سیاسی و سماجی

ایس سی‘ ایس ٹی او بی سی حقیقی نشانہ

ملک بھر میں حکومت کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کا ماحول ہے، ہرطرف حکومت کی ناکامیوں اور غلط پالیسیوں کو لیکر ملک کا شہری بالخصوص یونیورسٹیز کے طلبہ غم وغصہ کا اظہار کررہے ہیں، یہ تحریک لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں سی اے بی کے بعد شروع ہوئی ہے اور اس کو مہمیز جامعہ ملیہ کے طلبہ پر پولیس کی بربریت نے لگایا ہے، جامعہ ملیہ ایک ایسی یونیورسٹی ہے جس کی بنیاد اپنے زمانہ کے ملک کے سب سے بڑے عالم دین سالہا سال سے حدیث شریف کا درس دینے والے اور مختلف ائمۂ فن کے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی ہے، جامعہ ملیہ کے طلبہ پر ہونے والے تشدد اور طلبہ کی اُلوالعزمی اور ثابت قدمی نے سارے ملک کو اس انقلابی تحریک کے لیے کھڑا کردیا، اب صورتِ حال یہ ہے کہ یوپی میں پولیس کے وحشیانہ تشدد اور ملک بھر میں تیس افراد کی شہادت کے باوجود یہ تحریک کمزور نہ پڑسکی، اب تک دسیوں ہزار لوگوں کی گرفتاریاں ہوچکی ہیں، لیکن دن بہ دن اس تحریک میں تقویت ہی پیدا ہورہی ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ حتی کہ فلمی دنیا سے وابستہ لوگ بھی اس تحریک میں سرگرمی کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں، حکومت اور اس کے کارندوں نے بارہا کوشش کی کہ اسے ہندومسلم جھگڑا بنایا جائے اور بارہا یہ بیانات دیئے کہ ہندو اس بل کی وجہ سے محفوظ ہوجائیں گے؛ لیکن بارہا حکومت کی تسلیوں سے دھوکہ کھائی ہوئی عوام اپنی شہریت کے نازک مسئلہ پر کسی بھی طرح کا خطرہ لینے کے موقف میں نہیں ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ CAA کو سمجھا جائے، پارلیمنٹ میں جو بل پاس ہوا ہے اس کی رُو سے صرف تین ممالک پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، سے مذہبی تشدد کا شکار ہوکر آئے ہوئے ہندو، عیسائی، جین، سکھ، بدھ، مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کی درخواست پر شہریت دی جائے گی، آسام کی ین آر سی نے جس میں کہا یہ جارہا تھا کہ ایک کروڑ کے لگ بھگ بنگلہ دیشی گھس پیٹھیے ہیں، دوسری زبان میں کہا جائے تو یہ سارے کے سارے مسلمان ہی ہونگے، اس کو عنوان بناکر ین آر سی کا عمل کیا جاتا ہے؛ لیکن بدنیتی کا برا ہو کہ جب آخری لسٹ ین آر سی کی آتی ہے؛ تو اُس میں انیس لاکھ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کا نام لسٹ میں شامل نہیں ہوتا؛ یہ انیس لاکھ لوگ ملک کی شہریت سے خارج ہوگئے، ان انیس لاکھ لوگوں کو جن میں پانچ لاکھ کے قریب مسلمان ہیں باقی چودہ لاکھ پچاس ہزار SC, ST, OBC, ہیں، انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے فارن ٹریبونل میں درخواست دینی ہوگی، کورٹ جیسی کیفیت کے ساتھ ان کے مقدمہ کی سماعت ہوگی، بڑی عجیب بات ہے کہ یوپی سے وہاں منتقل ہونے والے ایک ہندو خاندان نے جس کا نام لسٹ سے خارج ہوگیا تھا کورٹ میں اپیل دائر کی، اس سے کہا گیا کہ دس سال تک کے لیے اُسے شہریت نہیں دی جاسکتی، دس سال بعد وہ اپنی شہریت کے لیے دوبارہ مقدمہ دائر کرے؛ ایسے بیسیوں معاملات ہیں جن میں SC, ST, OBC, پریشانی کا شکار ہیں، جمعیت علماء کے صدر محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ اور آمسو نے سپریم کورٹ میں چودہ سال سے کم عمر بچوں کو ڈیٹینشن کیمپ نہ بھیجنے کی عرضی داخل کی جو قبول کرلی گئی، آسام کی NRC سے متاثر غیرمسلم لوگوں کو تسلی دینے کے لیے اور اپنے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے بی جے پی نے ایک نیا ہتھکنڈا CAA کی شکل میں پیش کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی بڑی چالاکی اور اپنے منصوبہ ایجنڈے کی طرف ایک دوسرا قدم ہے، آسام کی NRC میں صرف چار لاکھ ایسے افراد ہیں جنہوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ حقیقتاً بنگلہ دیشی ہیں، صرف ان چار لاکھ کو CAAسے اس وقت فائدہ ہوگا جب تمام قانونی مراحل طے ہوکر انہیں شہریت حوالے کی جائے گی، اس وقت تک یہ غیرملکی قرار دیئے جائیں گے؛ اگر سابقہ میں ان کے پاس کچھ جائدادیں تھیں، ملازمت یاتجارت تھی تو وہ ساری ضبط کرلی جائیں گی، ان چار لاکھ کو بھی ازسرے نو اپنی زندگی شروع کرنی ہوگی، یہی چیزیں غیرقانونی ایمیگرینٹس کے لیے ہندوستانی قانون کہتا ہے، اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ انہیں ہندوستانی شہری ہونے کی حیثیت سے جو مراعات اور ریزرویشنس حاصل تھے وہ سارے کے سارے ختم ہونگے اور ایک نئی شناخت کے ساتھ انہیں ہندوستان کی شہریت دی جائے گی، وہ گویا اپنے ہی ملک میں مہاجر کی حیثیت سے رہیں گے، فرقہ پرستوں کا یہ بھی ایک ایجنڈا ہے کہ جو مراعات اور ریزرویشنس SC, ST, OBC کو حاصل ہیں انہیں ختم کیا جائے؛ گویا CAA سے انہیں اپنے اس دوسرے منصوبے کی تکمیل میں مدد ملے گی، اسی لیے امت شاہ نے بارہا کہا ہے، NRC اور CAA کو جوڑ کر دیکھنا چاہیے، NRC کا مسئلہ آسام میں تو بہت پرانہ ہے؛ اسی لیے وہاں مشہور ہے کہ لوگ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے کاغذات کی حفاظت کرتے ہی، وہاں جب پندرہ فیصد کے قریب لوگNRC کی لسٹ سے باہر ہوئے ہیں تو پورے ملک میں جب NRC کا نفاذ ہوگا تو اندازہ ہے کہ بیس فیصد کے قریب لوگ اس سے متاثر ہونگے، یعنی ملک کی مجموعی آبادی کے پچیس کروڑ افراد شہریت سے باہر ہونگے اور انہیں فارن ٹریبونل کے حوالے کردیا جائے گا، آسام کی NRC سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوئی ہے، جس میں شفافیت اور قابل افراد کے استعمال کے امکانات زیادہ ہیں، جب کہ ملک بھر میں ہونے والی NRC حکومت کے تحت ہوگی اور ہمارا بارہا تجربہ ہے کہ پیسوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایسے افراد کو گلی گلی محلہ محلہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ جنہیں ناموں کی اسپلنگ تک صحیح نہیں آتی، بارہا