سیاسی و سماجی

لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا خلاصہ

صوتی آلودگی Noise Pollution کو لیکر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی مختلف عرضیوں کے جواب میں عدالت عظمیٰ نے دو فیصلے ۲۰۰۵ میں سنائے ہیں جو مذکورہ معاملہ کی سبھی متعلقہ صورتوں کے لئے ریفرینس کا درجہ رکھتے ہیں، پہلا فیصلہ خاصہ طویل ہے، ۳۸ صفحات کا حامل زائد از ۱۸۰ نکات پر مشتمل یہ فیصلہ صوتی آلودگی کے حوالے سے تقریبا ہر جزء و صورت کو محیط ہے، ۱ٹھارہ جولائی دو ہزار پانچ کو چیف جسٹس آف انڈیا رام چندر لاہوٹی اور جسٹس اشوک بھان نے یہ فیصلہ سنایا تھا…

دوسرا فیصلہ اُسی برس اٹھائیس اکتوبر کو مذکورہ دونوں ججس نے ہی ایک عرضی کے جواب میں سنایا تھا جو رات دس تا بارہ لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی انتظامیہ کی جانب سے اجازت دیئے جانے کے اختیار کے خلاف دائر کی گئی تھی، یعنی اصلا تو رات دس بجے کے بعد لاؤڈ اسپیکر کا استمعال منع ہے لیکن انتظامیہ چاہے تو سال بھر میں صرف پندرہ دن رات بارہ بجے تک استعمال کی اجازت دے سکتی ہے، عرضی دائر کرنے والوں کو یہ اجازت کا اختیار بھی نامناسب لگا تو وہ عدالت سے رجوع ہوئے کہ یہ اختیار بھی نہیں دینا چاہئے، جس کے جواب میں اجازت کے اختیار کو باقی رکھا گیا اور عرضی خارج کردی گئی…

پہلا فیصلہ ہر قسم کی آوازوں سے متعلق ہے جبکہ یہ دوسرا فیصلہ عوامی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے بارے میں واضح جزئیات اپنے اندر رکھتا ہے، اس فیصلہ کی بنیاد وہ اصول و ضوابط ہیں جو
The Noise Pollution (Regulation And Control) Rules
یعنی صوتی آلودگی کے اصول (ضوابط و اختیارات) کے نام سے حکومت نے سن 2000 میں ترتیب دیئے تھے جس میں 2002 اور 2006 میں معمولی ترمیم و اضافہ کیا گیا، یہ اصول ہی عوامی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے تعلق سے کلید کی حیثیت رکھتے ہیں…

سپریم کورٹ نے انہی اصولوں کی بنیاد پر اپنے فیصلہ میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے تعلق سے جو تین بنیادی باتیں کہیں وہ درج ذیل ہیں

۱) لاؤڈ اسپیکر کا استعمال چاہے کسی بھی مقصد کے لئے ہو، سیاسی، مذہبی یا تفریحی بلا اجازت نہیں کیا جاسکتا، تحریرا متعلقہ محکمہ سے اجازت کا حصول ضروری ہے…

۲) رات دس بجے تا صبح چھ بجے کسی بھی قسم کے عوامی اجتماع سے خطاب کے لئے یا بڑے پیمانے پر آواز پہونچانے کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا، البتہ کسی چہار دیواری جیسے کانفرنس ہال، آڈیٹوریم وغیرہ میں ہونے والے اجتماعات و پروگرامس مستثنی ہوں گے جس کی آواز مخصوص دائرے سے باہر نہ نکل رہی ہو…

۳) سال بھر میں کوئی بھی پندرہ دن رات دس تا بارہ متعلقہ محکمہ کو اختیار ہے کہ وہ لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت دے سکتے ہیں، بارہ کے بعد قطعا کسی کو اجازت نہیں ہوگی…

