سیاسی و سماجی
حالیہ زرعی قوانین اور اسلامی نقطۂ نظر
گزشتہ دنوں پارلیامنٹ سے جو زرعی قوانین پاس کئے گئے ہیں، حکومت کو ان قوانین پر اصرار ہے اور وہ قانون کے متن میں استعمال کئے گئے خوبصورت الفاظ کا سہارا لے کر کہتی ہے کہ یہ کسانوں کے حق میں ہے، کسان سراپا احتجاج ہیں کہ یہ قانون ان کے لئے انتہائی نقصاندہ اور ان کے استحصال پر مبنی ہے، تو پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس قانون کے کیا اثرات مرتب ہوں گے پھر دیکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات اس مسئلہ میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں؟
جہاں تک اس قانون کی بات ہے تو اس میں تین باتیں کہی گئی ہیں: اول یہ کہ کسان اس بات پر مجبور نہ ہوں گے کہ وہ سرکاری منڈی میں اور سرکارکی مقرر کی ہوئی ہی قیمت پر اپنی پیداوار فروخت کریں؛ بلکہ وہ براہ راست عوام سے اپنا مال فروخت کر سکیں گے اور اپنی پسندیدہ قیمت متعین کر سکیں گے، یہ یقیناََ بہت خوبصورت الفاظ ہیں، گورنمنٹ کہتی ہے کہ اس طرح کسان کو بااختیار بنایا گیا ہے، کسان کہتے ہیں کہ اگر حکومت کسانوں کی پیداوار نہیں خریدے گی، تو غیر سرکاری کمپنیاں ان کی پیداوار خرید کریں گی اور ہوگا یہ کہ وہ من مانی قیمت مقرر کریں گی، کسانوں میں پھوٹ ڈال کر بعض گروپوں کو اپنی طئے شدہ قیمت پر آمادہ کریں گی اور اس طرح کسان بالخصوص چھوٹے کسان مجبور ہو جائیں گے، بالآخر ان کو وہ قیمت نہیں مل پائے گی، جو سرکار کسانوں سے اناج حاصل کرنے کے لئے مقرر کرتی ہے اور ان کی پیداوار بڑی بڑی کمپنیوں پر منحصر ہو جائے گی، کسانوں کے پاس اپنی پیداوار کو دیر تک محفوظ رکھنے کے وسائل بھی نہیں ہوں گے اور نہ ہر کسان مارکیٹ میں جا کر اپنا مال فروخت کر سکے گا؛ البتہ کمپنیاں بڑے بڑے گودام بنائیں گی، سستے داموں میں پیداوار خریدیں گی اور من چاہی قیمت پر اس کو فروخت کریں گی۔
دوسرے قانون میں یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ بات ممکن ہوگی کہ کسان پیداوار آنے سے پہلے ہی اپنی پیداوار کو فروخت کرلیں اور اپنے اختیار سے قیمت طئے کر لیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ فصل کو نقصان بھی ہو تب بھی ان کو پوری قیمت ملے گی، وہ کمپنیوں اور بڑے بڑے تاجروں سے تحریری معاہدہ کریں گے اور اگر کوئی اختلاف پیدا ہوا تو عدالتوں سے انہیں رجوع کرنے کا حق ہوگا، کسانوں کا کہنا ہے کہ اس قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنیاں قبل از وقت بڑے پیمانے پر کسانوں کی پیداوار خرید کرلیں گی اور عملاََ چوں کہ کسان اپنی پیداوار بیچنے پر مجبور ہوگا، کمپنیاں لینے پر مجبور نہیں ہوں گی تو اس طرح قیمت کمپنیوں کے منشاء کے مطابق طئے ہوگی اور اختلاف کی صورت میں بھی کمپنیاں ہی مقدمات جیتیں گی؛ کیوں کہ کسانوں کے پاس تو اتنے پیسے ہیں نہیں کہ وہ مقامی کورٹ سے شروع کر کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچیں؛ لیکن بڑی کمپنیوں کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے، وہ اپنے مالی وسائل کی وجہ سے زیادہ بہتر طور پر مقدمہ لڑ سکیں گی، اور اس میں کامیابی حاصل کریں گی۔
تیسرا قانون ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق ہے، ۱۹۵۵ء میں ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لئے ایک قانون بنا تھا، جس کے مطابق ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی جرم ہے اور ضروری اشیاء کی فہرست میں تقریباََ سبھی زرعی پیداوار کو شامل کیا گیا تھا؛ لیکن اب اس میں تبدیلی کر کے دال، تیل، پیاز، آلو وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کو ضروری اشیاء کی فہرست سے باہر کر دیا گیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کمپنیاں کسانوں سے بڑی مقدار میں ان اشیاء کو خرید کر کے ذخیرہ کر لیں گی، خریدیں گی تو کم قیمت پر لیکن ان کو روک کر مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کریں گی، پھر اسے مہنگے داموں فروخت کریں گی، محنت تو کسان کرے گا مگر اس کو خاطر خواہ نفع نہیں ہوگا؛ البتہ سرمایہ داروں کو کثیر نفع حاصل ہوگا اور عوام کو سستی چیزیں مہنگی ملیں گی۔
