سیاسی و سماجی

تبلیغی جماعت پر یلغار ایک وسیع تر سازش!

دہلی کے جنوب میں راجپوت نومسلموں کی ایک قدیم آبادی تھی ، یہ میو کہلاتے تھے اور اسی مناسبت سے یہ علاقہ میوات کہلاتا تھا ، شجاعت و بہادری اور جنگ جو یا نہ صلاحیت متوار ثاً ان کے رگ و ریشہ میں سرایت تھی ، مسلمانوں کے عہد حکومت میں دارالسلطنت دہلی پر آئے دن ان کی طرف سے لوٹ مار ہوتی رہتی تھی اور حکومتوں کو گاہے گاہے ان کی سر کوبی کے لئے باضابطہ فوج کشی کرنی پڑتی تھی ، غالباً اسی وحشت و جہالت کی وجہ سے یہ ایک فراموش کردہ گروہ تھا ، جو ایمان اور کفر کے درمیان زندگی گذار رہا تھا ، عیدین ، محرم ، شب براء ت اگر ان کے مسلمان ہونے کی پہچان تھی ، تو دسہرہ ، دیوالی ، جنم اشٹمی اور ہولی بھی وہ کم جوش و خروش سے نہیں مناتے تھے ، وہ برہمن سے شادیوں کے لئے تاریخ لیتے اور برہمن اور قاضی دونوں کے اشتراک سے رسم نکاح انجام دیتے ، دھوتی مردوں کا عام لباس تھا اور مسجدیں ان کی آبادیوں میں خال خال ہوتی تھیں ، وہ بھی نماز یوں کے لئے مرثیہ خواں ۔
اللہ تعالیٰ نے اس طبقہ کی اصلاح کا ایک غیبی نظام پیدا فرمایا کہ بستی نظام الدین دہلی میں ( جو اس زمانہ میں گویا میوات کی سرحد تھی ) ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیلؒ قیام پذیر ہوئے، انھوں نے اس بھلائے اور ٹھکرائے ہوئے علاقہ کو اپنی کوششوں کی آماجگاہ بنایا اور انھوں نے یہاں ایک مکتب قائم کیا ، وہاں میوات سے دینی تعلیم کے لئے بچوں کو لانے لگے اور اس علاقہ میں آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا ، اس طرح میواتیوں میں محبت کی چنگاری جل اُٹھی ، انھوں نے سوچا کہ یہ کون ہے جو ٹھکرائے ہوؤں کو گلے لگاتا ہے ! اور اس طرح اس سرکش قوم کا ایک گروہ بارگاہ اسماعیلی میں سرخمیدہ ہونے لگا ، مولا نامحمد اسماعیل صاحبؒ کے بعد ان کے بڑے فرزند مولانا محمد صاحبؒ نے اس جگہ کو سنبھالا اور اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا ، محبت کی جو تخم بوئی گئی تھی ، اس کی جڑیں کچھ اور مضبوط ہوئیں ، مولانا محمد صاحب کی وفات کے بعد ایک ایسے شخص نے اس مسند کو سنبھالا، جو محبت کا سودا گر تھا ، جس کے رگ و ریشہ میں اُمت کا پیار سمایا ہوا تھا ، جس کا دلِ درد مند ہر لمحہ اُمت کے لے تڑپتا اور پھڑکتا رہتا تھا اور جس کی آنکھیں انسانیت کے غم میں شب و روز آنسوؤں سے وضو کیا کرتی تھیں ، جس کی زبان لکنت زدہ تھی ؛ لیکن اخلاص و ایمان کی حرارت اور درد دل کی گھلاوٹ کی وجہ سے وہ لوہے کو موم اور شعلہ کو شبنم بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی ، وہ شخصیت تھی مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلویؒ کی ، جو مولانا محمد اسماعیل کے صاحبزادے اور مولانا محمد کے برادرِ خورد تھے ۔
وہ اس وقت مظاہر علوم سہارن پور میں اچھے خاصے ، کامیاب اور مقبول مدرس تھے اورہر طرح کے بارِ غم سے آزاد ؛ لیکن خدا نے جس کو غم سہنے اور غم اٹھانے کے لئے پیدا کیا ہو وہ کیوں کر اس بوجھ سے آزاد رہ سکتا ہے ؟ میواتیوں کی فکر اور ان کی بے دینی کاغم مولانا کو سہارن پور سے میوات لایا ، اس وقت مولانا کے پاس سرمایۂ زندگی کچھ بھی نہ تھا ؛ البتہ اللہ پر توکل کی متاع گراں مایہ ساتھ تھی اور بار ہا ایسا بھی ہوتا تھا ، کہ آپ فاقہ مستی کی لذتوں سے اپنے آپ کو شاد کام فرماتے تھے ، میوات میں مدارس کے لئے مالی وسائل فراہم کرنا تو دور کی بات ہے ، لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے بھی روادار نہیں تھے ، ان حالات میں آپ نے گاؤں گاؤں قیام مکاتب کی تحریک چلائی اور بے شمار مکتب قائم فرمائے ؛ لیکن میوات میں جہالت و بد دینی کا جو طوفان تھا ، مکاتب کے یہ کمزور دیے ان کو روکنے میں چنداں مؤثر ثابت نہیں ہوئے اور مولانا کی بے قراری بڑھتی ہی گئی ، یہاں تک کہ جب ایک مکتب کا حافظ جذبۂ مسرت و افتخار کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اس کی داڑھی منڈی ہوئی ہے اور وضع ، قطع میں کہیں مسلمانیت کا کوئی رنگ نہیں ، تو آپ اور بے چین ہوگئے اور اس نے اُمت کے اسیرِ غم کو اور بھی گھلانا شروع کر دیا ۔
یہاں تک کہ شوال ۱۳۲۴ھ میں دوسری بار حج کے لئے روانہ ہوئے ، جب مدینہ سے واپسی کا وقت آیا تو مولانا پر ایک عجب اضطرابی کیفیت طاری تھی ، ایسی کہ جیسے ایک غلام نے طئے کر لیا ہو ، کہ اپنے آقا سے دامن مراد بھرے بغیر چوکھٹ چھوڑے گا نہیں ، یہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں دعوت و اصلاح کا وہ طریقہ ڈالا، جو آج تبلیغی تحریک کے نام سے معروف ہے، مولانا کو خواب میں رسول اللہاکی زیارت ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ ہم تم سے کام لیں گے ، تمہیں ہندوستان واپس جانا چاہئے ، ۲۹؍ ذیقعدہ ۱۳۴۸ھ کو جامع مسجد سہانپور میں مولانا نے اس سلسلہ کا پہلا خطاب فرمایا ، دعوت و تبلیغ کے کام کے لئے افراد کی تشکیل کی ، پھر ان ہی دِنوں میں دعوت کے اُصول مقرر فرمائے ، ابتداء میں آپ نے دعوت کے مضمون کو اتنی وسعت دی تھی کہ وہ ۶۰ تک پہنچ گئے ؛ لیکن ظاہرہے کہ مولانا جس طرح اُمت کے ہر طبقہ سے یہ کام لینا چاہتے تھے ، ان کے لئے احکام دین کی اتنی طویل فہرست کو سنبھالنا ممکن نہیں تھا ؛ اس لئے تجربہ سے مختصر کرتے ہوئے مولانا نے اس تحریک کو چھ نکات پر مرتکز فرمادیا ، ایمان ، اخلاص ، نماز ، ذکر ، علم اور اکرام مسلم ، یہ ایسی باتیں ہیں ، جن پر اُمت کے تمام طبقات کا اتفاق ہے اور جس سے کسی مسلمان کے لئے اختلاف کی گنجائش نہیں ، یہ گویا اُمت کے لئے کلمہ سواء کا درجہ رکھتا ہے ۔
قدرت نے انسان کو پانی فراہم کرنے کے دو ذرائع رکھے ہیں ، ایک کنواں اور دریا جہاں پیاسے خود پہنچتے ہیں ، دوسرے بادل جو پانی کی کشکول اُٹھائے ، در درکا چکر لگاتا ہے اورخود پیاسوں کو پانی پہنچاتا ہے ، مولانا چاہتے تھے کہ جیسے مدارس اور خانقاہیں ، علم و اصلاح کے سر چشمے اور سمندر ہیں ویسے ہی علم کا ایک بادل بھی اُٹھے اور وہ بے طلبوں تک دین کا آب حیات پہنچائے کہ انبیاء کے یہاں اشاعت دین کے یہ دونوں طریقے موجود تھے ، ایک طرف لوگ دار ارقم ( مکہ) اور صفہ (مدینہ) پہنچ کر انوار نبوت سے اپنے سینے معمور کرتے تھے ، تو دوسری طرف مکہ کی گلیوں ، طائف کے بازاروں اور عرب کے درو دراز قبیلوں تک خود آفتاب نبوت پہنچتا تھا ،اور جو لوگ نورِ حقیقت سے ناآشنا تھے ، ان میں اس کی طلب پیدا کرتا تھا ۔
مولانا کو اس بات پر پورا یقین تھا کہ دعوت الی اللہ کا جو نہج رسول اللہ ا نے اختیار کیا تھا ، وہی سادہ طریقہ مفید و کار آمد ہے ، اس لئے سادگی اور رسمیات سے آزاد ہو کر کام کرنے اوراللہ کے سامنے رونے دھونے ، گڑ گڑانے ، مانگنے اور تڑپنے ، التجا کا ہاتھ پھیلانے اور رات کی تنہائیوں کو نالۂ نیم شبی اور آہ سحرگاہی سے آباد رکھنے کے ذریعہ ہی اس کام کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے ؛ چنانچہ اسی طریقۂ و نہج پر مولانا نے اس تحریک کو شروع کیا اور زندگی کے آخری لمحہ تک اُمت کے غم میں گھلتے اور اس کو آگے بڑھانے کے لئے فکر مند رہے اور اسی کے برگ و بار بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ، ۲۱؍ رجب ۱۳۶۳ھ شنبہ کو ٹھیک اذان فجر کے وقت جب صبح صادق طلوع ہو رہا تھا ، اصلاح اُمت کی فکر میں اپنے سینہ کو جلانے والا یہ چراغ بجھ گیا اور تحریک کے بزرگوں کے مشورہ سے آپ کے فرزند ارجمند ، داعی الی اللہ مولانا محمد یوسف صاحب کو آپ کا جانشیں منتخب کیا گیا اور آپ کا عمامہ بزرگوں کے ہاتھوں مولانا یوسف صاحب کے زیب سر ہوا ۔