مذکورہ تینوں پیراگرافس کسی وضاحت یا تشریح کے متقاضی نہیں ہیں، یہی بات صوتی آلودگی کے اصول (ضوابط واختیارت) میں کہی گئی ہے، یہ اصول یا قوانین ملک بھر میں بلا لحاظِ مذہب و ملت نافذ ہوں گے، مذکورہ فیصلے میں ججس نے اس بات کی وضاحت ضروری سمجھی کہ ہم کسی مخصوص مذہب یا اس کے کسی فعل کے تعلق سے بات نہیں کر رہے ہیں، ہمارا مطمح نظر بس شہریوں کے اُن بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہے جو انہیں دستورِ ہند نے دیئے ہیں، ساتھ ہی ججس نے "ٹائمس آف انڈیا” کے ایک معروف کالم "اسپیکنگ ٹری” مؤرخہ سات اکتوبر دو ہزار پانچ کا ایک طویل اقتباس بھی نقل کیا جس میں ملک کے تین بڑے مذاہب؛ اسلام، عیسائیت اور ہندو مت کی مذہبی کتابوں کے وہ آیتیں یا سطریں ذکر کی گئی تھیں جن میں مذہبی تعلیمات کو کسی ایسے شخص کو زبردستی سنانے سے روکا گیا ہے جو سننا نہیں چاہتا، ان حوالوں کے ذریعہ کالم نگار نے یہ استدلال پیش کیا کہ اول تو ما قبل میں مذاہب بنا لاؤڈ اسپیکر کے صرف مخصوص حلقوں اور کتابوں کے ذریعہ عام ہوئے اور پھیلے ہیں، دوم یہ کہ اپنے مذہبی تعلیمات کو لاؤڈ اسپیکر کی بلند و بالا آواز کے ذریعہ پھیلانے کی کوشش خود مذہبی تعلیمات کے ہی مغائر ہے، ججس نے اس کالم کا یہ پیراگراف ان عرضیوں کے جواب میں نقل کیا جن میں مذہبی معاملات میں لاؤڈ اسپیکر کے کھلے استعمال کی اجازت کا مطالبہ کیا گیا تھا…

اس موقع پر مذکورہ فیصلوں کے ساتھ ساتھ "صوتی آلودگی کے اصول” کا تذکرہ بھی ضروری ہے جس میں ہر قسم کی آوازوں اور ان کے تعلق سے ضابطے ذکر کئے گئے ہیں، یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے جس میں وقتا فوقتا ترمیمات ہوتی رہیں لیکن بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی نہیں آئی ہے، اس قانونی کتابچہ میں ماحول کو چار زونس یعنی صنعتی، تجارتی، رہائشی اور خاموش زونس میں تقسیم کیا گیا ہے، اول الذکر تین تو واضح ہیں، آخر الذکر میں دواخانے، تعلیمی ادارے، عدالتیں اور پولیس اسٹیشنس وغیرہ آتے ہیں، اس کے علاوہ کسی علاقے کو اگر متعلقہ محکمہ سائلنٹ زون قرار دے تب بھی وہ اس تعریف میں آجاتا ہے، زونس کی تقسیم کے بعد ان میں صوتی آلودگی کی انتہائی حد مقرر کی گئی کہ اس سے زیادہ آواز کا استعمال قابل تعزیر جرم ہے، صنعتی علاقے میں آواز دن میں پچھتر اور رات میں ستر ڈیسیبل، تجارتی علاقے میں دن میں دن میں پینسٹھ رات میں پچپن، رہائشی علاقے میں دن میں پچپن اور رات میں پینتالیس اور سائلنٹ زون میں دن میں پچاس اور رات میں چالیس ڈیسیبل تک کی گنجائش ہے…

خلاصہ یہ کہ اگرچہ مذکورہ فیصلے اور اصول پر عمل؛ باقی قوانین کی طرح بہت کم دیکھنے میں آتا ہے لیکن اگر کسی جگہ تحریرا اجازت کی یا صبح چھ بجے تک اسپیکر کے استعمال نہ کرنے کی بات آئے تو یہ ذہن نشین رہے کہ سامنے والا قانون کے دائرے میں رہ کر بات کررہا ہے، ہمیں بھی جواب قانونا ہی دینا پڑے گا، نیز کسی مخصوص طبقہ کو قانون پر عمل پر مجبور کیا جائے اور باقیوں کو نظر انداز کرکے انہیں چھوٹ دی جائے تو قانون کی اس خلاف ورزی پر مؤثر طریقہ پر شکایت پہونچانا بھی لازمی و ضروری ہوگا…

مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
9966870275
muftinaveedknr@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×