محمد بن قاسم ظالم یا مسیحا!
غزوۃ الہند کی حقیقت واضح ہونے کے بعد اب اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ:
۰ محمد بن قاسم کے حملہ کا واقعہ کیوں پیش آیا؟
۰ اس نے کس طرح کامیابی حاصل کی، صرف عرب فوج سے یا مقامی لوگوں کی مدد سے؟
۰ محمد بن قاسم کا اپنی مسلم وغیر مسلم رعایا کے ساتھ کیسا سلوک تھا؟
۰ راجہ داہر کس کردار کا انسان تھا اور اپنی رعایا کے ساتھ اس کا کیا رویہ تھا؟
اس سلسلہ میں ڈاکٹر مختار احمد مکی کی کتاب ’’ ہندوستان میں گمراہ کن تاریخ نویسی‘‘ کے ایک مضمون کا خلاصہ کسی قدر حذف واضافہ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
حملہ کا محرک
حقیقت یہ ہے کہ جزیرہ سراندیپ اور مالا بار میں پہلے سے مسلمان آباد تھے، لنکا دیپ اور مالدیپ میں بھی مسلمان آبادیاں تھیں، اور سراندیپ کا راجہ مسلمان ہو چکا تھا، اس نے سلطنت اسلامیہ کی خدمت میں آٹھ جہازوں پر مشتمل ایک بحری بیڑہ روانہ کیا، جس میں بیش قیمت تحائف بھی تھے، اور حاجیوں اور مسلمان تجار کے یتیموں اور بیواؤں پر مشتمل ایک قافلہ بھی سوار تھا، لیکن سمندری طوفان میں وہ بیڑا بھٹک کر دیبل کے ساحل پر جا پہنچا، ان جہازوں کو لوٹ لیا گیا، اور تمام لوگوں کو گرفتار کر کے راجہ داہر کی راجدھانی الور بھیج دیا گیا؛ لیکن اس میں سے دو افراد کسی طرح جان بچا کر عراق پہنچے، اور اس قزاقی کی المناک داستان عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو سنائی کہ جب ایک بیوہ عورت پر تشدد کیا جا رہا تھا تو وہ یا حجاج! أغثنی (اے حجاج! مجھے بچاؤ) یا حجاج! أغثنی (اے حجاج! مجھے بچاؤ) چیخ رہی تھی۔
حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو فوراََ ایک خط لکھ کر ان قیدیوں کو واپس کرنے کو کہا، چچ نامہ اور تاریخ فرشتہ کے مطابق راجہ داہر نے اس کے جواب میںلکھا کہ یہ کام ایسی قوم نے کیا ہے، جو بڑی قوت وشوکت کی مالک ہے، اور اس پر قابو پانا ممکن نہیں ہے؛ حالاں کہ یہ مال واسباب اور عورتیں بعد میں راجہ داہر کے کمانڈروں ہی کے یہاں سے برآمد ہوئیں، اس جواب کے بعد حجاج نے عبداللہ اسلمی کو ایک مختصر فوجی دستہ دے کر ان سمندری لٹیروں کی سرکوبی کے لئے دیبل روانہ کیا، اس کا مقابلہ دیبل پہنچنے سے قبل ہی بلوچستان میں راجہ داہر کے بیٹے کشیب (جسے عرب جیہ سیہ کہتے تھے) سے ہوا، اس لڑائی میں عبداللہ اسلمی شہید ہو گئے، اور فوج کو شکست سے دو چار ہونا پڑا، جب اس کی خبر حجاج کو ملی تو اس نے ایک بڑا دستہ جس میں چار ہزار لوگ تھے، بدیل محالی کی قیادت میں بھیجا؛ لیکن اس کو بھی دیبل پہنچنے سے قبل ہی کشیب نے اپنی زبردست فوج اور جنگی ہاتھیوں کی مدد سے شکست دے دی۔
اب حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے سندھ پر باضابطہ حملہ کی اجازت چاہی؛ لیکن خلیفہ کو حجاج کی اس درخواست پر تأمل تھا؛ کیوں کہ دو بار مسلمانوں کی فوج کو شکست ہو چکی تھی، حجاج بن یوسف نے ساری کارروائی کی ذمہ داری اپنے سر لی، اس نے اپنے سترہ سالہ چچا زاد بھائی اور داماد محمد بن قاسم کو شیراز سے بلا کر چھ ہزار شامی گھوڑسوار، چھ ہزار عراقی شتر سوار اور تین ہزار بار برداری کے اونٹ کے ساتھ سندھ کے لئے ۷۱۱ھ میں روانہ کیا، اس کے ساتھ ہی بحری جہازوں کا ایک بیڑا بھی تھا، جس میں سامان رسد کے علاوہ آلات جنگ اور منجنیق وغیرہ تھے۔
مقامی لوگوں کی مدد
