شخصیات

موت نے ان کو بخشی ہے حیاتِ جاوداں

دراز قد، گندمی رنگ ، سفید قمیص ، ڈھیلا ڈھالا شلوار، سفید ٹوپی ، آنکھوں پر سرخ چشمہ ، ہاتھ میں عصا، کندھے پر سفید یا لال رومال ، سرمۂ شیروانی ، گرج دار آواز ، بارعب شخصیت کے مالک جنہیں ہمارے گاوں میں عالم صاحب اور پوری ریاست میں حضرت مولانا قاضی سمیع الدین صاحبؒ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۷؍اگست بروز جمعہ ہم تمام سے رخصت ہوگئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
میں نے جب سے شعور سنبھالا مدارس ہی کی خاک چھانی ، علماء ، نظماء کے ارد گرد رہنے کے بے شمار مواقع فراہم ہوئے لیکن آج تک میری نظروں نے آپ ؒ جیسا عالم اور ناظم نہیں دیکھا ، عالم ایسے کہ علامہ ابراہیم بلیاوی ، مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہمااللہ کے فیض یافتہ تھے ، ناظم ایسے کہ انتقال سے ایک دن پہلے بسترِ مرگ پر رہتے ہوئے بھی مدرسین کی ماہانہ یافت کی ادائیگی کے فکرمندتھے ۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس ہم کو میر سے صحبت نہیں رہی
سن پیدائش اور ابتدائی تعلیم
سن 1946 میں ضلع مید ک کے نرساپور سے تعلق رکھنے والا ایک معزز گھرانے میں آپ کی پیدائش ہوئی ، آپ کے والد ماجد محترم قاضی غلام محی الدین صاحبؒ نرساپور اور اطراف و اکناف کے قاضی اور جامع مسجد نرساپور کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے علاقہ کی معزز شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے ۔
مولاناؒ کا تعلیمی سفر گورنمنٹ اردو اسکول نرساپور سے شروع ہوا ، پھر ریاست تلنگانہ کی سب سے قدیم دینی درسگاہ جامعہ عربیہ سیوانگر میں طلب علم دین کے لیے حاضرہوئے آپ ؒ وہاں کے اولین تلامذہ میں شمار کئے جاتے تھے ، کچھ سال وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ’’ام المدارس دار لعلوم دیوبند‘‘ کا رخ کیااور 1966ء میں دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی ۔
مولانا کے درسی ساتھیوں میں قابل ِ ذکر شخصیات حضرت مولانا وزیر علی صاحب دامت برکاتہم سیوانگر ، حضرت مولانا عبد الرؤوف صاحب دامت برکاتہم سیوانگر ، حضرت مولانا غلام مصطفی صاحب دامت برکاتہم مشیرآباد ،حضرت مولانا خالد امام صاحب دامت برکاتہم ونپرتی ،شامل ہیں ۔ (اللہ ان حضرات کی عمروں میں برکت نصیب فرمائے )
خدمات اور کارنامے
مولانا ؒ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، مولاناؒ نے اپنی خدمات کا آغاز اپنے وطن نرساپور ہی سے کیا ، فراغت کے فوری بعد سن 1966ء میں مدرسہ مفتاح العلوم کے نام سے نرساپور میں دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی ، جو آج ہمارے ضلع کی سب سے قدیم دینی درسگاہوں میں شامل ہے ، جہاں ہمہ وقتی تعلیم کے ساتھ ساتھ صباحی تعلیم کاپختہ نظام ہے جس کی دو شاخیں ہیں ، اس مدرسہ سے اب تک سینکڑوں طلباء حفظ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں ، یہاں کے دسیوں فارغین ملک کی بڑی جامعات سے درس نظامی سے فراغت حاصل کرکے شہر کی بڑی جامعات میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔سن 1982ء میں ’’مدرسہ اسلامیہ ‘‘کے نام سے ایک اردو میڈیم اسکول کا قیام میں عمل لایا جس میں جماعتِ چہارم 4th Classتک کی تعلیم دی جاتی رہی جس سے تعلیم حاصل کرنے والے کئی طلباء و طالبات بھی آج ملک وبیرون ملک میں بڑے عہدوں پر فائز ہے ،جس کا انتظام و انصرام مولانا ؒ کے علاوہ استانی محترمہ مولانا کی اہلیہ بھی سنبھالتی تھیں ،جس کا تعلیمی فیضان 2017میں مولاناؒ نے اپنی اور اپنی اہلیہ کی