موجودہ بہار الیکشن میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی
جیتن رام مانجھی پہلے نتیش کمار کے ساتھ تھے اور نتیش کمار کے بہت قریبی مانے جاتے تھے، ایک وقت نتیش کمار پر سیاسی سنکٹ آیا تو انہوں نے اپنے قریبی متر، جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلی بنا دیا۔ پھر وفادار دوست نے مشکل ختم ہونے پر وزارت اعلی کی کرسی سے دست بردار ہونے سے انکار کردیا۔ نتیش کمار نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن ایسا ہی ہوا اور بالآخر نتیش جی کو بڑی جدو جہد کرکے جیتن رام مانجھی کی چھٹی کرنی پڑی ۔اب مانجھی اورنتیش دوست نہیں رہ گئے بلکہ دونوں میں بہت دوریاں ہوگئیں بالآخر جیتن رام مانجھی نے ’’ہم ‘‘(ہندوستانی عوامی مورچہ ) کے نام سے اپنی پارٹی بنائی لیکن ۲۰۱۵ء کے ا لیکشن میں مانجھی کی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی بلکہ جیتن رام خود گیا کی سیٹ سے ہار گئے ۔ اب جب کہ بہار میں ودھان سبھا کا الیکشن ہونے جارہا ہے خبر یہ ہے کہ نتیش کمارپھر سے اپنے پرانے دوست کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں؛ بلکہ اس کے لیے کوشاں ہیں ۔حیرت ہے کہ جیتن رام نے نتیش کے ساتھ دھوکہ کیا اور بڑا دھوکہ کیا پھر بھی نتیش جی ان کی پارٹی کے ساتھ الیکشن لڑنے کو تیار ہیں ،یہ سیاست ہے۔
آسام میں جب گزشتہ ودھان سبھا کا ا لیکشن ہوا تھا اس وقت مولانا بدر الدین اجمل کی پارٹی (AIUDF) نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کی بہت کوشش کی تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعلی نے بیان دیا تھا کہ بی جے پی کا جیت جانا منظور ہے لیکن یوڈی ایف کے ساتھ اشتراک منظور نہیں ہے؛ لیکن اب جب کہ وہاں پر الیکشن ہونے جارہا ہے خود کانگریس یوڈی ایف کے ساتھ اشتراک کے لیے تیار ہے ۔ وجہ ظاہر ہے ۔ہر کسی کو کرسی کی لالچ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔تصویر کا یہ دوسرا رخ ہے اور یہ بھی سیاست ہے۔
اب آئیے اصل موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ بہا ر میں ایک مرتبہ غالبا آزادی سے قبل مولانا ابو المحاسن سجاد صاحب نے مسلم انڈیپنڈیٹ پارٹی بنائی تھی اور ان کی پارٹی نے کامیابی بھی حاصل کی اور کچھ دنوں کے لیے بہار میں ان کی حکومت بھی رہی اس کے بعد مجھے کوئی ایسی پارٹی مسلمانوں کی نظر نہیں آتی ہے جس نے مسلمانوں کے لیے کام کیا ہو ۔ بہار میں بڑے بڑے مسلم نیتاہوئے ہیں لیکن انہوں نے صرف اپنی سیٹ اور اپنا مستقبل بنانے اور بچانے کی جد وجہد کی ہے ۔یہ تلخ حقیقت ہے اسے قبول کرنا چاہیے ،تسلیم الدین صاحب جو سیمانچل کے گاندھی کہے جاتے تھے ،سید شہاب الدین ، مولانا اسرار الحق وغیرہ بڑے نیتا ہوئے ہیں لیکن وہ حضرات صرف مسلمانوں کے لیے ووٹ بینک تھے یہی وجہ ہے آج تک بہار میں مسلمان پریشر گروپ تک بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے ؛بلکہ جو بھی بڑا لیڈرہوا خود ایم پی اور ایم اے لے بن گیا اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانو ں کی سیاسی قوت کے لیے کوئی بڑا کام نہیں کیا ہے ۔
اس وقت جو صورت حال ہے کہ سیاسی طاقت کے بغیر آپ کی زندگی غلاموں سے بھی بد تر ہے اور بہار کے مسلمانوں کے پاس سوائے رحم کی درخواست کرنے کے کچھ بھی نہیں ہے ۔حالاں کہ بہار میں مسلمانوں کی طاقت کسی بھی اعتبار سے کم نہیں ہے ،تعلیم میں بہار کے مسلمان کم نہیں ہیں ، آبادی کے تناسب میں مسلمان کم نہیں ہیں ، کشمیر اور آسام کے بعد صوبائی سطح پر سب سے زیادہ مسلمان بہار میں ہیں ، سیمانچل (کشن ، ارریہ ،کٹیہار،پورنیہ) یہ چار اضلاع ہیں جس میں ۲۴ سیٹیں ہیں اور تقریبا تمام سیٹوں پر مسلمان فیصلہ کن پوزیشن میں ہوتے ہیں ، مسلمان جس کو ووٹ دیں گے وہی جیت کر اسمبلی میں جائے گا ۔لیکن آج تک سیمانچل کی حالت بہتر نہیں ہوسکی ہے اس لیے کہ صرف الیکشن کے زمانے میں لوگوں کو وہاں کی یاد آتی ہے اور ووٹ لے کر لوگ رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔
