سیاسی و سماجی

طلاق ثلاثہ کے خلاف بل قابل قبول نہیں

ھمارا پہلے سے یہ موقف رھا ھے کہ تین طلاق کے خلاف بل نہ صرف یہ کہ شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت ھے بلکہ ملکی قانون اور آئین کے بھی منافی ھے ، یقینا ایک مجلس میں تین طلاق ایک سماجی برائی ھے جس کے خاتمہ کی کوشش سماجی سطح پر ھونی چاھئے لیکن اس کے لئے کوئی ایسا قانون وضع کرنا جس سے شریعت کے مسلمہ اصولوں پر زد پڑتی ھو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
حکومت نے اس بل کو منظور کرانے میں جس غیر معمولی دلچسپی اور عجلت کا اظھار کیا ھے اس سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ھے آج طلاق ثلاثہ کو نشانہ بنایا ھے کل یہ کسی اور اسلامی قانون میں ترمیم کا جھنڈا لیکر کھڑے ھو جائیں گے ، اگر ان کو واقعۃ مسلم خواتین سے ھمدردی ھوتی تو علماء کرام اور دانشوران قوم سے بات چیت کرکے اصول اسلامی کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرتے لیکن ان تمام پہلوؤں کو مستقل نظر انداز کیا گیا ، لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے اس بل کے خلاف آواز بلند کی ان کی باتوں پرتو توجہ دی نہ گئی اور جو مٹھی بھر نام نہاد مسلم خواتین ان کی ھمنوا ملیں ان کو ٹی وی ڈبیٹ کے ذریعہ خوب شھرت دی گئی ۔
ھم یہ سمجھتے ھیں کہ یہ بل متاثرہ مسلم خواتین کے خلاف ھے اس بل سے ان کے مسائل میں اضافہ تو ھوگا کمی نہیں ھوگی ، مختلف تضادات کی وجہ سے یہ بل مسلم سماج کے لئے قابل قبول نہیں ھوسکتا ۔
اس موقعہ پر ان نام نہاد سیکولر پارٹیز کا کردار بھی بڑا منافقانہ رھا جنہوں نے راجیہ سبھا سے واک آؤٹ کرکے بی جے پی کی راہ ہموار کی ۔
بہر حال قانون کوئی بھی بنایا جاتا رھے ایک مسلمان کے لئے سب سے اھم اسلامی قانون ھے ھمیں اسی کا پاسدار بننا ھے ھماری نگاہ میں اس سے بالا کوئی قانون نہیں ھوسکتا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×