پیرانہ سالی کے باعث موقوف کردیا ،جامع مسجد نرساپو ر میں خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے ،جس میں اکثر سلسلہ وار قرآن مجید کی تفسیر فرماتے تھے ، وقف بورڈ کی جانب سے تعلقہ نرساپور کے قاضی مقرر تھے ، مجلس علمیہ تلنگانہ و آندھراپردیش کے بانی اراکین میں شمار کیے جاتے تھے ، عرصہ تک مجلس علمیہ کے نائب ناظم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے ، جمعیتہ علماء اور اس کے اکابرین سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے ،جمعیتہ علماء تلنگانہ کے نائب صدر ،ضلع میدک کے صدر کے عہدہ پر فائز رہے ،پورے ضلع میں جمعیۃ کی شاخوں کو مضبوط کرنے اور کام کو وسیع کرنے میں نمایاں کردار اداکرتے رہے، جمعیتہ اور مجلس علمیہ کے تمام پروگراموں میں پیرانہ سالی کے باوجود نرساپور سے حیدرآباد بس کا سفر کرتے ہوئے ضرور تشریف لے جاتے ، اجلا س کے اختتام تک بشاشت و دل جمعی کے ساتھ اسٹیج پر براجمان رہتے ، قرب وجوار کے کئی مدارس ومکاتب کی سرپرست تھے ، یہ مولانا ہی کی شخصیت کا کمال تھاکہ نرساپور کا علاقہ آج تک دیگر مسالک کے وجود سے پاک و صاف ہے ۔
27؍جولائی بروز پیر صبح تقریبا 11:30 بجے مولانا کی طبیعت ناسازہوئی ،آکسیجن لیول کم ہوا ، گورنمنٹ ہاسپٹل نرساپور میں مختصر طبی جانچ کے فوری بعد بذریعہ ایمبولنس سن شائن ہاسپٹل گچی باؤلی لے جایا گیا، تقریبا11؍روز ہاسپٹل میں زیر علاج تھے ،4؍اگست بروز منگل ہم چند ساتھی بغرض عیادت ہاسپٹل پہونچے، مولانا مسیح الدین صاحب قاسمی (فرزند مولاناؒ )سے فون پر رابطہ کیا ، مسیح بھائی نے مولاناؒ کو بتایا کہ گاوں سے حفاظ آئے ہوئے ہیں مولاناؒ نے کہا کہ ویڈیو کال کرواؤ، ویڈیو کالنگ کے ذریعہ دیدار ہوا ، ہاتھ کے اشارے سے سلام علیک ہوئی ، خیریت دریافت کی ، دعا کا اشارہ کیا ، پھر مولانا مسیح الدین صاحب سے فون پر ساری تفصیلات و خیریت دریافت کی اور واپس ہوگئے ، طبیعت خراب ہونے سے کچھ روز پہلے غالباً 18 جولائی بروز جمعہ میں اور میرے دو ساتھی بعد نماز مغرب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور تقریباًدیڑھ گھنٹہ ہماری ملاقات کا سلسلہ جاری رہا ، بڑے ہی خوش گوار ماحول میں مولانا نے اس ملاقات میں دورِ طالب علمی کا، اپنے درسی ساتھیوںکا ، دیوبند کے سفرکا، اور اپنے اساتذہ خاص کرعلامہ ابراہیم بلیاویؒ اور مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کا تذکرہ فرمایا ، بالآخر ۷؍اگست بروز جمعہ صبح کی اولین ساعتوں مولاناؒ نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔
ایک ایسے وقت میں جب یکے بعد دیگر اہل اللہ اور علماء ہمیں داغ مفارقت دے رہے ہیں مولانا ؒ کا وصال یقیناساری ریاست کے علمی حلقوں میں ایک بہت خلاء ہے ، لیکن اہلیان ِ نرساپور اور ہم تمام کے لیے ایک ایسا ناقابل فراموش نقصان ہے جس کی تلافی محال ہے ، مولانا کے وصال نے نہ صرف ان کے فرزندان کو بلکہ ہم تمام نرساپور کے علماء و حفاظ کو یتیم کردیا ،یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں ہوگا کہ موت نے بھلے ہی ان کے جسم و پیرہن کو خاک تلے دبا دیا ہو مگر ان کے تابندہ اور درخشاں کارنامے ہر گزرتے دن کے ساتھ روشن ہی ہوتے چلے جائیں
گے ۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ اہل علم تو مرکر ہی دائمی اور ابدی زندگی پاتے ہیں ۔ موت نے ان کو بخشی ہے حیاتِ جاوداں ؎
اللہ رب العزت سے دعاہے کہ مولانا ؒ کی خدمات جلیہ کو قبول فرمائے اورہم تمام کو مولانا ؒ کا نعم البدل عطا فرمائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×