پانی چلا جائے تو انسان آنا فانا اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔ ہم کو اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ ہمیں انسانی حیات کا اندازہ ہوسکے۔ حضرت شاہ صاحب نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا  کسی عالم کی موت پر اتنی بڑی تعداد میں  علماء و دین پسند عوام کا جمع ہوجانا اس کی زندگی کیا خوب رہی ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب دامت برکاتہم نے اپنے خطاب کے آخر میں موت کی یاد حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں پر مؤثر انداز میں روشنی ڈالی۔
مولانا پی ایم مزمل رشادی والاجاہی نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا مولانا احمد معاذ علیہ الرحمہ کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہوئے میرا دل قبول کرنے اور ذہن ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ میں جس وقت حضرت کے انتقال کی اطلاع پاکر اسی کیفیت میں سبیل الرشاد تک جا پہنچا اور جب حقیقت کے سامنے مجبور ہوکر اس خبر کی تصدیق کی اور جنازے کے قریب پہنچا تو اپنے مشفق باپ کے جنازے پر جس طرح آنسو بہائے تھے اسی طرح آنکھیں بے ساختہ اشکبار ہوگئیں۔ یقینا حضرت معاذ علیہ الرحمہ کی زندگی اپنے باپ کی حقیقی ترجمانی تھی۔ جس طرح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رض نے امت کو سنبھالنے کا کام کیا تھا وہی تحمل بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والد کی تربیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ دارالعلوم سبیل الرشاد  کو مدرسہ کے انتظامی امور ریاست کرناٹک میں پھیلے ہوئے ہزاروں محبین و تلامذہ کو سنبھالنے کا مثالی کارنامہ محض دو سالوں میں انجام دیئے۔ مولانا معاذ صاحب وہ مہتمم تھے جن سے پورے سبیل الرشاد کے اساتذہ  بے پناہ محبت کرتے ہوئے خوش تھے۔ حضرت معاذ صاحب باوجود یکہ شیخ الحدیث بننے اور عہدہ اہتمام کے جلیل القدر منصب پر فائز ہونے کے اپنے ساتھیوں کے درمیان کبھی بھی تکلف نہیں کیا۔
مفتی عبد المغنی مظاہری صاحب صدر سٹی جمعیۃ علما گریٹر حیدرآباد نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے والد بزرگوار کے وصال کے بعد سے مفتی احمد معاذ رشادی نے کم وقت میں اپنی صلاحیتوں اور فکروں کی گراں باری کے باوجود مثالی کارنامہ انجام دیا۔ اہتمام کا عظیم منصب درس حدیث کی بڑی ذمہ داری وغیرہ وغیرہ پر انہوں نے بہت جلد انہوں نے قابو پالیا۔  اللہ تعالیٰ حاکم بھی ہے اور حکیم بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھری نوجوانی میں اپنے پاس بلا لیا اس کی حکمت وہی جانتا ہے۔ حالانکہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بھرپور کام لے گا لیکن حکمتِ الہیٰ کچھ اور تھی اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا نے فرمایا کہ خانوادہ ابوالسعود سے میرا علمی تعلق سے زیادہ ذاتی تعلق رہا ہے 1943ء میں جب میری پیدائش مدراس میں ہوئی تھی اس وقت میرے مکان سے حضرت علامہ ابوالسعود علیہ الرحمہ کے تیسرا گھر تھا اور میری والدہ ان کے وعظ میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ الحمدللہ میرا تعلق اسی زمانہ سے اس خاندان سے رہا ہے مفتی احمد معاذ صاحب کا سانحہ ارتحال کی خبر سن کر بہت صدمہ ہوا میں اس غم میں اس خاندان کا برابر کا شریک ہوں۔
