سیاسی و سماجی

اردو کے حوالے سے ہماری زبوں حالی!!!

اردو زبان بڑی شیرینی زبان ہے اور زیا دہ بولی جا نی وا لی زبان ہے ۔ یہ زبان کئی زبانوں کا مجمو عہ ہے ۔ اس میں لطا فت ہے ،
ظر افت ہے ، ار دو اشعار میں وزن ہے اور قا فیہ وردیف سے مزین زبان ہے۔ سا معین ار دو اشعا رسے محظوظ ہوتے ہیں ۔
یہی وہ زبان ہے جس میں مضا مین لکھ کر مضمون نگار اپنی ما فی الضمیر کو اجا گر کر تے ہیں ،
آ زادی ہند میں بھی ز بان اردو سے بہت کام لیا گیا ، اس زبان میں کئی ادیب گذرے اور حال میں کئی اد باء مو جود ہیں ۔ اِ س زبان میں اَن گنت کتا بیں لکھی گئیں ۔ اور لکھی جا رہی ہیں ،اور ان شا ء اﷲ لکھی جا تی رہیںگے ۔ خطباء ، فصحاء ، علماء ، حفاظ ،ائمہ ،  پرو فیسر ، ڈاکٹر س ، انجینئر ، عام آدمی غر ضیکہ ہر ایک نے اس زبان کو استعمال کیا۔ اور استعمال کر تے ہیں ۔ ہمارے ملک میں مسلمان اور کئی دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے گھروں میں اسکو بولتے ہیں ، اوریقیناً اسلامی سر مایہ بھی اس زبان میں بہت زیا دہ ہے اور دیگر ممالک میں بھی یہا ں کے مہا جرین اردو بولتے ہیں ۔
اس تمہید سے اندا زہ ہوگیا ہو گا کہ زبان اردو ہر ایک کی ضرورت ہے ،اور اسکی افادیت مسلّم ہے۔یہ قابل داد ہے کہ
حکو مت تلنگا نہ کی جانب سے اس زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے نیزشہرہ آفاق زبان ہے ۔
بڑی خوش آئندہ بات ہے کہ حکومتی سطح پر اردو میڈ یم اسکول قائم ہے کم از کم وہاں تو بچے اردو پڑھ رہے ہیں
لیکن عوامی سطح پر اردو کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے اردوزبان کا براحال ہے ۔ ان سطور میں اسی کا تذکرہ ہے ۔
کس سے شکوہ کریں ’’ہونٹ بھی اپنے دانت بھی اپنے ‘‘کا مصداق ہے ۔ مگر حق کا اظہار بھی ضروری ہے ۔اور جب تک ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کیا جا ئے تب تک معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے مذا کرہ کے طور پر یہ سطور دردِدل سے تحریر کررہا ہوں ۔
اردو زبان تلنگانہ میں خاص کر حیدر آباد میں بہت فروغ پائی ، اسلئے شہر حیدرآباد کو اردو مسکن ومعدن وغیرہ کہا جا تا ہے ۔
یہاں اردو گھر ہے ،یہاں اردو ہال ہے ،یہاں دائرہ المعارف ہے، یہا ں قلی قطب شاہ ،محبوب حسین جگر ، بے ہوش نگری ،عابد علی خان ،مولا نا عاقل حسامیؔوغیرہ شعراء ،ادباء خطباء اور فروغ اردو میں پیش پیش رہنے والی شخصیا ت گذرے ہیں ۔ مگر آج افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج نئی نسل میں اردو کا فقدان ہے ۔ پہلے مشاعرے ہوا کرتے تھے لوگ اس میں شریک ہوتے تھے اور شعراء کے اشعار سن کر اشعا ر کے کنا یات واستعارات کو سمجھتے تھے ، اشعار میں مستعمل مشکل الفاظ کے معا نی بھی جا نتے تھے ۔ مگر آج مشاعروں کا وجود بھی ختم ہوتے جا رہا ہے ۔
