سیاسی و سماجی
تحریک آزادی پر ایک نظر
ہندوستان کی تاریخ سے کون ناواقف ہے،کہ ہندوستان 800سو سال تک اسلام کا گہوارہ رہا،یہاں پر اسلامی حکمرانوں کی سیاست کا سکہ رائج تھا،گویا پورا ہندوستان توحید و رسالت کی فضاؤں سے معطر تھا،اللہ کے متقی ،زاہد اور بڑے مجاہدہ کرنے والے اس کی پشت پر چلتے تھے،
ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس ملک کو ناگور احوال کا سامنا کرنا پڑا،
آزادی ہند کی مختصر سی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں ،
جس وقت 1498ء کا آغاز ہوا،شمالی ہندوستان میں غدار انگریزوں کے ناپاک قدم پڑے،تو ان لوگوں نے اس وقت کے بادشاہ سے ایک سفارش نامہ لکھوایا تاکہ یہاں رہ کر تجارت کرسکے،لیکن ان کے اس ارادہ کے پیچھے کچھ اور ہی حقیقت چھپی ہوئی تھی،
انگریز 1692ء میں بنگال کی سمت سے ایک تجارتی قافلہ لیکر آئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی،پھر آہستہ آہستہ جیسے ترقی ہونے لگی،ان کے ناپاک قدم جمنے لگے،اور پھر یہاں کی سیاست میں مداخلت کرکے سب سے پہلے بنگال پر اپنا قبضہ جمالیا ،انگریز برطانوی تہذیب کے پروردہ تھے،بس اتنا ہی نہیں ،اور آگے بڑھ کر وہ عیسائیت کی تبلیغ اور اس کے پھیلانے میں مشغول ہوگئے،جس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا ایمان خطرہ میں پڑگیا ،ان کے خلاف ہندوستانیوں کو جہاد کا علم بند کرنا لازم ہوگیا ،
ادھر مسلمانوں کی حکومت جو آٹھ سو سال سے چلی آرہی تھی،اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ،حضرت اورنگزیب عالمگیر رح کے وارثوں میں کوئی بھی حکومت کی صحیح اہلیت رکھنے والا نہیں تھا ،ساری حکومت میں فساد برپا ہوچکا تھا،دوسری جانب انگریز اپنے فاسد خیالات کے ذریعے سے سارے ہندوستان پر فتح و کامیابی کا جھنڈا لہرانے کا خواب دیکھ رہا تھا ،جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حمیت نے ،ہر گز اس بات کو برداشت نہیں کیا،اور ملک آزادی کیلئے کمر کس لی،مختلف جگہوں سے آزادی کی تحریک شروع کردی،
1757ءمیں مسلمانوں کی صفوں میں سے سب پہلے نواب سراج الدولہ آگے بڑھ کر انگریزوں کے خلاف جنگ کا محاذ گرم کیا،لیکن اپنوں کی غداری کی وجہ سے اسی معرکہ میں شہید ہوگئے،
مسلم علماء اور عوام نے اس جنگ کو مسلسل جاری رکھا،پھر 1799ء میں اس جنگ آزادی کے سرخیل حضرت سلطان ٹیپو رح انگریزوں کے خلاف شمشیر برہنہ لیکر نکلے ،تاکہ انگریزوں کے ناپاک قدموں کو اس ملک سے نکال پھینکے،حضرت سلطان ٹیپو نے ایک نعرہ مستانہ لگایاتھا،شیر کی ایک دن کی زندگی ،گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے،یہ کہ کر آخر کار جام شہادت نوش کرلیا،جس کے بعد ایک انگریز لارڈ ہاس نے کہا تھا کہ آج ہندوستان ہمارا ہے،
ان کے شہید ہوجانےکےبعد اس میدان کے عظیم شہسوار حضرت سید احمد شہید بریلوی رح حافظ ضامن شہید رح نے جنگ آزادی کی زمام کو سنبھالا اور بالآخر 1857 ء کے خونی معرکہ میں جام شہادت کو نوش کیا،اس تحریک کی بقاء کیلئے کچھ اپنے وفادار جیالوں کو چھوڑ گئے ،جو آگے چل کر علماء دیوبند کی تصویر حق بن کر میدان کار زار میں اتر آئے ،جن کی قیادت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح کررہیے تھے،اور حضرت کے نقش قدم پر چلنے والے دو وفا شعار ،جانباز مرید حضرت قاسم نانوتوی رح حضرت رشید احمد گنگوہی رح نے ہندوستانی مسلمانوں کو اور یہاں کے باشندوں کو یہی تعلیم دی کہ،وہ ہر ہمیشہ کفن بردوش رہیں،اور کسی بھی حال میں انگریز کے خلاف جہاد جیسے عظیم فریضہ سے سبکدوش نہ ہوں ،ان ہی حضرات کے جہد مسلسل کی وجہ سے ایسے رجال کار پیدا ہوئے،جنہوں نے آگے چل کر اس تحریک آزادی میں کلیدی رول ادا کیا،
جنمیں سر فہرست حضرت شیخ الہند رح تھے ،اپ کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام رح حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رح اور دوسرے جانثار محب وطن بھی شریک تھے،
خلاصہ یہ کہ ہندوستانی عوام اور خصوصاً علماء نے وطن عزیز کو انگریزوں کے جبر و تسلط سے چھڑانے کیلئے،اپنے آپ کو لگادیا،جس قسم کی قربانی کی ضرورت پڑی ،ہر طرح کی قربانیاں دیکر اس پیارے وطن کو آزاد کرا یا،
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ،اپنے اکابر کی قربانیاں یاد کرکے ،ان کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں، آ نے والی نسلوں تک اور برادران وطن تک اس پیغام کو پہنچائے کہ مسلمان اس ملک کو آزاد کرانے میں صف اول میں شریک تھا، مسلمان آزادی کی لڑائی میں قربانی نہیں دیتے تو ملک آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا،
یہ تو آزادی انگریزوں کو در بدر کرکے حاصل کی گئ تھی ،لیکن ابھی مکمل آزادی کیلئے سب کو کمر بستہ ہوکر تیار ،رہنے کی ضرورت ہے،
اللہ ہمارے اکابر کی قربانیوں کو قبول فرمائے،ان کی قبروں پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے،اور ہم سب کو وطن عزیز میں حقیقی معنی میں آزادی عطاء فرمائے،ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے آمین
(تفصیل کیلئے تحریک آزادی میں مسلم علماء اور عوام کا کرادار، علماء ہند کا شاندار ماضی،اور تحریک آزادی اور مسلمان اسیر ادروی کا مطالعہ مفید ہوگا،)