سیاسی و سماجی

مسلمان کیسے آتم نِر بَھر (خود مکتفی) ہوں؟ (۳)

زبان
کسی بھی قوم کے لئے اپنی زبان کی بڑی اہمیت ہے، ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے؛اس لئے زبان کے مسئلہ پر یہاں جھگڑے بھی شروع سے ہوتے رہے ہیں، اردو زبان کا تعلق اگرچہ مذہب سے نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں پچاسی سے نوے فیصد مسلمانوں کے لئے اردو ہی رابطے کی زبان ہے، دینی مدارس میں یہی ذریعہ تعلیم ہے، مسجدوں میں زیادہ تر بیانات اسی زبان میں کیے جاتے ہیں،یہی زبان جلسوں کی رونق ہے، اردو اخبارات ہی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں،اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلامی لٹریچر کے اعتبار سے عربی کے بعد یہ سب سے دولت مند زبان ہے۔
افسوس کہ اردو نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا اور اردو شعر و ادب سے دنیا بھر میں ہندوستان کا تعارف ہوا؛ لیکن آزادی کے بعد ہی سے اس زبان کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور موجودہ تعلیمی پالیسی نے اس متعصبانہ کوشش کو آخری درجہ پر پہنچا دیا ہے، اگر حکومت کی یہ سازش کامیاب ہوگئی تو ہماری نئی نسل کا رشتہ اپنے ماضی سے اور عوام کا رشتہ علماء سے کٹ کر رہ جائے گا۔
اس پس منظر میں ہمیں ایک طرف قانونی طور پر اردو کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسری طرف اپنے طور پر بھی اپنی زبان کی حفاظت کا سروسامان کرنا چاہیے، اس کی بہترین مثال یہودی ہیں،جنھوں نے ہزاروں سال اقتدارسے محروم رہنے کے باوجود اپنی زبان’’عبرانی‘‘ کو محفوظ رکھا اور جب اسرائیل قائم ہوا تویہ اسرائیل کی سرکاری زبان بن گئی۔
اس سلسلے میں درج ذیل امور پر توجہ دینی چاہیے:
۱- مسلمان اپنی گھریلوزبان کے طور پر اردو ہی کا استعمال کریں؛ تاکہ نئی نسل کم سے کم بولی کی حد تک اردو زبان سے ضرور واقف رہے۔
۲- آپسی خط و کتابت میں اردو کا استعمال کریں۔
۳- اپنی دکانوں اور آفسوں وغیرہ کے سائن بورڈ میں اردو کو شامل کریں۔
۴- اپنے گھروں میں اردو اخبارات و رسائل جاری کریں اور انہیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
۵- ہر بچہ کو مکتب میں یا گھر میں اردو بولنا اور لکھنا ضرور سکھائیں۔
۶- مسلمان اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں – چاہے اس کا میڈیم انگلش ہو – بطور ایک زبان کے اردو پڑھائیں۔
۷- اردو کتابیں خریدیں، اپنے گھروں میں لاکر رکھیں اور اردو کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
۸- اردو زبان میں تقریر، تحریر، بیت بازی،حمد، نعت اور غزل کے مقابلے رکھوائیں اور اس پر انعام دیں۔
اگر ہم یہ اور اس طرح کی تدبیروں پر عمل کریں تو ہم خود اپنی کوششوں سے اپنی زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کا رشتہ اسلامی لٹریچر کی وسیع دنیا کے ساتھ استوار کر سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ہندی اور مقامی زبانوں میں منتخب اسلامی لٹریچر کو تیزی سے منتقل کیا جائے، فارسی زبان کوئی اسلامی زبان نہیں ہے، یہ آتش پرستوں کی زبان تھی؛ لیکن جب مسلمان اس خطہ میں پہنچے تو انہوں نے اِس زبان پر اتنی محنت کی کہ یہ مسلمانوں کی زبان بن گئی، یہاں تک کہ آج مسلمان شعراء اور مصنفین کے بغیر فارسی زبان و ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس پر توجہ کی بہت شدید ضرورت ہے؛ تاکہ ہمارے جو بچے اردو نہیں پڑھ سکتے، وہ دین سے نا واقف نہ رہیں، اور اس لئے بھی کہ ہم تمام قوموں کی مشترک زبان ہی کے ذریعہ برادران وطن تک پہنچ سکتے ہیں اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
سیاسی قوت میں اضافہ
