شخصیات

میرے روحانی والد حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلیؒ (۳)

مارک شیٹ کی گواہی
حضرت مولانا رحمتہ اللہ علیہ سے قلبی التفات و والہانہ لگاؤ شخصی و ذاتی معاملہ ہے، وہ تو قلب ووجدان، احساس وشعور کی نیا ہے جو الفت کی دوش پر چلتی ہے۔ چہرے کی چمک، روپے کی کھنک کسی کو گرویدہ کرتی ہے تو کوئی کرسی نشینی کے دام فریب میں گھر جاتا ہے، کسی کو مادیت کی دیوی بھاجاتی ہے تو کسی کو ظاہری رکھ رکھاؤ کا بھوت سوار ہوجاتا ہے، نظر،نظر کی بات ہے کہ ایک نظر میں کوئی دل کا مکیں بن جاتا ہے۔
حسن صورت چند روزہ،حسن سیرت مستقل
 اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں،اس خوش ہوتا ہے دل
خلق عظیم کی تعلیم دینے والا یہ عظیم مدرس ہی نہیں تھا کہ درس ندوہ کو نقش حیات نا بنالیا جائے، اقوال نبوی کا شارح أفعال نبوی کا نمونہ تھا، کلام الٰہی کی بلاغت عمل کے پیکر کی صورت میں تھی، مونگیری کی بستی میں دل گیری والی ہستی تھی، شبلی کے خوابوں کی ایک سچی تعبیر تھی، سلیمانی صفت ایک علمی شمع تھی، اور تو اور میرے مرشد، فخر دوراں، نازش زماں، حضرت علی میاں علیہ الرحمہ کے نظرانتخاب تھے، مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی الندوی ہی کی نظروں نے نصف صدی قبل اس نگینہ کو تاج ندوہ میں جوڑا تھا تو یہ اپنی علمی روشنی،عملی گرمی آخری سانس تک پھیلاتا اور گرماتا رہا۔
  اگر شھادت و تصدیق کی دنیا میں دیکھیں تو عالیہ رابعہ شریعہ کے اسنادات معیار واعتبار کے گواہ ہیں کہ اس سال کی تمام کتابوں میں سب سے زیادہ صحیح مسلم کے محصولہ نمبرات ٨٨ ہیں اور اس سے صرف ایک نمبر کم تفسیر قرآن مجید کےنمبرات ٨٧ ہیں، یہ اس بات کی صداقت کے لئے دلیل ہیں کہ دامنِ ناتواں نے لعل و گہر سمیٹنے کی اپنی سی پوری کوشش کی، ان کے علوم ومعارف کا امین بن جاؤں، علم کو عمل کے قالب میں ڈھال لوں،بس اب یہی  دعاء ہے۔ ٨٧ نمبرات کے سلسلے میں عرض ہے کہ حضرت مولانا سے اتنے نمبرات پاجانا بھی امتیازی کامیابی ہی ہے۔ ندوہ کے طلبہ تو اس کے قاءل ہیں کہ حضرت مولانا اصول پسند تھے تو کامیابی ہی نہیں بلکہ سند اولیت ہے۔ عالیہ رابعہ شریعہ کی المذکرہ میں حضرت نے  فارغ ہونے والے میرے سارے ندوی ساتھیوں کو جو پیام دیا ہے وہ یہ ہے (جو سن ٢٠٠٠کے سارے رفقاء عزیز کے پاس ہوگا،اس موقعہ سے اسے دیکھ بھی لیجیۓ) ” ہر طالب علم بلکہ ہر صاحب علم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ من عمل بما علم ، علمہ اللہ ما لم یعلم یعنی جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے علم کے دروازے کھول دیتا ہے۔
حضرت مولانا سے خط وکتابت
عالمیت کی تکمیل کے بعد میرے گھر محبوب نگر میں حضرت والد صاحب نے ایک دعوت کا اہتمام فرمایا، مقامی و حفظ کے اساتذہ بالخصوص میرے مربی اول ڈاکٹر شیخ چاند صاحب مرحوم کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا، یہ دعوت جس کے دعوت نامے بھی بنائے گئے تھے دراصل ندوۃ العلماء کے تعارف کا ضلع کا پہلا جلسہ تھا جو میرے گھر ہوا تھا،اور جس میں رشتے داروں، دوست احباب،پاس پڑوس کے ساتھ ساتھ علماء کرام نے بھی اظہار خیال کیا تھا اور مجھے بھی اپنے خانوادے علمی کے بارے میں کہنے کا موقعہ دیا گیا تھا تو اس وقت ندوہ واساتذہ ندوہ کا خوب خوب ذکر کیا۔