محمد بن قاسم کی فوج نے سندھ پہنچ کر اس کے ایک شہر دیبل کا محاصرہ کر لیا، آٹھ دنوں تک میدان کارزار گرم رہا، راجہ داہر کا بیٹا کشیب اپنے ساتھ چار ہزار فوج لے کر راتوں رات دیبل سے نکل بھاگا اور شہر پر محمد بن قاسم کا قبضہ ہوگیا، مختلف شہروں کے حاکم اور عوام محمد بن قاسم کے حسن سلوک کی وجہ سے اس کے مطیع ہوتے گئے، کچھ شہروں کے حاکموں اور عوام نے اپنی رغبت سے شہر خالی کر دئیے تو کچھ جگہوں پر مقابلے ہوئے اور بزور قوت اس پر قبضہ حاصل کیا گیا، اس طرح وہ راجہ داہر سے لڑنے کے لئے الور کی جانب روانہ ہوا، جہاں راجہ داہر اپنے بیٹے کشیب اور خلیفہ بغداد کا ایک باغی محمد علاقی کو لے کر ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کا منتظر تھا، الور سے پہلے ایک تیز وتند دریا کو عبور کرنا تھا، محمد بن قاسم کی فوج نے کشتی کا ایک پل تیار کیا اور اپنے پورے لاؤلشکر کے ساتھ بڑی تیزی سے دریا کی دوسری جانب پہنچ گیا، اس جنگ میں اس کی مدد کے لئے موکا بن بسیا اور اس کا بھائی راسل ٹھاکر اور جاٹ کی ایک بڑی تعداد بھی تھی، ابتداء میں اس کا مقابلہ داہر کے بیٹے کشیب سے ہوا، اس وقت محمد بن قاسم کے پاس پندرہ ہزار کے قریب فوج تھی، جب کہ راجا داہر کے پاس پچیس سے تیس ہزار زرہ پوش سپاہی، دس ہزار نیزہ بردار اور تقریباََ پچاس ہزار کے قریب فوج ، نیز جنگی ہاتھی بھی تھے، راجہ داہر کے ہاتھیوں نے محمد بن قاسم کی فوج کو کافی نقصان پہنچایا، ۲۰؍ جون ۷۱۲ء کو بڑے زور وشور کے ساتھ جنگ ہوئی، تیسرے روز راجہ داہر کی فوج تتر بتر ہو گئی؛ لیکن وہ اپنے ایک ہزار وفادار سپاہیوں کے ساتھ میدان میںڈٹا رہا، ۲۱؍ جون مطابق ۱۰؍ رمضان المبارک ۹۳ھ کو بعد مغرب داہر کے قتل ہونے کے ساتھ ہی جنگ کا فیصلہ محمد بن قاسم کے حق میں ہوگیا۔
محمد بن قاسم کی دوسری بڑی فتح برہمن آباد کی مانی جاتی ہے، جہاں راجہ داہر کا بیٹا کشیب ، محمد علاقی اور وزیر سی ساگر دوسرے ہندو راجاؤں کے ساتھ اس سے مقابلہ کے لئے تیار تھا، چھ ماہ تک اس قلعہ کا محاصرہ جاری رہا، بالآخر ان لوگوں نے جان ومال کی امان حاصل کر کے قلعہ محمد بن قاسم کے حوالہ کر دیا، محمد بن قاسم نے بغیر کسی کشت وخون کے تمام اہل کاروں کو اپنی جگہ مامور رکھا، صرف جزیہ (ٹیکس) کے لئے اعلان کیا گیا کہ درجہ اول یعنی امراء طبقہ کے لوگوں سے ۱۴؍ تولہ، درجہ دوم کے لوگوں سے ۷؍ تولہ اور عام لوگوں سے پونے چار تولہ چاندی وصول کی جائے گی، اور جو لوگ اسلام قبول کر لیں گے،ان سے اسلامی احکام کے مطابق زکوٰۃ وصدقات کی رقم وصول کی جائے گی، نیز جو لوگ اپنے باپ دادا کے مذہب پر قائم رہیں گے، ان کے لئے کوئی رکاوٹ اور زور زبردستی نہیں کی جائے گی، وہ اپنی زمین، مکان اور جائداد کے حسب سابق مالک رہیں گے۔
راجہ داہر کی ایک بیوی لادی نے اسلام قبول کر لیا اورمحمد بن قاسم نے اسے عزت دیتے ہوئے باندی کے درجہ میں رکھنے کے بجائے اپنے نکاح میںلے لیا، بقیہ بیویاں یا تو ستی ہو گئیں یا پُر امن طور پر اپنی زندگی کے بقیہ اوقات پوری کرنے میں لگ گئیں، راجہ داہر کی دو بیٹی سوریہ دیوی اور پرمالی دیوی کو گرفتار کر کے خلیفہ کے پاس بھیج دیا گیا، بقیہ تمام قیدی رہا کر دئیے گئے، اور عام لوگوں کو امان دے دی گئی، اسی طرح اس نے ملتان کو بھی دو ماہ کے محاصرہ کے بعد اپنے قبضہ میںلے لیا، جہاں ایک برہمن کی نشاندہی پر جیسو نامی ایک قدیم راجہ کا خزانہ ہاتھ لگا، اس میں دو سو تین من