اس سے کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کر سکتا کہ سیاسی قوت کی بڑی اہمیت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مسلمانوں کو آزادی کے بعد ہی سے منصوبہ بند طریقے پر سیاست کے میدان میں بے وزن کرنے کی کوشش کی گئی، متناسب ووٹنگ کا نظام ختم کر دیا گیا، اگر متناسب ووٹنگ کا نظام باقی ہوتا تو کسی شہری کا ووٹ ضائع نہیں ہوتا؛ بلکہ جو پارٹی جتنے ووٹ حاصل کرتی، اس کے لحاظ سے اس کو نمائندے نامزد کرنے کا حق ہوتا، اس صورت میں ملک میں بکھرے ہوئے مسلمان بھی اپنے ووٹ کو موثر بنا سکتے تھے، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کا ووٹ ضائع ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ جس حلقے میں مسلمانوں کے زیادہ ووٹ ہوتے ہیں، ان کو محفوظ قرار دے دیا جاتا ہے؛ لہذا ایک تو اس سلسلے میں قانونی کوشش کرنی چاہیے اور مسلم علاقوں کومحفوظ قرار دینے کے معاملہ کوعدالت میں چیلنج کرنا چاہیے،دوسرے: ایسی پارٹیوں کو تقویت پہنچانی چاہیے جو مسلمانوں کے لئے نسبتا مفید ہوں۔
اس سلسلے میں درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:
۱- جہاں کوئی مسلم پارٹی کا امیدوار کھڑا ہو اور پچاس فیصد سے زیادہ اس کے جیتنے کی توقع ہو، وہاں اس کو جتانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیونکہ وہ کھل کر مسلم مسائل پر بات کر سکتا ہے، اس پر پارٹی کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بعض جماعتیں جو اپنے آپ کو سیکولر قرار دیتی ہیں، وہ بھی اپنے مسلم نمائندے کو کھل کر اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتیں؛کیونکہ ان کو انتہا پسند فرقہ پرستوں کے ووٹ کی فکر دامن گیر رہتی ہے؛ اس لئے مسلم پارٹی کو ترجیح دینی چاہئیے۔
۲- جہاں مسلم پارٹی تو نہ ہو؛ لیکن کسی ایسی پارٹی کا مسلمان امیدوار ہو، جو کم سے کم اپنے آپ کو زبان سے سیکولر کہتی ہو اور اس امیدوار کے جیتنے کی پچاس فیصد سے زیادہ توقع ہو، تو اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کرنا چاہیے؛ کیونکہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایوان قانون میں بھی اور اپنی پارٹی میں بھی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کر سکے گا۔
۳- جہاں مسلم پارٹی ہو یا مسلمان امیدوار ہو؛ لیکن اس کے جیتنے کی کم امید ہو، وہاں ان کو ووٹ دینا اپنے ووٹ کو ضائع کرنا ہے؛ اس لیے وہاں اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے، جو سیکولرمنشور رکھتی ہو، بہت سی دفعہ لوگ سوچتے ہیں کہ فلاں پارٹی سیکولرزم کا نعرہ لگاتی تھی؛ لیکن اسی کے عہداقتدار میں مسلمانوں کو ڈھیر سارا نقصان بھی پہنچا، یہ حقیقت واقعہ ہے؛ لیکن جب تمام پارٹیاں فرقہ واریت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوں تو اس وقت ہمیں بڑے نقصان اور چھوٹے نقصان کا موازنہ کرنا ہوگا اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے کم تر درجے کے نقصان کو گوارا کرنا ہوگا،فقہاء کے یہاں یہ ایک مستقل اصول ہے، مثلا اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے، اس نے مسلمانوں کو پہنچنے والے ماضی کے نقصانات کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں سنگین ا ضا فہ یہ کیا ہے کہ دستوری طور پر مسلمانوں کی شہریت، مذہبی تشخص اور حق تعلیم کو جو تحفظ حاصل ہے، اسے ہی ختم کر رہی ہے، یعنی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی بنیادیں ہی اکھیڑ دی جائیں، یہ یقینا اُس نقصان سے بڑھا ہوا ہے، جو ہم نے پچھلی حکومتوں سے اٹھایا ہے، یہاں تک کہ گزشتہ روایات سے ہٹتے ہوئے وزارتوں میں کسی مسلمان کی نمائندگی بھی قبول نہیں کی جاتی،حکمر انوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے وفد سے ملاقات بھی نہیں کرنا چاہتے، ان حالات میں ان لوگوں کو کمزور سے کمزور تر کر دینا جنہوں نے اپنے اصول اور منشور میں سیکولرزم کو شامل کر رکھا ہے،بے حد نقصان دہ ہوگا۔