بہار میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ اپنی سیاسی قیادت کھڑی کی جائے اور ہارنے یا ہرانے کی سیاست سے نکل کر اپنی قیادت کو مضبوط کیا جائے اگر بہار کے مسلمانوں نے اپنا پلیٹ فارم تشکیل دیا اور مکمل طور پر اس کو اپنا سپوٹ دیا تو ایک مسلمان مضبوط پوزیشن میں ہوسکتے ہیں؛ بلکہ کنگ میکر بن سکتے ہیں اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا لیکن مسلمان اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو ووٹ کا ایک بڑا حصہ ان کے پاس ہوگا ایک الیکشن میں توآپ کی جماعت کامیاب نہیں ہوسکی لیکن دوسرے الیکشن میں دوسری سیاسی جماعتیں یہ دیکھ کر کہ آپ کے پا س دس فیصد ووٹ ہے او رہمارے پاس بیس فیصد ووٹ ہے اگر ہم مسلمانوں کی اس پارٹی کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں تو تیس فیصد ووٹ کے ذریعہ ہم اقتدار تک پہونچ سکتے ہیں تو اس لالچ میں کوئی بھی دوسری پارٹی آپ کے ساتھ اشتراک کرنے کوتیار ہوجائے گی ۔
آسام میں مولانا بدر الدین اجمل نے الیکشن سے صرف پندرہ دن پہلے پارٹی بنائی اور دس سیٹ سے کامیاب ہوگئے اور آج بھی ان کی پارٹی آسام میں دوسرے تیسرے نمبر کی پارٹی ہے اور آج وہی کانگریس اشتراک کے لیے تیار ہے جس نے کل اشتراک سے انکار کردیا تھا ، سیاست میں صرف طاقت کی اہمیت ہوتی ہے مذہب کی نہیں آپ کے پاس طاقت ہو تو کوئی بھی آپ کے ساتھ آنے کو تیار ہوجائے گا جیتن رام مانجھی کو بھی نتیش اپنے ساتھ کرنے کی کوشش میں ہے جس نے نتیش کودھوکہ دیا تھا۔
افسوس اس کا ہے کہ بہار میں آج بھی بڑے اور سیاسی شعور والے مسلم نیتا ہیں ، اخترا لایمان ، ڈاکٹر شکیل ، طارق انور، عبد الباری صدیقی وغیرہ لیکن سب اپنی اپنی زمین سنوارنے میں مصروف ہیں اگر یہ سب مل کر ایک مضبوط پلیٹ فارم تشکیل دیتے تو اپنا بھی مستقبل سنورتا اور قوم کا بھی مستقبل سنورتا ۔بہار جہاں پر مسلمان بڑی تعداد میں ہیں اور بہت سی سیٹوں پر فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں ،لیکن ان کااپنا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے ،اسی وجہ سے اسد الدین اویسی نے اپنی پارٹی کو بہار میں لانچ کردیا اور ایک مرتبہ کی ناکامی کے بعد ضمنی الیکشن میں ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کرلی ۔ غلطی اویسی صاحب کی نہیں ہے بلکہ انہوں نے تو بہار کے مسلمانوں کے مستقبل کی فکر کی ہے اور ان کو آئینہ دکھایا ہے لیکن اویسی صاحب دوسرے اسٹیٹ سے ہونے کی وجہ سے اور کچھ مخالفت میں زیادہ رہنے کی وجہ سے بہار میں زیادہ مقبول نہیں ہوسکے ہیں ،ان کی تقریریں تو لوگ ضرور سنتے ہیں تاہم الیکشن کے وقت ووٹ نہیں دیتے ہیں اگر کوئی بہار کا لیڈر ہوتا تو یقینا اس کو کامیابی اور مقبولیت حاصل ہوجاتی ۔
امارت شرعیہ بہار جس کی قیادت میں مولانا ابو المحاسن سجاد نے مسلم انڈیپینڈیٹ پارٹی بنائی تھی اور الیکشن کے بعد حکومت بھی بنائی تھی آج امارت شرعیہ سیاسی قیادت سے بہت دور ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ امارت شرعیہ کا اثر و رسوخ پورے بہار میں ہے اور حضرت امیر شریعت کی ایک آواز پر پورے بہار کے مسلمان لبیک کہنے کو تیار رہتے ہیں اگر امارت شرعیہ کی قیادت میں مسلمانوں کی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی تو قوی امید ہے کہ بہار کی سیاست میں انقلاب آجائے ۔
آج بھی وقت ہے کہ بہار کے مسلمان ایک مضبوط لائحہ عمل طے کریں اور مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو شامل کرکے ایک سیکولرسیاسی جماعت تشکیل دیں اس کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں آج نہیں تو کل یہ جماعت فیصلہ کن پوزیشن میں ہوگی ۔
یاد رکھئے آپ اپنی تقدیر خود لکھیں گے کوئی آپ کی تقدیر سنوارنے والا نہیں ہے ، ہر کوئی آپ کو لالی پپ دے کر آپ سے اپنا کام نکالنے کی کوشش کرے گا لیکن آپ کی ضرورت پوری نہیں کرے گا ، ملک کی آزادی کے ستر سال بعد بھی اگر ہم نے یہ احساس کرلیا اور آج سے ا پنی منزل الگ کر لی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والے بیس پچیس سالوں میں ہم اپنے آپ کو مضبوط کرسکیں۔