خالص سونے کی ایک مورتی اور زیرِ زمین تیرہ ہزار دو سو من سونے کا ٹکڑا تھا، ملتان کی اس فتح کے بعد محمد بن قاسم کے فوجیوں کی تعداد بڑھ کر پچاس ہزار کے قریب ہوگئی، جو سندھ نزاد نو مسلم، جاٹ اور میڈاس ذات کے ہندوؤں پر مشتمل تھی، جب کہ اس نے جب سندھ میں قدم رکھا تھا تو اس کے ساتھ صرف بارہ ہزار شامی وعراقی فوجی تھے، کاکا، موکا، سی ساگر، کاکیسا وغیرہ ہندو سردار بھی اس کے ساتھ ہو گئے تھے، جن پر وہ اسی طرح بھروسہ کرتا تھا، جیسا کہ مسلمان سرداروں پر کیا کرتا تھا، اس نے ان میں سے کسی کو اسلام قبول کرنے کے لئے کبھی مجبور نہیں کیا، راجہ داہر کا بیٹا کشیب نے بھی محمد بن قاسم کی معزولی کے بعد دوبارہ برہمن آباد پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت مستحکم کر لی، دو سال بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں اس نے اسلام قبول کر لیا اور برہمن آباد پر قابض رہا، محمد بن قاسم ہندستان کے لوگوں کو اہل کتاب تسلیم کرتا تھا، اس کا ایک واضح حکم تھاکہ ہندوؤں کے مندروں کی حیثیت وہی رہے گی، جو عیسائی چرچوں، یہودیوں کے عبادت خانوں اور پارسیوں کی آتش کدوں کی ہے۔
’’چچ نامہ‘‘ میں ہے کہ برہمن آباد کی مہم کے خاتمہ کے بعد مقامی باشندوں نے اپنے ایک مندر کی تعمیر نو کے لئے اس سے استدعاء کی، محمد بن قاسم نے اس سلسلہ میں حجاج بن یوسف کو ایک خط لکھا ، جس کا جواب حجاج نے ان الفاظ میں دیا:
’’ مکتوب عزیز پہنچا، احوال مندرجہ سے آگہی ہوئی، برہمن آباد کے سر بر آوردہ لوگوں نے اپنے مندر کی تعمیر اور اپنی قوم کے متعلق التماس کیا ہے،جب ان لوگوں نے ہماری اطاعت قبول کر لی ہے، اور دارالخلافہ کے طئے کردہ رقوم کی ادائیگی کا ذمہ لے لیا ہے، تو پھر ہمارا ان پر کوئی حق نہیں رہتا؛ اس لئے اب وہ ذمی ہو گئے ہیں، اور انکی جان ومال میں تصرف کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے؛ اس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے معبود کی عبادت کریں، اور کسی شخص کو اس کے مذہب کے متعلق ممانعت نہ ہو؛تاکہ وہ اپنے گھروں میں اپنی رائے کے مطابق رہیں سہیں‘‘ (ویشم ڈجیکسن، ہسٹری آف انڈیا:۵؍۱۲، طبع: لندن، ۱۹۰۷ء)
محمد بن قاسم کا سلوک و اخلاق
اب ایک نظر محمد بن قاسم کے اخلاق وسلوک پر ڈالئے! مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ محمد بن قاسم اپنی سیرت اور کردار کا ایک غیر فانی نقش سندھ میں چھوڑ گیا، جو عرب مسلمان یہاں رہ گئے تھے، انھوں نے اپنے مرثیوں میں خون کے آنسو بہائے، اور ان سے زیادہ ماتم مقامی باشندوں نے کیا، اس کی فیاضی، سرچشمی، رواداری اور حسن اخلاق کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے اس کی مورتی بنائی، وہ عقیدت سے اس کے آگے سرِ نیاز خم کرتے، جیسا کہ مشہور مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ ہندوستان کے باشندوں نے محمد بن قاسم کی موت پر آنسو بہائے، ار کیرج (کوراج یا جئے پور) میں اس کی مورتی بنا کر رکھی گئی۔
ڈاکٹر تارا چندر محمد بن قاسم کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :
’’ مسلمان فاتح نے مفتوحون کے ساتھ نہایت عقل مندی اور فیاضی کا سلوک کیا، مال گزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا، اور قدیم ملازموں کو اپنی جگہ برقرار رکھا، ہندو پچاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندر میں پوجا پاٹ کی اجازت تھی، ان پر فقط ایک خفیف سا محصول عائد کیا جاتا، جو اسے آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتا، زمین داروں کو اجازت تھی کہ وہ برہمنوں اور مندروں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں ‘‘۔ (اے، شارٹ ہسٹری آف انڈیا:۱۲۲)
راجہ داہر کا کردار و اخلاق
جب کہ راجہ داہر کے باپ کے متعلق تارا چندر ہی لکھتے ہیں :
’’ وہ ایک انتہائی متعصب بادشاہ تھا اور رعایا کے ایک طبقہ کے لئے اس کے قوانین انتہائی سخت اور جابرانہ ہوتے تھے……. انہیں ہتھیار رکھنے، اچھا کھانے، کپڑا پہننے اور گھوڑ سواری کی اجازت نہیں ہوتی تھی‘‘
ایک جرمن دانشور جان کریمر لکھتا ہے کہ:
’’ سندھ میں محمد بن قاسم کی حکومت میں اور اس کے بعد بھی برہمنوں کی عزت اور ان کا رتبہ جوتوںکا قائم رہا، زمین کی مال گزاری بھی حسب معمول جوں کا توں تین فیصدی جاری رکھی گئی، ہندوؤں کو کھلی اجازت تھی کہ اپنے مندر بنانے کے لئے وہ آزاد ہیں، ہندو تاجر مسلمان تاجروں کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانے کے لئے جو بھی طریقہ مناسب سمجھتے، عمل میںلاتے، عربوں اور سندھیوں میں اس قدر باہمی تعلقات اور محبت کے رشتے استوار ہو گئے کہ خلیفہ نے کبھی سندھ میں مندروں کو گرانے کی یا اسلام کے پرچار کی اجازت نہیں دی‘‘۔
ایشوری پرشاد نے محمد بن قاسم کے کارناموں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس کے باوجود ان کا بیان ہے:
………… محمد بن قاسم نے ہندوستان پہنچ کر اپنے جھنڈے کے نیچے ان جاٹوں اور میدیوں کو جمع کیا، جو ہندوؤں کی غیر روادارانہ حکومت سے عاجز تھے، اور بہت ذلت برداشت کر رہے تھے، وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتے تھے، ان کو اچھے کپڑے پہننے کی ممانعت تھی، ان کو ننگے سر رہنے کا حکم تھا، ان ذلتوں کے باعث وہ محض لکڑہارے اور پَن بھرے بن کر رہ گئے تھے، ان کے دلوں میں ایسا عناد بھرا ہوا تھا کہ انھوں نے اپنی قسمت کو فوراََ ہی ایک اجنبی کے سپرد کر دیا‘‘۔ (ایشوری پرشاد، ہسٹری آف میڈائیول انڈیا:۵۶)
ڈاکٹر بینی پرساد لکھتے ہیں:
’’ ہندوستان میں حکومت کے مقبول ہونے کے لئے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ اس کے باشندوں کو مذہبی فرائض انجام دینے اور عبادت کرنے کی آزادی حاصل ہو، ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے مذہبی رواداری کی اہمیت کو بہت جلد محسوس کر لیا تھا، اور اپنی حکمت عملی اس کے مطابق بنائی، آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم نے سندھ میں اپنی حکومت کا جو نظم ونسق قائم کیا، وہ اعتدال اور رواداری کی روشن مثال ہے‘‘۔ (ہسٹری آف جہانگیر: ۸۹)
The Muslim invaders had realised the importance of religion and accordingly adopted their administrative measures, In the 8th century the rule which Mohammad Bin Qasim established was a excellent example of tolerance, (Beni Prasad History of Jahangir. pp. 88.89
