شخصیات

میرے روحانی والد حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلیؒ (4)

ملاقاتیں
حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی صاحب سے دور ہوکر بھی ہر دم قربت کا احساس ہوتا تھا کیونکہ آپ سے خط وکتابت کا رابطہ جو قایم تھا، گردشِ زمانہ کی چکی چل رہی تھی،دن ورات پر لگائے اڑےجارہے تھے اسی درمیان یہ مژدہ جانفزا بھی سننے کو ملا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس دارالعلوم حیدرآباد میں ٢١ جون ٢٠٠٢ کو ہونے والا ہے تو شوق ملاقات، ذوقِ زیارت دو آتشہ ہوگیا۔ اکابر بورڈ کی آمد سے جو رونقیں شہر ومستقر پر ہوتی ہیں اس کا اندازہ ندوہ کے شب وروز سے بخوبی ہے۔ ان دنوں حضرت کے علمی جانشین و عملی وارث حضرت مولانا محمد نعمان الدین ندوی صاحب دارالعلوم حیدرآباد کی کہکشاں کے نیر آفتاب تھے، یہیں آپ سے آپ کے والد ماجد کے ایک ادنیٰ محب وشاگرد کا تعارف ہوا، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے اجلاس تک جانے اور واپس ہونے کابڑی بے قراری سےانتظار رہتا ، فارغ اوقات میں حضرت مولانا کی مجلس میں دل وجان فرش راہ کرنا ابھی تک بھولا نہیں ہے۔ حضرت مولانا عوامی جلسوں میں شرکت نہیں فرماتے تھے تو جتنا وقت بورڈ کے اجلاسوں کے علاوہ رہا ان میں دور نہ ہوتا۔ سفر ایک ہی تھا لیکن مختلف اوقات میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں تو اسے ملاقاتیں ہی کہا جائے۔اپنے کیی ایک ساتھیوں کو حضرت سے متعارف کروایا جن میں میرے حفظ وعالمیت کے دس سالہ رفیق عبد العظیم انیس فیضی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان دنوں گلشن عاقل ہی میں صبح وشام ہوتی تھی، پوچھنے پرسوالات واشکالات کا بوجھ کم ہوتا جاتا تھا،ذہن وفکر کو آسودگی مل جاتی تھی اور صرف حاضری ودیدار ہی تسکین جاں، حاصل تمنا تھی۔
بہت لگتا ہے دل صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے
قدرتی فیصلے۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
آگے بڑھنے اور پڑھنے سے پہلے نیرنگی زمانہ بھی دیکھتے چلیں، مضمون کی معنویت تلخیوں سے بھی معمور ہے، نکہت گل کے ساتھ ساتھ نالہ بلبل بھی ہے،  سب سے بڑی بات یہ کہ یہ کارخانہ قدرت کا ابدی نظام ہے کہ انسان حال کے نقشوں میں جیتا ہے، رنگ آمیزی اسے موجود تک محصور کیے رکھتی ہے، آنکھ انٹرنیٹ کے دور میں بھی اتنی بالغ نظر نہیں ہوپایی ہے کہ وہ کسی کنکشن کے ذریعے مستقبل کودیکھ پایے یہی تو بندہ پن کی علامت ہے کہ وہ مستقبل کے امکانات و ووقایع سے کورا اور اپنے آنے والے کل سے بے بہرہ ہے۔ خیر دو خراب چیزیں ہوئیں ،دو انہونیاں ہوگییں۔ ان دو شر کے پہلوؤں سے دو خیر کے سرچشمے پھوٹے، ایک تو والدین محترمین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک تہی داماں بندے کو اپنے گھر کا دیدار کروادیا، حج جو استطاعت کے بعد فرض ہوتا ہے بغیر استطاعت اور بغیرکسی استحقاق کے کروایا، اور اسی حج کے فیض وبرکات میں سے امامت کا شوق نہیں بلکہ ایک جنوں سا پیدا ہوگیا، ایک کمزور جو اپنی زندگی کے پچیس برس امامت نہیں کیا ایک بہت بڑا بھاری بھرکم بوجھ اپنے اوپر لادنے کی ٹھان چکا تھا، امامت وہ بھی شہر حیدرآباد میں اب تک کے سارے امتحانات سے کٹھن مرحلہ درپیش تھا، اللہ کروٹ کروٹ غریق رحمت کرے مسجد باغ برق جنگ گڈی ملکا پور کے صدر اول قاسم محی الدین پٹیل صاحب کو کہ انہوں نے بندے کے جذبات واحساسات کی قدر کی اور پندرہ سالہ امامت کی زریں تاریخ کی بنیاد بن کر ہر گام حوصلہ بڑھایا جس راستے پہ بندہ کمر ہمت باندھ چکا تھا اسے سنبھالا دیا۔اسی لئے قرآن مجید کہتا ہے کہ کوئی بشر اپنے حشر کے بارے میں نہیں جانتا، آج تو سب نے دیکھا ہے آنے والا توصرف اللہ واحد کے علم میں ہے۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