اس میں تصحیح کی درخواستیں دینی پڑتی ہیں، جب ملک بھر میں NRC ہوگا اور اس میں VRO سطح کے چھوٹے اہلکار کو بھی دستاویزات دینے والے پر جرح کا اختیار ہوگا اور اگر وہ کسی کو غیرملکی سمجھے تو وہ ڈاؤٹ فل سٹیزن قرار دیا جائے گا تو اندازہ لگائیں SC, ST, OBC مسلم وغیرمسلم حضرات کی کتنی بڑی تعداد کی شہریت متاثر ہوگی، اس میں ایک اور شق یہ بھی رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شکایت کرتا ہے اور کسی کی شہریت پر اپنے شبہ کا اظہار کرتا ہے تو اُسے بھی ڈاؤٹ فل سٹیزن بنادیا جائے گا، آسام میں ڈاؤٹ فل ووٹر کی جو لسٹ سنہ۱۹/میں رینڈم لی بنی تھی اس نے اتنے مرحلوں کے بعد بھی ۱۹/لاکھ لوگوں کو متاثر کیا ہے تو پھر یہ ڈاؤٹ فل سٹیزن کہاں تک لے جائے گا؟ غور فرمائیں! کہ جس ملک میں ۲۵/کروڑ لوگ، کورٹ کچہریوں کے چکر لگارہے ہوں اور اپنے اموال وشہریت کی حفاظت کے لیے پریشان ہوں تو اس ملک کی ترقی اور امن وامان کا کیا حال ہوگا؟ اسی لیے ملک کا وہ طبقہ جو پڑھا لکھا ہے یونیورسٹی اور کالجوں سے وابستہ ہے وہ اس وقت میں اِن بل اور پالیسیوں کے خلاف سدِ سکندری بنا ہوا ہے، وہ جانتا ہے کہ دو جنونی اس ملک کو ایسے غارت کدے کی طرف لے جارہے ہیں جہاں سے اس ملک کو واپس آنے میں کئی دہے لگ جائیں گے، اسلامی تاریخ کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب جب اسلامی عقائد اور تعلیمات کو سیڑھی بناکر مسلم حکمرانوں نے اپنی گدی مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اسلامی تاریخ کا دردناک دور رہا ہےاور آج تک مسلم علماء اور دانشوروں کو اس پر تنقیدیں جھیلنی پڑتی ہیں اور اسلام کی صفائی اور ان حکمرانوں کی مفاد پرستی کو واضح کرنا پڑتا ہے، آج ہندودھرم بھی تاریخ کے ایسے دور سے گزر رہا ہے کہ ان جنونیوں کی طرف سے ہندو دھرم کی برتری کے نام پر جو خون خرابہ اور فساد برپا کیا جارہا ہے اور وہ سارا کا سارا نہ صرف کتابوں اور اوراق میں محفوظ ہورہا ہے بلکہ ڈیجیٹل آلات اور کیمرے اس کے شاہد اور گواہ بن رہے ہیں، ہندو دھرم کی آنے والی نسلیں صدیوں اس کی صفائی پیش کرتی رہ جائیں گیں اور انہیں ان سے برأت اور بیزاری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔
NRC کے مجوزہ عمل پر شدید احتجاج کو دیکھ کر سینسیس اور مردم شماری جو ہمیشہ دس سال بعد اس ملک کی آزادی سے ہوتی رہی ہےاس میں ترمیمات کرکے NPR اس ملک میں لاگو کیا جارہا ہے، اس میں وہی سوالات پوچھے جارہے ہیں جس سے اس بات کا پتہ چلے کہ کس کے باپ دادا اس ملک کے باشندے رہے ہیں اور ان کے پاس خود کے اور ان کے باپ دادا کے یہاں رہنے کے کیا ثبوت موجود ہیں، اس پر احتجاج ہوا تو یہ کہا جارہا ہے کہ دوگواہ بھی پیش کردیئے جائیں تب بھی کافی ہوگا؛ لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ جس طریقہ سے دوگواہ شہریت کو ثابت کریں گے تو کیا اُسی طریقہ سے کسی کی تنقید یاشکایت شہریت کو ختم بھی کرسکتی ہے؟ مودی اور امت شاہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا؛ لیکن مودی جی کی وہ تقریر جو انہوں نے نوٹ بندی کے دوران کی تھی اور بڑی قوت کے ساتھ یہ کہا تھا کہ مجھے پچاس دن دے دیں یہ ملک کو میں سنہرا کرکے پیش کردونگا اور لوگوں نے اپنی جانیں دے کر، بڑے مصائب اور تکلیفیں برداشت کرکے اور اپنی تجارتوں پر مندی کو قبول کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا؛ لیکن سنہرا ہندوستان تو کجا دن بہ دن حالت بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، GST کو اس عنوان پر لایا کہ اس سے بے ضابطہ تجارت ختم ہوگی، ریاستوں نے اور بالخصوص تاجر پیشہ طبقہ نے اپنا سامان بیچے بغیر صر ف جمع مال پر ٹیکس ادا کیا؛ لیکن آج دوسال گزرنے کے بعد بازار کی حالت دیکھی جائے؛ بے ضابطگی کاروبار میں بڑھ چکی ہے اور فرضی بلوں کا چلن عام ہوچکا ہے، پہلے ریاستوں کو ویٹ پر پیسہ مل جاتا تھا؛ لیکن جی یس ٹی نے ان کا یہ حق مرکز کو دیا اور مرکز ریاستوں کا وہ پیسہ جو ریاست کی عوام نے ٹیکس کی شکل میں دیا ہے واپس کرنے کے لیے ٹال مٹول کررہی ہے، بلیک میلینگ کے یہ طریقۂ کار مرکزی حکومت کی ساکھ کو متاثر کررہے ہیں، نہ عوام نہ سیاسی جماعتیں، نہ ادارے، مودی اور امت شاہ کی بات پر بھروسہ کرنے کے کوئی بھی موقف میں نہیں ہیں، مال میں کچھ کمی بیشی ہو برداشت کیا جاسکتا ہے؛ لیکن جب معاملہ شہریت کا ہو اور اپنے ہی وطن سے بے دخل کیئے جانے کا ہو تو کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہزار دفعہ دھوکہ کھائی ہوئی ملک کی عوام پھر ان زبانوں اور وعدوں پر بھروسہ کرلے۔

ایک بڑی تعداد کی شہریت متاثر ہوگی، اس میں ایک اور شق یہ بھی رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شکایت کرتا ہے اور کسی کی شہریت پر اپنے شبہ کا اظہار کرتا ہے تو اُسے بھی ڈاؤٹ فل سٹیزن بنادیا جائے گا، آسام میں ڈاؤٹ فل ووٹر کی جو لسٹ سنہ۱۹/میں رینڈم لی بنی تھی اس نے اتنے مرحلوں کے بعد بھی ۱۹/لاکھ لوگوں کو متاثر کیا ہے تو پھر یہ ڈاؤٹ فل سٹیزن کہاں تک لے جائے گا؟ غور فرمائیں! کہ جس ملک میں ۲۵/کروڑ لوگ، کورٹ کچہریوں کے چکر لگارہے ہوں اور اپنے اموال وشہریت کی حفاظت کے لیے پریشان ہوں تو اس ملک کی ترقی اور امن وامان کا کیا حال ہوگا؟ اسی لیے ملک کا وہ طبقہ جو پڑھا لکھا ہے یونیورسٹی اور کالجوں سے وابستہ ہے وہ اس وقت میں اِن بل اور پالیسیوں کے خلاف سدِ سکندری بنا ہوا ہے، وہ جانتا ہے کہ دو جنونی اس ملک کو ایسے غارت کدے کی طرف لے جارہے ہیں جہاں سے اس ملک کو واپس آنے میں کئی دہے لگ جائیں گے، اسلامی تاریخ کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب جب اسلامی عقائد اور تعلیمات کو سیڑھی بناکر مسلم حکمرانوں نے اپنی گدی مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اسلامی تاریخ کا دردناک دور رہا ہےاور آج تک مسلم علماء اور دانشوروں کو اس پر تنقیدیں جھیلنی پڑتی ہیں اور اسلام کی صفائی اور ان