اب اسلامی نقطۂ نظر سے اس پورے معاملہ پر غور کیجئے تو اصولی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل نہیں کیا جائے، جس سے فرد یا عوام کو نقصان پہنچے، جب کہ اس قانون کا ما حصل یہ ہے کہ محنت تو کسانوں کی ہوگی؛ لیکن سرمایہ کی بدولت ان کی محنت کا ماحصل بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا، کسان عملاََ ان کے ہاتھ اپنا مال بیچنے پر مجبور ہوگا اور عوام کے لئے ضروریات زندگی مہنگی ہو جائیں گی، یہ بات شریعت کے دو بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، ایک عدل، دوسرے: ضرر سے فرد اور سماج کو بچانا۔
عدل کے معنیٰ انصاف کے ہیں، عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ محنت کرنے والے کو اس کی پوری اجرت ادا کی جائے، اس کو کم قیمت دے کر مال حاصل کر لینا استحصال ہے، یہ انصاف نہیں ہے؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ بیع مضطر‘‘ سے منع فرمایا ہے، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۳۳۸۲،باب فی بیع المضطر)یعنی کسی شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو کوئی سامان اس کی منصفانہ قیمت سے کم پر بیچنے پر مجبور کر دیا جائے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ اکراہ‘‘ سے منع فرمایا ہے، (سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر:۱۱۵۴۵) اکراہ کے معنیٰ ہیں دوسرے فریق کو مجبور کر دینا کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمت گرا دینا، یہ بھی اکراہ ہی کی ایک صورت ہے۔ (عون المعبود شرح سنن ابو داود، حدیث نمبر: ۳۳۸۲)
فقہاء نے اکراہ کا تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں، ایک:’’ اکراہملجئی‘‘جس میں کسی عمل پر اس طرح مجبور کیا جائے کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا، یا اس کا ڈھیر سارا مال برباد کر دیا جائے گا، یا اس کے متعلقین کو سخت جانی یا مالی نقصان پہنچایا جائے گا، دوسری صورت اکراہ غیر ملجئی کی ہے، جس میں قتل وغصب کی دھمکی تو نہیں ہوتی؛ لیکن اخلاقی دباؤ کے ذریعہ کسی عمل پر مجبور کیا جاتا ہے، اسی کی ایک صورت بیع مضطر ہے کہ ایک شخص اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے پیسوں کا سخت ضرورت مند ہو اور قرض لے کر یا اپنا کوئی سامان فروخت کر کے اس ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہو تو اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس کی مناسب قیمت سے کافی کم پیسوں میں اس کا سودا کیا جائے، اس قانون کی رو سے بھی یہی ہوگا کہ کسان کو کم قیمت پر اپنا مال بیچنے پر مجبور کر دیا جائے گا، یہ یقیناََ ظلم ہے۔
دوسرا پہلو عمومی ضرر کا ہے، ضروری اشیاء کو اگر چند تاجر اپنے ہاتھ میںلے لیں اور پھر اسے روک کر فروخت کریں؛ تاکہ قیمتیں بڑھ جائیں تو یہ جائز نہیں، اس کو عربی زبان میں ’’ احتکار‘‘ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ذخیرہ اندوزوں کو خاطی وغلط کار قرار دیا ہے، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۳۴۴۷) اور ان پر لعنت بھی بھیجی ہے، (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر: ۲۱۶۴) ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے کچھ اور طریقے بھی اسلام سے پہلے اختیار کئے جاتے تھے، ان میں ایک طریقہ وہ تھا کہ جس کو حدیث’’ تلقی رکبان‘‘( مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۱۵) سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اس زمانہ میں موجودہ دور کی طرح بڑی بڑی مارکٹیں نہیں تھیں، وہ اپنی جگہ سے مال لے کر چلتے ،مختلف منزلوں میں اپنا مال بیچتے جاتے اور وہاں کی پیداوار خریدتے جاتے، پھر اسے اگلی منزلوں پر فروخت کرتے، یہ تجارتی قافلے مختلف شہروں اور ملکوں کے درمیان تجارت کا ذریعہ تھے، ہوتا یہ تھا کہ جب شہر کے بڑے سرمایہ داروں کو خبر ہوتی کہ فلاں جگہ سے تجارتی سامان لے کر ایک قافلہ آرہا ہے تو وہ شہر سے باہر نکل کر پورا سامان خرید کر لیتے، قافلہ شہر میں داخلہ ہوئے بغیر باہر ہی باہر آگے بڑھ جاتا، اب قیمت ان تاجروں کے ہاتھ میں ہوتی، وہ اپنی من مانی قیمت میں سامان فروخت کرتے، ان کے آگے بڑھ کر قافلہ سے سامان خریدنے کا منشاء یہی ہوتا کہ اگر قافلہ شہر کے اندر آگیا تو قیمتیں گِر جائیں گی؛ کیوں کہ جب طلب کے مقابلہ میں رسد بڑھ جائے تو فطری طور پر قیمتیں کم ہو جاتی ہیں؛ چنانچہ آپ نے اس طریقہ کو منع فرمایا ،فقہاء نے لکھا کہ اگرچہ اس طرح خریدے ہوئے سامان پر خریدار کی ملکیت قائم ہو جائے گی؛ لیکن خریدوفروخت کا یہ معاملہ مکروہ ہوگا۔
مصنوعی گرانی پیدا کرنے کی ایک اور شکل وہ تھی جس کو حدیث میں ’’بیع حاضر للبادی‘‘ کہا گیا ہے، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۶۲) یعنی دیہات کے لوگ خاص کر کاشتکار اپنا سامان بیچنے کے لئے شہر آتے، شہر کے تاجروں کو خطرہ ہوتا کہ سامان کی وافر مقدار آنے کی وجہ سے شہر میں قیمتیں گِر جائیں گی؛ اس لئے وہ ان دیہاتیوں کو کہتے کہ تم سامان ہمارے حوالہ کر دو، ہم اسے بیچ کر تمیں پیسہ ادا کر دیں گے، دیہات سے آئے ہوئے لوگ اس پر راضی ہو جاتے؛ کیوں کہ انہیں مناسب قیمت مل جاتی تھی اور اپنے مال کے فروخت کے لئے انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا تھا ،شہر کے تاجروں کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ بازار میں قیمت گرتی نہیں تھی اور جو قیمت انھوں نے مقرر کر رکھی تھی، وہ قیمت جاری رہتی تھی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت کو بھی منع فرمادیا۔
خریدوفروخت کی اِن صورتوں کو منع فرمانے کی حکمت یہی تھی کہ عوام کو نقصان سے بچایا جائے، فصل کی پیداوار آنے یا مارکیٹ میں زیادہ سامان آنے کی وجہ سے جو ارزانی پیدا ہوتی، وہ نہ ہونے پائے، اور اس کا عام لوگوں کو نقصان ہوتا، غور کریں تو یہ زرعی قوانین جہاں کسانوں کے لئے نقصان دہ ہیں، وہیں عوام کے لئے بھی پریشان کن ثابت ہوں گے، ان ہی بنیادی ضروریات بھی مہنگے داموں خریدنی پڑیں گی اور غریبوں کے لئے اپنی دال روٹی کا انتظام بھی مشکل ہو جائے گا، الغرض کہ یہ قانون ایک طرف کسانوں کا استحصال کرتا ہے، پھر اس سے ایک اور نقصان یہ ہوگا کہ زرعی پیداوار کے ذریعہ پہلے ہی سے کسانوں کو کم آمدنی حاصل ہو پاتی ہے، بعض دفعہ تو جو خرچ کیا جاتا ہے، وہ بھی نہیں مل پاتا، اس کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں کسان اپنی آبادیوں کو چھوڑ کر محنت ومزدوری کے لئے شہر کے طرف آرہے ہیں اور وہ اپنے بال بچوں کے لئے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس پیشہ سے دور رکھیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ زرعی پیداوار کم ہوتی جائے گی، اور بنیادی ضروریات کی قلت پیدا ہو جائے گی، یقیناََ یہ بہت بڑا قومی نقصان ہوگا، اس میں شبہ نہیں کہ حکومت زیادہ قیمت پر کسانوں سے اناج خرید کرتی ہے اور کم قیمت پر عوام کو فروخت کرتی ہے، کسی وزیر کا بیان آیا تھا کہ اس کی وجہ سے حکومت کو ہر سال ایک ہزار کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ سرمایہ دار گھرانوں کا غصب کیا ہوا ہزاروں ہزار کروڑ کا قرض تو معاف کر دیا جائے؛ لیکن جو کسان دھوپ، ٹھنڈ اور بارش کی پرواہ کئے بغیر کھیتی کرتا ہے اور پورے ملک کو ضروریات زندگی فراہم کرتا ہے، اس کے مفاد کے لئے ایک ہزار کروڑ بھی برداشت نہیں کیا جا ئے!