مولانا کا فیضان تفسیر
تکمیل تفسیر کی پہلی سعادت۔
٢٣ مارچ ٢٠٠٥ کی مغرب کی نماز کی امامت سے مسجد باغ برق جنگ گڈی ملکا پور مہدی پٹنم میں امامت وخطابت کا آغاز ہوا، جھری نمازوں کی امامت اور جمعہ کی خطابت کی ذمہ داری تھی، فجر بعد قاری عبد الباری صاحب کی تفسیر پڑھی جاتی تھی، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے مشورہ کے بعد تفسیر قرآن کا ماحول بنایا اور یہ مبارک سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس موقعہ پر نو پرس قبل ٢٠١١ میں تکمیل تفسیر کے جلسے کے لئے لکھے گئے مضمون  کے کچھ اہم اقتباسات ہی ہدیہ ناظرین  کرونگا،
"” آج اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری کلام کی تفسیر کی تکمیل کی نعمت پوری کردی، اپنے مالک سے ہم کلام ہونا بھی عبادت ہے اور اس کو سمجھنا اور سمجھانے کے قابل ہونا یہ بھی تو اسی محسن آقا کی کرم فرمائی ہے۔ ورنہ تو کہاں وہ ذات عالی اور کہاں یہ بندہ عاصی، اس موقعہ پر نہ صرف زبان مشکور و ممنون ہے بلکہ دل کی ساری دنیا اس کے احسان پر سجدہ شکر میں ہے، الفاظ وجملے ہی نہیں بلکہ دماغ میں ابھرنے والی غیر مرئی شعائیں بھی اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہیں۔ زندگی کی مصروفیات میں اس نعمت کا سایہ جیسے بادل بن گیا ہے،ایک نا قابل بیان کیفیت ہے، جس کا نام اگر ہوسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف شکر ہے۔
سن ٢٠٠٥ جب کلام اللہ کی تفسیر کا آغاز کیا تو ذہن و دماغ کے کسی گوشے میں بھی دور دور تک یہ احساس نہیں تھا کہ یہ ابتداء مقبول بارگاہ ہوگی، پورے قرآن کی تفسیر کرنے کی سعادت حاصل ہوگی، کبھی نتیجہ کو پیش نظر نہیں رکھا کہ شروعات تو کردی ہے کیا تکمیل بھی کرپاونگا، نام خدا لے کے بسم اللہ تو کردی اور جب ان چھ برسوں کا خیال آتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ بندے کے ذمہ اللہ نے ابتداء رکھی ہے،اس کے آگے وہ حالات کا بنانے والا ، ہر کرتے کو سنبھالنے والا، اس کی طرف لپکتے والے کو قبول کرنے والاہے۔ کام ہی میں تو حالات آتے ہیں لیکن اس کو استقامت کی بنیاد مل جائے تو وہ کام کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔
اس حسین موقعہ کا سہرا ان مخلص اساتذہ کی قربانیوں کے سر ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات میں قرآن مجید کی تعلیم دی۔ نہ صرف تعلیم دی بلکہ قرآن پڑھنا سکھایا اور اس کو حفظ کروایا، اور فہم وتدبر کے مرحلے میں تفہیم قرآن کی دولت دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اساتذہ کرام کے بغیر صرف کتابی علم کافی نہیں ہے۔ کتابوں کی دنیا اور مطالعہ کا چسکہ قرآن سے والہانہ تعلق پیدا نہیں کرسکتا۔ اس موقعہ پر خاص طور پر حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی صاحب کی یاد آرہی ہے جن سے تفسیر قرآن اور صحیح بخاری پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، جنہوں نے ذوقِ قرآن سمجھایا، دل میں قرآن کی عظمت کو پیدا کیا۔
تین پوائنٹس۔
پہلا پوائنٹ
تکمیل تفسیر کے اس با برکت موقعہ پر ملت اسلامیہ کے مخلص معاونین کی خدمت میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنا مالی و اخلاقی تعاون جاری و باقی رکھیں کہ نامعلوم ان کے تعاون سے کیسے کیسے افراد تیار ہوں جو اللہ کے کلام کو عام کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں، دینی مدارس میں چل رہے نظام کی خوبی یہ ہے کہ آج کے مفاد پرستانہ وخود غرضانہ ماحول میں مخلص علماء کرام تیار ہورہے ہیں۔ دینی مدارس کے سلسلے میں آپ کا تعاون دنیا کے کسی نہ کسی خطہ میں با فیض ہوکر رہے گا، بندہ ان تمام مدارس کا مشکور ہے جن سے اس نے اکتساب فیض کیا ہے۔ جن میں مدرسہ فیض العلوم مکھتل ضلع محبوب نگر، سبیل السلام صلالہ بارکس حیدرآباد ، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو، دارالعلوم دیوبند، المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد، انگلش اینڈ فارن لینگویجز سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد۔