حکمرانوں کی مفاد پرستی کو واضح کرنا پڑتا ہے، آج ہندودھرم بھی تاریخ کے ایسے دور سے گزر رہا ہے کہ ان جنونیوں کی طرف سے ہندو دھرم کی برتری کے نام پر جو خون خرابہ اور فساد برپا کیا جارہا ہے اور وہ سارا کا سارا نہ صرف کتابوں اور اوراق میں محفوظ ہورہا ہے بلکہ ڈیجیٹل آلات اور کیمرے اس کے شاہد اور گواہ بن رہے ہیں، ہندو دھرم کی آنے والی نسلیں صدیوں اس کی صفائی پیش کرتی رہ جائیں گیں اور انہیں ان سے برأت اور بیزاری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔
NRC کے مجوزہ عمل پر شدید احتجاج کو دیکھ کر سینسیس اور مردم شماری جو ہمیشہ دس سال بعد اس ملک کی آزادی سے ہوتی رہی ہےاس میں ترمیمات کرکے NPR اس ملک میں لاگو کیا جارہا ہے، اس میں وہی سوالات پوچھے جارہے ہیں جس سے اس بات کا پتہ چلے کہ کس کے باپ دادا اس ملک کے باشندے رہے ہیں اور ان کے پاس خود کے اور ان کے باپ دادا کے یہاں رہنے کے کیا ثبوت موجود ہیں، اس پر احتجاج ہوا تو یہ کہا جارہا ہے کہ دوگواہ بھی پیش کردیئے جائیں تب بھی کافی ہوگا؛ لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ جس طریقہ سے دوگواہ شہریت کو ثابت کریں گے تو کیا اُسی طریقہ سے کسی کی تنقید یاشکایت شہریت کو ختم بھی کرسکتی ہے؟ مودی اور امت شاہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا؛ لیکن مودی جی کی وہ تقریر جو انہوں نے نوٹ بندی کے دوران کی تھی اور بڑی قوت کے ساتھ یہ کہا تھا کہ مجھے پچاس دن دے دیں یہ ملک کو میں سنہرا کرکے پیش کردونگا اور لوگوں نے اپنی جانیں دے کر، بڑے مصائب اور تکلیفیں برداشت کرکے اور اپنی تجارتوں پر مندی کو قبول کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا؛ لیکن سنہرا ہندوستان تو کجا دن بہ دن حالت بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، GST کو اس عنوان پر لایا کہ اس سے بے ضابطہ تجارت ختم ہوگی، ریاستوں نے اور بالخصوص تاجر پیشہ طبقہ نے اپنا سامان بیچے بغیر صر ف جمع مال پر ٹیکس ادا کیا؛ لیکن آج دوسال گزرنے کے بعد بازار کی حالت دیکھی جائے؛ بے ضابطگی کاروبار میں بڑھ چکی ہے اور فرضی بلوں کا چلن عام ہوچکا ہے، پہلے ریاستوں کو ویٹ پر پیسہ مل جاتا تھا؛ لیکن جی یس ٹی نے ان کا یہ حق مرکز کو دیا اور مرکز ریاستوں کا وہ پیسہ جو ریاست کی عوام نے ٹیکس کی شکل میں دیا ہے واپس کرنے کے لیے ٹال مٹول کررہی ہے، بلیک میلینگ کے یہ طریقۂ کار مرکزی حکومت کی ساکھ کو متاثر کررہے ہیں، نہ عوام نہ سیاسی جماعتیں، نہ ادارے، مودی اور امت شاہ کی بات پر بھروسہ کرنے کے کوئی بھی موقف میں نہیں ہیں، مال میں کچھ کمی بیشی ہو برداشت کیا جاسکتا ہے؛ لیکن جب معاملہ شہریت کا ہو اور اپنے ہی وطن سے بے دخل کیئے جانے کا ہو تو کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہزار دفعہ دھوکہ کھائی ہوئی ملک کی عوام پھر ان زبانوں اور وعدوں پر بھروسہ کرلے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×