۴- علاقائی پارٹیوں کی بھی اہمیت ہے، اب ملک کی اکثر ریاستوں میں ایسی پارٹیاں موجودہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاستی سطح کی پارٹیوں کا کوئی نظریہ اور موقف نہیں ہوتا، وہ اپنا قبلہ بدلتی رہتی ہیں اور وہ مرکزی حکومت کے بننے اور گرنے میں بنیادی رول ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں، ملک بھر کے لئے قانون مرکزی ایوانِ قانون میں بنتا ہے اور وہاں اقتدار میں نیشنل پارٹیاں ہوتی ہیں؛ اس لئے نیشنل پارٹیوں سے مسلمانوں کو بے تعلق نہ ہونا چاہیے اور اس میں شامل رہ کر پریشر گروپ کے طور پر کام کرنا چاہیے،اس کی اہمیت کا اندازہ بی جے پی کے نعرے سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کانگریس ُمکت بھارت، کمیونسٹ ُمکت بھارت کا نعرہ لگا رہی ہے؛ لیکن ریاستی پارٹیوں کے بارے میں اس طرح کے نعرہ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی؛ کیونکہ یہ ان کے عزائم کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
۵- سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان خاموش طریقہ پر اپنے ووٹ کو متحد کریں اور ایسے امیدوار کو کامیاب بنائیں، جو فرقہ پرست امیدوار کو شکست دے سکتا ہو؛ورنہ فرقہ پرست ووٹوں کا اتحاد ہوجائے گا اور مسلمانوں کے ووٹ ضائع ہوجائیں گے۔
۶- یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جلسوں میں جذباتی اور جارحانہ تقریروں سے بچا جائے،اس سے وقتی طور پر مسلمانوں کے جذبات کی تسکین ضرور ہوتی ہے اور نعرے بھی خوب لگتے ہیں، مگر فائدہ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور مسلم مخالف ووٹ متحد ہو جاتا ہے، اسوہ نبوی ہمارے سامنے ہے، آپﷺ کواور مسلمانوں کو کس قدر تکلیفیں دی گئیں، مگر آپﷺ نے اپنے خطبات میں ہمیشہ دین کی، انسانیت کی اور انصاف کی باتیں کیں اور کبھی اعدا ء اسلام کے مظالم کو موضوعِ سخن نہیں بنایا۔
۷- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غیر مسلم قبائل سے معاہدہ کیا ہے،ہجرت کے بعد مدینہ میں بسنے والے تمام قبائل کو جوڑ کر وہ تاریخی معاہدہ کروایا، جو ’’میثاق مدینہ‘‘کہلاتا ہے، اس میں یہ سبق ہے کہ ہمیں برادرانِ وطن میں سے ان لوگوں کو ساتھ لینا چاہیے جو ہماری ہی طرح مظلوم ہیں، یعنی :دلت، اگر ہر علاقے میں مسلمان دلتوں کے ساتھ مل کر اپنی پالیسی طے کریں اور شرائط کی بنیاد پر ان کے ساتھ اتحاد کریں تو ملک میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور ناانصافی کا سدباب ہو سکتا ہے۔
غرض کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے، وہ خود نفرت کے بیج بورہے ہیں اور اقلیتوں کو خوف زدہ کیا جارہا ہے، ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دین پر ثابت قدم رکھا جائے، انہیں تعلیم میں آگے بڑھایا جائے، وہ ’’آپ اپنی حفاظت‘‘ کے لائق بن سکیں، نفرت کے ماحول کو اپنے اخلاق کے ذریعہ تبدیل کیا جائے، معاشی ترقی کے لئے ان وسائل پر توجہ دی جائے، جن کا حکومت کی مدد پر انحصار نہیں ہے، اردو زبان سے نئی نسل کو آشنا کیا جائے اور اس کو زیادہ سے زیادہ رواج دیا جائے، مقامی زبان میں اسلامی لٹریچر کو منتقل کیا جائے ،اور سیاست کے میدان میں باریک بینی کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے، اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ برادران وطن کے درمیان اسلام کااور پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت طیبہ کا سچا تعارف کرایاجائے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کو پہنچایا جائے، نیز حالات کچھ بھی ہوں، اپنے آپ کو کم ہمتی سے بچا کر رکھا جائے؛ کیونکہ بے حوصلہ قوم کی مثال اس درخت کی ہوتی ہے جو اندر سے سوکھ جائے، اس کو ہوا کا ایک جھونکا بھی اکھاڑ پھینکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×