اگر کہیں ہوتا بھی ہے تو چند شوقین یا معمر حضرا ت اس میں آتے ہیں کیونکہ نئی نسل کو اردو ہی نہیں آتی پھر وہ اشعار فہمی کیسے کریں گے ؟
اکثر نئی نسل کو اردو اخبار پڑھنے نہیں آتا ،۔ اسلئے بعض اردو اخبار والے اپنے اردو اخبار میں انگلش کے چند صفحات نکا ل رہیں ہیں۔
اردو ماہنا مے نہیں پڑھ سکتے اسلئے بعض ماہنا موں کے اندر بھی چند انگریزی صفحات کو شا مل کرنا پڑرہاہے،اردو رقعے (دعوت نامے )
نہیں پڑھ سکتے، اسلئے دعوت ناموں میں بھی انگریزی متن شامل کر نا پڑرہا ہے ۔قرآن کا اردو ترجمہ نہیں پڑھ سکتے ۔
اس لئے ہما رے ہندوستا نی بچے انگریزی میں ترجمہ قرآن پڑھ رہے ہیں ۔
مزید رونا یہ ہیکہ گود کے بچہ کو بھی اردو کے بجائے انگریزی الفاظ سکھا ئے جا تے ہیں اور بچیں ہی سے اسکی ذہن سازی غیر اردو زبان سے کی جاتی ہے اور وہ اسی کا دلدادہ ہوجاتا ہے ۔
ضرو ری وضا حت :۔
اس تحریر سے ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں انگریزی زبان کا مخالف ہوں ’’ نہیں ‘‘ بلکہ بندہ ناچیزکہتا ہے انگریزی سیکھیں ، تلگو زبان سیکھیں ۔اس میں آگے بڑھیں اور اس زبان میں کمال حاصل کرے مگر اپنی مادری زبان کو نہ چھوڑیں ۔
اردو نہ جاننے کے نقصانات
آج اردو نہ جاننے سے ہمارے بچے نہ اردو تفسیر پڑھ سکتے ہیں، نہ اردو اخبار پڑھ سکتے ہیں ،نہ اردو بیان مکمل سمجھ سکتے ہیں، نہ اللہ والوں اور مشائخ کی بات سمجھ سکتے ہیں، نہ ہی اردو زبان میں کچھ دیر تقریر کر سکتے ہیں بعض کا حال یہ ہے کہ چند سطر اردو لکھ بھی نہیں سکتے اور حال یہ ہوگیا کہ اردو گنتی بھی ایک سے لیکر سو تک ہمارے بچے بلکہ بعضے بڑے بھی نہیں بول سکتے۔(معذرت کے ساتھ )
مثلاً37 اس ہندسہ کو ’’سینتیس ‘‘نہیں بولیں گے ’’ تھرٹی سیون ‘‘ بولیں گے۔ 247 بولنا ہے تو بعضے لوگ ’’دو سو فارٹی سیون ‘‘ بولتے ہیں ۔غور کا مقام ہے اردو کیسی بے یار و مددگار ہوتے جارہی ہے ۔
اردو کے فقد ا ن کی وجہ:۔
یہ بات در اصل سوچنے اور دل پر ہاتھ رکھ کر فکر کر نے کی ہے کہ آخر ہما رے ملک ، ہماری ریاست ، اور شہر حیدرآباد میں خاص کر اردو زبان کی تر ویج کو تدریج کیوں حاصل ہے ؟ فروغ اردو کیوں نہیں ہے ؟نئی نسل اردو سے نا بلد کیوں ہوتی جا ر ہی ہے؟ جب ہم سر وے کریں ، اور سوچیںتویہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہم صرف شکوہ کر تے ہیں کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے ختم ہورہی ہے۔ مگر اردو زبان ختم ہو نے کے وجو ہا ت کی طرف ہما ری نگاہ نہیں جاتی ۔ صرف رونا رونے سے کیا ہو گا ؟مرض کا دفا ع اسی وقت ہو گا جب سبب ِ مرض در یافت کریں اور سبب کو دور کریں تو مرـض بھی د ور ہو گا ۔ ناک پر مکھی بیٹھ جائے تو عقل مند ی پر یہ نہیں کہ ناک کاٹی جائے بلکہ عقل مند ی یہ ہے کہ مکھی اڑائی جائے اور ناک صاف کی جائے ۔