دوسرا پوائنٹ
چھ سال کا وقت کوئی چھوٹا وقت نہیں ہے لیکن یہ عرصہ اسی طرح گزرا کہ ہر صبح ایک نئی آیت کھلی آنکھ کو کھول دیتی، یعنی درس قرآن کا وقت ہر دن بعد نماز فجر ہوتااور رات میں مطالعہ کرنے کے بعد جب درس قرآن ہوتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ دن بھر کی چارجنگ ہو گئی ہے اور روح کو اس کی غذا مل گئی اور ایسا نہیں ہے کہ ہر دن بلا ناغہ درس ہوتا بلکہ اس میں ناغے بھی ہوتے تھے تو محسوس ہوتا کہ کچھ کھو گیا ہے۔ اس عرصے میں بندے کا نکاح اور حج کے مبارک سفر کے طویل وقفے بھی آیے۔ بیماری وعیادت کی تعطیلات بھی ہیں لیکن ان تمام کے باوجود کریم آقا نے اس حقیر کے قرآنی علم کو قبول فرمالیا۔
تیسرا پوائنٹ۔
قرآن مجید میں ١١٤ سورتیں، ٣٠ پارے، اور کم وبیش ٦٦٦٦ آیتیں ہیں۔ اگر یومیہ ایک پارے کا معمول بنالیں تو ایک مہینے میں قرآن مجید کی تفسیر ہوگی، اور اگر ایک سورت مبارکہ کے سمجھنے کا معمول بنالیں تو ساڑھے تین مہینے درکار ہونگے، ایک معمول یومیہ ایک رکوع کا ہے جس میں آسانی بھی ہے اس صورت میں ڈیڑھ سال میں ایک پورا دور ہوجائے گا، اور اگر صرف ایک آیت کریمہ ہی کا معمول ہوجائے تو تقریباً انیس سال کا وقت درکار ہوگا۔ اس تفصیل کا مقصود یہ ہے کہ کلام الٰہی ساٹھ سالہ میں بآسانی وسہولت چار مرتبہ سمجھا جاسکتا ہےلیکن افسوس اس کا ہے کہ ایسی کوئی تحریک ہمارے اندرون پیدا نہیں ہوتی یا اس طرح کی کوئی عملی ترتیب ہم نے نہیں بنائی،ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ اللہ کا کلام زندگی میں پورا نہ ہو۔
تکمیل تفسیر کی دوسری سعادت۔
مفسرقرآن حضرت مولانا کی دعائیں تھیں کہ دربار خداوندی میں باریاب ہوگییں، سن ٢٠١١ میں تفسیر قرآن مجید کے دوسرے دور کا آغاز ہوا اور پھر آہستہ آہستہ دن بدن ہوتے ہوتے تکمیل تفسیر کے دوسرے دور کی سعادت سے بھی مولیٰ تعالیٰ نے سن ٢٠١٨جون میں اس کمزور بندے کو سرفراز فرمایا، اور یہ بھی کتنا حسین اتفاق تھا کہ ماہ قرآن میں اور رمضان المبارک کی ستاءیسوی شب جسے عرف عام میں شب قدر کہا جاتا ہے تفسیر قرآن کی تکمیل ہوئی۔
تفسیر قرآن مجید کا اہتمام تو روز ہی ہوتا تھا اور آج کے یادگار دن بڑا اہتمام کیا، صبح ہی سےسرور وشادمانی تھی، رمضان کی روحانیت ونورانیت دوبالا ہو گیی تھی، فرحت و انبساط پل پل تازگی سے ہم کنار ہوتے تھے، مسجد میں ایک خوشگوار فضاء چھایی ہویی تھی، والدین محترمین بھی شاداں ونازاں تھے، چھوٹے چھوٹے میرے معصوم بھی اپنے باپ کی شدّت خوشی کو محسوس کررہے تھے۔ طاق رات میں اس کا اعلان بھی ہوا اور سارے ہی مصلیوں کے لئے یہ سوغات تھی۔ سب بارگاہ الہ میں سجدہ ریز ہویے۔دعاؤں میں اپنے سارے محسنوں اور اساتذہ کو یاد کیا کہ ان کی محنت ومحبت سے اللہ کے کلام کو پہلے تو سمجھنے کے قابل ہوا اور ان کی خصوصی توجہات کے طفیل دوسری مرتبہ سمجھانے اور اس کو پہنچانے کی سعادت ملی۔
یہ سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اور یہ بھی احساس ہے کہ
منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمیں کنیں
منت شناس از او کہ بخدمت بداشتت……………….
 جاری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×