دعوت تو ہوگیی لیکن گھر سے صرف ایک سال اور باہر جانے کی اجازت ملی تو مولانا احمد عبد المجیب قاسمی ندوی وحضرت مولانا ولی اللہ مجید قاسمی کے مشورے سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند پہنچ گیا، یہاں کے درس وتدریس سے استفادہ کرتے ہوئے حضرت مولانا سے رجوع کیا کہ اس ایک سال کو کس طرح مفید سے مفید تر بنایا جاسکتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ندوہ میں صحیح بخاری، صحیح مسلم ، سنن ابوداؤد، مؤطا امام مالک کے منتخبات اور جامع ترمذی کے درس کے بعد فضیلت کا یہ سال ایک طرح کی یکسوئی واطمینان کا سال تھا، ازہر ہند کے جبال علم کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنا  ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا،جس کا اظہار پوری ایک کتاب کی صورت میں موجود ہے، ذہنی و فکری اطمینان کے باوجود کسی درس سے مجبوری کے علاوہ غیر حاضر نہیں رہا۔ دار العلوم اصل کی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا ہی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے حضرت مولانامحمد سالم صاحب وحضرت مولانا محمد اسلم صاحب اور وقف دارالعلوم کے اساتذہ سے استفادہ کی مختلف صورتیں اختیار کیں۔ خاص طور پر حضرت مولانا محمد سالم صاحب سے خوپ کسب فیض کیا، عصر بعد ہونے والی مجلس کے حاضر باشوں میں شمار ہونے لگا، جن کی مجالس کے نوٹس آج بھی المذکرہ میں موجود ہیں۔ وہیں حضرت مولانا محمد اسلم صاحب سے اجازت حدیث بھی حاصل کی۔ یاد داشتوں میں یہ ریکارڈ پایا کہ ١٨ رجب ١٤٢٢ ہجری بمطابق ٧ اکتوبر ٢٠٠١ کو تین ندوی ساتھیوں مولانا محمد معز الدین حیدرآبادی، مولانا محمد یوسف دیوبندی ندوی نے بالترتیب صحیح بخاری و جامع ترمذی کی اور بندے نے صحیح مسلم کی عبارت خوانی کی، اس موقعہ پر آپ کے درس کے دو تین صفحاتی نوٹس بھی قید تحریر میں ہیں، اور آپ کا خود نوشتہ نصیحت نامہ ودستخط بھی زینت ڈایری ہے۔” آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ‘ من اذنب ذنبا صغیرا او کبیرا ثم ندم علی صنع وعزم علی ان لا یعود فانی اتوب الیہ ‘ اللہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور کثرتِ استغفار کی توفیق عطا فرمائے” آمین۔
 ندوۃ العلماء کی محنت کا ثمرہ یہاں یہ ملا کہ امتحان داخلہ سے لے کر ششماہی وسالانہ امتحانات تک کے سارے پرچے اور اس کے جوابات عربی میں لکھے۔ دن ورات دیوبند میں بیت رہے تھے لیکن معمولات کے مشورے ندوہ سے مل رہے تھے، حالات وکیفیات سے مطلع کرتے رہتا، اور اس طرح رہبری ہوتی رہی، اس سال مولانا محمد معز الدین ندوی جیسے سینیر ساتھی جنہوں نے حضرت مولانا محترم سے حجتہ اللہ البالغہ پڑھی تھی ہم فکر ونظر ہی نہیں بلکہ ہم درس و ہم مکان تھے، اس لئے کہ ہم دونوں بیرون دارالعلوم ایک کرایے کےکمرہ میں رہتے تھے تو حضرت مولانا کا ذکر خیر میں خوشگوار وقت گزرتا تھا۔