اردو سے دوری کی وجوہات کئی ایک ہیں اس میں سے ایک اہم وجہ مرا کز اردو اور، مدارس اردو کا فقدان ہے ۔
آ ج ہم اپنے معا شرہ میں سر وے کر کے دیکھیں کہ کتنے خانگی اردو میڈیم اسکول ہما ری محلّوںمیں ، ہمارے شہروں میں ، ہمارے قصبوں میں ، ہمارے ضلعوں میں موجود ہے ؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟
صرف گورنمنٹ کے چند ایک اردو اسکول مل سکتے ہیں مگر خانگی اعتبا ر سے کوئی اردو اسکول نہیں ملتا ۔
بعض اضلاع میں چند ایک خانگی اردو میڈیم میسر ہیں مگر حیدرآبادمیں ایک سرو ے کے مطابق دہم جما عت تک کا خانگی اسکول معدوم ہے۔ ایک بہی نہیں ملا ،(جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہیں )
خانگی اسکول انگلش میڈیم بکثر ت ہیں اور اسکول انتظامیہ اردو داں ہیں مگر اسکے باوجود اردو میڈیم کی طرف
توجہ مبذول نہیں ہوتی ۔ ۔۔ اب بتائیں جب مرا کز اردو ہی نہیں تو اردو کہا ں سے فروغ پا ئے گی ؟
اس وجہ سے اردو ختم ہورہی ہے ۔
اردو اسکول نہ کھولنے کی وجہ :
انگریز ی اسکول انتظامیہ یہ کہتے ہیں کہ اردو اسکول کھولیں گے تو بچے نہیں آتے۔ سر پرست داخلہ نہیں کرواتے ،بات صحیح ہے ۔ سب کا احجان انگریزی ی طرف ہے۔
مگر یہ با ت بھی قا بلِ غور ہے کہ انگریزی اسکول میںاگر سو(۱۰۰) فیصد بچے آتے ہیں۔ تو اردومیڈیم اسکول اگرکھل جائے تو اس میں تیس(۳۰) فیصد تو آئیں گے ۔ بہر حال آئیں گے ذرا ہمت تو کرکے دیکھیں ۔ پھر کیا با ت ہے کہ تلگو میڈیم ،ہندی میڈیم اسکول کھولے جائے ہیں جب کہ ان کے ساتھ بھی یہی مشکل ہے کہ لیکن پھر بھی ہمت کرکے وہ زبان کی قدر دانی کرکے کوئی ہندی میڈیم کوئی تلگو میڈیم اسکولس کھولتے ہیں ۔ جبکہ طلباء کی تعداد وہاں بھی نسبتاً کم ہوتی ہے مگر ہمت کر کے زبان کی ترویج کی کرنا تو ابل زبان کی ذمہ داری ہے ۔ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ لوگوں کا رجوع کم ہے طلباء کا رجوع اقل ہے اس لئے ہم اس زبان کے اسکولس ہی نہ کھولیں جائیں تعجب ہوتا ہے آج اردو زبان کے اسکولس نا یاب ہیں ۔ اردو ان پیج کمپیوٹر کورس آپ کو سیکھنا ہے تو حیدرآباد میں گھوم کر دیکھیں بس کہیں کہیں آپ کو یہ کورس ملے گا ۔ اکثر انسٹی ٹیوٹ میں دیگر زبانوں پر کام کرنے کا طریقہ سکھایا جائیگا مگر ان پیج نہیں سکھایا جاتا کیو نکہ یہ بات واضح ہے کہ اس انسٹی ٹیوٹ چلانیوالے یا انسٹر کٹر کو خود اردو نہیں آتی یااردو آتی ہے مگر ان پیج نہیں آتا ۔