شمس العلماء مولانا ذکاء اللہ بھی محمد بن قاسم کے کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ اگرچہ محمد بن قاسم کی نو عمری اور شباب کا عالم تھا؛ مگر وہ بڑا مدبر اور شجاع تھا، شمشیر اور تدبیر دونوں سے کام لیتا تھا، اگر اتفاقیہ شمشیر سے کوئی ستم ہو گیا تو تدبیر سے اس کی مکافات بھی ضرور کی، اگر کہیں بتوں کو توڑ ا تواس کے ساتھ بت خانوں کی مرمت کا بھی حکم دے دیا، اگر کہیں لوٹ مار سے دشمنوں کو خستہ کیا تو ان کو بیت المال سے معاوضہ بھی دلا دیا، قدیم قاعدہ جو ہندوؤں کا تھا کہ زر مال گزاری میں سے تین فی صد خزانہ شاہی میں اس لئے داخل کیا کرتے تھے کہ اس روپیہ میں سے برہمنوں کی خدمات کا معاوضہ دیا جائے، اسے اسی طرح بدستور برقرار رکھا، جو بھی مقامی ذی لیاقت آدمی ملا، اس کی قدر شناسی کی؛ بلکہ لائق آدمی ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نکالا اور سرفراز کیا، اس نے یہاں کے وزیروں کو وزیر اور مشیروں کو اپنا مشیر مقرر کیا اور اپنے پاس رکھا، غرض مردم شناسی اور دلجوئی اس پر ختم تھی، (تاریخ ہند: ۲۴۵)
اوپرراجہ داہر کے اپنی رعایا کے ساتھ سلوک کا ذکر آچکا ہے، اپنی ذاتی زندگی میں اس کی اخلاقی حالت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا، چند سالوں میں وہ فوت ہو گیا تو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنا اور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر، چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے داہر کے پاس بھیج دیا کہ اس کی شادی کر دی جائے، داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا، جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے، یہ جس کے پاس رہے گی، اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی، داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے، وزیروں سے مشورہ کیا، انھوں نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کر لیں، بات اچھی ہو یا بری، لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں، لوگوں نے توراج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا، بہن سے شادی تو معمولی بات ہے؛ چنانچہ داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (موجودہ حیدرآباد سندھ) پہنچا، اور قلعے کا محاصرہ کر لیا، اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا، اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی، قزاقی، لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والوں کے لئے داہر ایک سایہ عافیت بن گیا۔ (تاریخ سندھ:۴۵۔۴۶)
خلاصئہ تحریر
حاصل یہ ہے کہ:
(۱) غزوۂ ہند کا واقعہ پیش آچکا ہے، مستقبل میں پیش آنے والا نہیں ہے۔
(۲) غزوہ ہند کی مہم انجام دینے والے سے مراد محمد بن قاسم کا حملہ ہے۔
(۳) محمد بن قاسم نے حملہ کرنے میں پہل نہیں کی تھی؛ بلکہ راجہ داہر کی طرف سے لوٹ مار اور عورتوں کو گرفتار کرنے کا جو واقعہ پیش آیا، اس کی وجہ سے حملہ کرنا پڑا۔
(۴) محمد بن قاسم کے ساتھ کئی ہندو سردار بھی شامل تھے، وہ صرف ۱۲؍ ہزار فوجیوں کے ساتھ آیا، مگر بہت کم عرصہ میں اس کی فوج پچاس ہزار ہوگئی، یہ سب بقیہ فوجی مقامی تھے، اور ان میں بڑی تعداد ہندوؤں کی تھی، اس نے تمام رعایا کو مذہب کی مکمل آزادی دی تھی۔
(۵) راجہ داہر نے اپنی سگی بہن سے شادی کر رکھی تھی اور وہ غیر برہمن کے ساتھ نہایت حقارت آمیز سلوک کرتا تھا؛ اسی لئے مقامی لوگ اس سے بد دل تھے اور وہ بہ آسانی محمد بن قاسم کے ساتھ آگئے، یہ بات غیر مسلم محققین نے بھی لکھی ہے۔
(۶) محمد بن قاسم کے حسن سلوک کی وجہ سے رعایا اس کی گرویدہ تھی، یہاں تک کہ انھوں نے اس کا مجسمہ بنا کر اس کی پوجا شروع کر دی تھی۔
٭ ٭ ٭