مولانا غیاث احمد رشادی صاحب صدر صفا بیت المال انڈیا نے کہا کہ ہمارا ذہن اس بات کو قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہیں تھا کہ حضرت معاذ صاحب کا وصال ہوا، عام طور سے یہ ذہن بنا ہوا رہتا ہے کہ فلاں بڑی عمر کو پہنچ چکا ہے، فلاں بیمار ہے ان کے انتقال کی خبر کوئی معنی نہیں رکھتی توقع کے عین مطابق ہوتا ہے۔لیکن معاذ صاحب کا وصال ہم سب کیلئے یقین کرنا نہایت مشکل کام تھا۔ سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ خانوادہ ابوالسعود کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ کبھی غرور نہیں کرتے۔ حضرت معاذ صاحب علیہ الرحمہ کے مزاج میں حد درجے سادگی دیکھی میں نے جب بھی گفتگو کی تو وہ بحیثیت مہتمم اپنے منصب کو بھول کر انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ گفتگو کرتے یہ ان کا وصف خاص تھا۔
مولانا احمد ثمال رشادی نائب مہتمم دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور نے اپنے بڑے بھائی حضرت معاذ صاحب کے بارے میں گھریلو حالات بتلاتے ہوئے کہا کہ وہ بچپن ہی سے بزرگ مزاج تھے اور ہم بھائی بہن ان سے خوف کھاتے تھے۔ حضرت کا جو رعب تھا کہ گھر میں بھائی بہنوں کے درمیان ہوتے کوئی یہ مجال نہیں کرپاتا کہ وہ نمازوں کو فوت کرے شرعی امور کا بھر پور لحاظ کرواتے شرارت اور ضد کرنے پر والد صاحب بھی ہم کو انہی کے پاس بھیج دیتے الحمدللہ میرے عالمیت کے آٹھ سال تک مسلسل میں درس حاصل کرتا رہا۔ حضرت اہتمام کو سنبھالنے کے بعد سے نہایت مشفقانہ رویہ اختیار کر چکے تھے کہ دو سالہ دور اہتمام میں کسی استاذ کو سخت نہیں کہا اور گھر کا بھی ماحول یکسر تبدیل ہوچکا تھا۔ اپنے خطاب میں حضرت علیہ الرحمہ کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ دوران طالب علمی انہیں چشمہ لگ گیا تھا اور اس کا نمبر بھی کافی زیادہ ہوچکا تھا تو حضرت نے اپنا یہ معمول بنا لیا تھا کہ اپنے اساتذہ کے وضو کے بعد ان کی چپلوں پر لگا ہوا پانی سیدھے کرنے کے بہانے وہ پانی اپنی آنکھوں پر مل لیتے ان کے اس معمول سے ان کی آنکھوں کی بینائی درست ہوگئی اور چشمہ لگانے کا سلسلہ بھی ختم ہوا یہاں تک وہ آخری میں بالکل بھی چشمہ استعمال نہیں کرتے تھے۔
مولانا زبیر احمد رشادی صدر مجلس العلما کرنول نے کہا کہ ہم نے مفتی احمد معاذ صاحب علیہ الرحمہ کے مختلف ادوار دیکھے طالب علمی کا زمانہ، تدریسی زمانہ اور اہتمام کا زمانہ جو نہایت شفاف رہا۔ تدریس کا اسلوب بہت عمدہ ہوتا طلباء پر ایک قسم کا رعب چھا جاتا تھا۔ دو مہینے پہلے ملاقات کرکے مدرسہ کے احوال اور پیش آنے والی دشواریوں پر بات کیا تو انہوں نے بہت آسانی سے جواب دیا کہ میں ان دو باتوں پر عمل پیرا ہوں جن کو میرے والد اور دادا نے عمل کیا تھا پہلے مدرسہ کی رقم امانت سمجھنا اور اخلاص کا دامن نہیں ہاتھ سے نہیں چھوڑنا پھر ان شاء اللہ یہ سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔
اجلاس کا آغاز نماز مغرب کے بعد ہوا مولانا نعیم کوثر رشادی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ ابتدا میں مختلف علماء کرام نے اظہار خیال کیا اور اپنے اپنے تأثرات پیش کیے۔ مولانا لطف اللہ مظہر رشادی صاحب دامت برکاتہم کی رقت انگیز دعا پر اجلاس اختتام کو پہنچا۔ اجلاس میں محبوب نگر کے علاوہ حیدرآباد، بنگلور، کرنول، گدوال، ویلگوڑ، آتماکور، نلگنڈہ، شولاپور اور گلبرگہ وغیرہ سے کثیر تعداد میں شرکت کی۔کلیدی خطاب سے پہلے مولانا عبد القوی حسامی صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×