ذرا غورکرین اگرکمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں ہی اردو زبان نہیں سکھائی جائے گی تو پھر اردو ان پیج کہا ںسکھاجائے ؟؟اور کمپیوٹر پر اردو کا بہت سارا کام درپیش ہوتا ہے اس کا حل کیا ہوگا ؟ اردو ٹائپ کرنے والے کہا ں سے ملیں گے ؟؟
بڑا المیہ ہے بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے ہمارے بزرگان دین اورہمارے آبا ء واجداد، اردو سے اتنی محبت کرتے تھے انگریزی جاننے کے باوجود خود اردو بولتے تھے اور اپنی اولاد کو اردو بولنے کی تاکید کرتے تھے، اسی وجہ سے ان کی اولاد آج بھی اردو جانتے ہیں ۔ مگر پھر بھی وہ اپنی اولادکو نہیںاردو سکھنا نہیںہے جبکہ اردو سیکھنے میں کوئی رکا وٹ نہیںہے کیا حکومتی سطح پر اردو سیکھنے پر پابندی ہے ؟؟
با لکل نہیں بلکہ حکومت تو اردو میڈیم اسکولس باضابطہ کھولنے کا پر میشن دیتی ہے ، بہر حال اب ہمیں کیا کرنا ہے ؟آئیے ان اقدامات پر توجہ دیں۔
اقدا مات :۔ فروغ اردو ، اشاعت اردو اور تعلیم اردو کیلئے اب ہمیں کیا کر نا ہے ؟ چند ایک گذارشات پیش خدمت ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
٭ اردو کے فروغ کیلئے ہر اردو داںفردکا فکر مند ہو نا ۔
٭ اردو میڈیم اسکول اعلیٰ سطح پر کھولنا ۔
٭ اردو اسکول میں دلچسپ پرو گرام رکھ کر تشویق دلا نا ۔
٭ شعراء اس سلسلہ کو باقی رکھنے اور فروغ اردو کیلئے ہر ایک ایک شاعر ایک اردو اسکول کھو لنا ۔اردو زبان میں مزاحیہ کلام یا مکالمہ پیش کرنے والے بھی ایک ایک اردو اسکول کھولنے کی فکر کرناورنہ ایک وقت ایساآئیگا ان کے کلام یامکالموںکوسمجھنے ۔
٭ اردو اخبار اور اردو ماہنا مے نکالنے والے حضرات بھی ایک ایک اردو اسکول کھولنے کی سعی کرنا۔
ِ ٭ ہر دینی مدرسہ والے اور ہر انگلش اسکول والے ایک ایک اردو اسکول قائم کرنے میں پہل کرنا
٭ ما لدار لوگ اپنے کچھ مال کو فروغ اردوکیلئے لگا نا ۔مثلا اپنی جانب سے اردو اسکول کے فر وغ لئے عطیہ دیں ،اردوکتابیں خرید کردیں تا کہ اردو اسکول چلانے والوں کو آسانی ہو جائے اور اردو اسکول میںاخراجات کے لئے خصوصی عطیہ دیں۔
٭ اردو کے بقا ء کیلئے حسب سابق روایات مشاعروں کا انعقاد کرنا ۔
٭ اردو اکیڈیمی کی جا نب سے اردو اسکول کے قائم کرنے میںمکمل رہبری کا انتظام ۔
٭ فرغ اردو کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا۔
٭ حکو مت سے مطالبہ کریں کہ اردو نصابی کتب برائے فروخت چھپا کر زیادہ سے زیادہ کتب خانوں میں رکھے ۔تا کہ اردو میڈیم اسکول کھولنے والوں کو نصابی کتب کا مثلہ درپیش نہ ہو۔
کیونکہ بڑا مسئلہ اردو میڈیم اسکول چلا نے کیلئے نصا بی کتب کا ہو تا ہے ۔ حکو مت کی جا نب سے جو بھی نصا بی کتب چھپتے ہیں