فضیلت کے بعد افتاء کرنے کا مشورہ بھی آپ ہی نے فرمایا لیکن مشکل یہ تھی کہ گھریلو اعتبار سے حیدرآباد ہی میں رہ کر پڑھنے کی شرط تھی،اور تجارت میں بھی ہاتھ بٹانے کی ذمہ داری ڈال دی گئی تھی، مسءلہ یہ تھا کہ ہماری دکان اتوار کو بھی کھلی رکھنی ضروری تھی اس لئے کہ وہ سنڈے مارکٹ ہوا کرتی تھی، کسی بھی جامعہ میں جمعہ کی تعطیل کو اتوار میں نہیں بدلا جاسکتا تھا اس کا حل مولانا احمد عبد المجیب ندوی قاسمی کی صورت میں سامنے آیا کہ انہوں نے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے جمعہ کے بجائےاتوار کی چھٹی کے ساتھ المعھد العالی الاسلامی کے شعبہ افتاء میں داخلہ دلوایا، اس طرح والدین محترمین اورحضرت مولانا کے مشورہ کو نبھا نے کی عملی شکل قدرتی طورپر نکل آءی۔ المھعد میں تو کیی ایک ندوی رفقاء تھے جن کی زبانیں اپنے اساتذہ ومحسنوں کے احسانوں کے تذکرے سے تر رہتی تھیں، یہاں جو علمی وتحقیقی ماحول تھا اس میں حضرت مولانا کی علمی وقلمی تحقیقات پر داد تحسین ہی ہوا کرتی تھی، البتہ ایم اے کا فیصلہ اپنے طور پر کیا ان دو برسوں میں ندیم اختر ندوی ، ملک عنایت علی ندوی و دیگر شرکاء ایم اے اپنے اپنے بیتے دنوں کے واقعات سے صبح وشام مسرور رہا کرتے تھے۔ڈاکٹر مظفر عالم صاحب تفسیر کے منتخب حصہ کا لیکچر دیتے تھے، ایک دفعہ کسی آیت کریمہ کے سلسلے میں استاد وطلبہ میں اختلاف ہوگیا اورانہوں نے بندے کی رائے کو قبول کیا بلکہ اس موقعہ پر یوں کہا کہ تم نے تفسیر بڑی محنت سے اور بڑی شخصیت سے پڑھی ہے۔ عملی زندگی کا آغاز تھا تو قدم قدم پر حضرت مولانا سے رجوع ہوتا۔ آندھرا پردیش کے علماء کرام کی قدیم ترین تنظیم  مجلس علمیہ سے وابستگی عمل میں آئی، ریاست کے اکابر علماء کی تنظیم میں کام کرنے کا ذریعہ بننے والی شخصیت مرحوم حضرت مولانا سید اکبر الدین قاسمی کی تھی، مولانا مرحوم بڑے وسیع الفکر تھے، وہ نسبتوں سے پرے قابلیت کو مانتے تھے، وہ چھوٹوں کو بڑا بنانے کا ہنر جانتے تھے،اور بڑوں کا بڑا احترام کرتے تھے، اسی زمانے میں مجلس علمیہ کے علمی ترجمان کا آغاز عمل میں آیا، ماہنامہ ترجمان ضیاء علم کے اول نائب مدیر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تو  حضرت مولانا محترم نےلکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اسی ناءب مدیر کے زمانے میں حضرت مولانا کے درسی افادات کو ضیاء علم میں شائع کرنے کا ارادہ کیا لیکن اللہ کو وہ منظور نہ تھا۔ اس وقت تک راقم کی دو کتابیں شائع ہوچکی تھیں جو حضرت مولانا کی خدمت میں ارسال کیں۔
مکاتب کی گمشدگی
اس موقعہ پر حضرت مولانا سے حاصل کی جانے والی موٹی موٹی باتیں لکھ پایا، پچھلی یادوں کے سایے دیکھنے کی کوشش کی ہے، ماضی کو پلٹ کر آواز دی ہے، لیکن یہ سطریں خون دل سے لکھی جانی چاہئے کہ آپ کے مکاتیب کہیں گم ہوگئے، محبوب نگر سے حیدرآباد منتقلی اور پھر یہاں بھی محلہ در محلہ زندگی کے بعد آج اپنے آشیانے میں ڈھونڈتا ہوتو کف افسوس ملنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جہاں کہیں امید نظر آیی، تلاش بسیار کی لیکن وہ بھی لاپتہ ہیں، کاش کہ ان خطوط ومضامین کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تو معلوم نہیں آج کون کون سے مسایل کی رہنمائی کے راز کھلتے۔ دل ماننے کو تیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح لاپتہ ہوجائیں گے،ابھی بھی ہمت نہیں ہاری ہے، تلاش جاری ہے اور امید کی کرن زندہ ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت مولانا کی یاد اسی وقت آیی ہوگی جب کہیں قدم لڑکھڑاے ہوں گے، کوئی نا کوئی مشکل کشائی پیش نطر رہی ہوگی۔
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
—————— جاری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×