ان کے مضامین و ترتیب بہت عمدہ ہوتی ہے۔ مگر سرکاری نصا بی کتب (برائے فروخت )بآسانی میسر نہیں ہوتے بلکہ بعض کتب خا نوں سے یہ با ت معلوم ہوئی کہ
اُن اردو کتا بوں کی مانگ ہی نہیں ہو تی اس لئے چھپا یا نہیں جا تا یا کم چھپاتے ہیں۔حکو مت مفت سر برا ہی کی کتب چھپا تی ہے اور وہ سر کاری اسکول میں دیجاتی ہے اگر ہم لوگ زیادہ سے زیا دہ اردو اسکول قا ئم کریں گے تو حکو مت سے مطالبہ کر کے مزیداردو کتب برائے فروخت چھپا نے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
بہر حا ل اردو کی زبو نحا لی کی یہ داستاں ہے ۔ اگر آ ج ہم اقدام نہیں کریں گے تو اردو کا مستقبل تابناک نہیں ہو گا ۔کیا حال ہوگا واللہ اعلم
اور ہمارے بچے نئی نسل اردو سے بالکل نا بلد ہوجا ئیں گے اور بڑے نقصا نات ہو نگے ۔
پھو پھو کس کو کہتے ہیں اور خالہ کس کو کہتے ہیںاور ما موں کس کو کہتے ہیں بچہ بولنے سے سمجھنے سے عاجز ہونگے ۔ کیو نکہ وہ ہر ایک کو آنٹی انکل بولنا ہی سیکھا ہے ۔ اردو سے عدم واقفیت ہورہی ہے ۔ ابھی وقت ہے جا گیں ۔ اور پیش کش کریں ۔ یہ چند باتیں بعض اکا برین سے مشاورت کے بعد اقدامات کے سلسلہ میں لکھی گئییہ کوئی تحکمّانہ و آمرانہ تحریر نہیں ہے۔غور کرنے ضرورت ہے ۔اگر اور کوئی تدبیر یا فروغ اردو کیلئے مشورہ ہو تو آپ ہمیں بتائیں کیونکہ ہم اور ہمارے بعض ساتھی یہ فکر لے کر اٹھے ہیںگرچہ ہماری کچھ بساط نہیں،کچھ حقیقت نہیں لیکن انگلی کٹا کرشہیدوںمیںنام لکھانے کے مصداق اور الد ال علی الخیر کفا علہ (خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا بھی کرنے والے کی طرح ہے)کا مصداق بننے کے کوشان ہیں۔ اگر یہ حیدرآبادکے اعلی اردو دواں حضرات اس فکر کو اوڑھ لیں تو حیدرآباد میں فرو غ اردوکا کام بہت ہوسکتا ہے ۔
یقیناً انگلش اسکول والے ، عربی مدارس والے ،اخبار والے اور شعراء اپنے اعتبار سے بڑی محنتیں کر رہے ہیں اس سے انکار نہیں شبانہ روز کاوشوں سے کافی کام ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس فروغ اردو والی محنت کو بھی شامل کرلیں تو اس زبان اردو کا جوبرا احال ہوا ہے وہ صحیح ہو سکتا ہے۔ پھردوبارہ اردو زبان میں اچھے شعراء ، ادباء ،خطبا، مضمون نگا اورادبی تخلیق کار وجود میں آسکتے ہیں اور حیدرآبادمیں حقیقی معنی میں پھر اردو مسکن بن سکتا ہے ۔
یہ سب عاجز کے احسا سات ہیں کسی کو کوٹھیس پہونچانایا کسی سے شکوہ نہیں ہے بلکہ اظہار حقیقت ہے اگر کسی کو تکلیف پہونچی ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ امید کہ اس مضمون کو پڑھ کر فکر منداحباب اور خواتین عمل کریں گے یا رابطہ کرکے اجتماعی فکر کرنے کی طرف
پہل کریں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×