مولانا یوسف صاحب کو ابتداء ًکار دعوت سے کچھ زیادہ اشتغال نہیں تھا ؛ لیکن اپنے والد ماجد کی آخری زندگی میں اس طرف توجہ ہوئی ، پھر تو وہ اس تحریک کے لئے یوسف مصر بن کر درخشاں ہوئے اور ان کے روئے عالمتاب سے مشرق و مغرب تک اس تحریک کی روشنی پہنچی ، ۲۹؍ ذی قعدہ ۱۳۸۴ھ کو ایک دعوتی سفر کے دوران آپ کی وفات ہوئی ، مولانا کو اُمت کا درد اور ان کی فکر و الد ماجد سے بکمال و تمام میراث میں ملی تھی ، انھیں کم مدت ملی ؛ لیکن اس پوری مدت وہ ایک ’’ سکوں نا آشنا پارہ ‘‘ کی طرح تڑپتے اور میکدۂ عشق کے دیوانوں کو تڑپاتے رہے، اگر مولانا الیاس صاحب کو لکنت موسیٰ سے نسبت حاصل تھی تو مولانا محمد یوسف صاحب نے بلاغت ہارون سے حصہ پایا تھا اور ان کا خطاب دلوں کی دنیا کو زیر و زبر کر کے رکھ دیتا تھا ، مولانا نے اپنے آخری خطاب میں جو فکر انگیز باتیں فرمائی ، ان سے بالکل صرف نظر کر کے گذر جانا طبیعت کو گوارہ نہیں ، آپ نے فرمایا :
اُمت کسی ایک قوم اور ایک علاقہ کے رہنے والے کا نام نہیں ؛ بلکہ سینکڑوں ، ہزاروں قوموں اور علاقوں سے جڑکر اُمت بنتی ہے ، جو کوئی کسی ایک قوم یا ایک علاقہ کو اپنا سمجھتا ہے اور دوسروں کو غیر سمجھتا ہے ، وہ امت کو ذبح کرتا ہے اور ٹکرے ٹکرے کرتا ہے اور حضور ا اور صحابہؓ کی محنتوں پر پانی پھیرتا ہے ، اُمت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پہلے خود ہم نے ذبح کیا ، یہود و نصاری نے تو اس کے بعد کٹی کٹائی اُمت کو کاٹا ، اگر مسلمان اب بھی اُمت بن جائیں تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکیں گی ، ایٹم بم اور راکٹ ان کو ختم نہیں کر سکیں گے ؛ لیکن اگر وہ قومی اور علاقائی عصبیتوں کی وجہ سے باہم اُمت کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے رہے تو خدا کی قسم ! ہتھیار اور تمہاری فوجیں تم کو نہیں بچا سکیں گی ، صرف کلمہ اور تسبیح سے اُمت نہیں بنے گی ، اُمت میل ملاپ اور معاشرت کی اصلاح سے اورسب کا حق ادا کرنے اورسب کا اکرام کرنے سے بنے گی ؛ بلکہ جب بنے گی جب دوسروںکے لئے اپنا حق اپنا مفاد قربان کیا جائے گا ، حضور ا اورحضرت ابو بکر ص و عمر صنے اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنے اوپر تکلیفیں جھیل کے اس اُمت کو اُمت بنایا تھا ۔( سوانح مولانا انعام الحسنؒ : ۱ ؍ ۱۵۰)
غور کیجئے ! اور ان الفاظ میں جھانکئے کہ ان کے ہر بُن مو سے اُمت کی محبت کاکیسا جذبۂ بے پایاں ظاہر ہوتا ہے !
مولانا کی وفات کے بعد مولانا محمد انعام الحسن کاندھلویؒ اس تحریک کے تیسرے امیر منتخب ہوئے ، مولانا نہ صرف اس قافلہ کے اولین شرکاء میں تھے ؛ بلکہ وہ مولانا الیاس صاحب کے وقت سے ہی گویا اس تحریک کے دماغ تھے ؛ جنھوں نے مولانا عبید اللہ بلیاویؒ مولانا محمدعمرپالن پوریؒ اور دوسرے رفقاء کے ساتھ اس تحریک کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کے عہد میں یہ تحریک دنیا کی سب سے وسیع الاثر تحریک بن گئی اور اب شاید ہی کوئی ملک ہو، جو اس کے فیض سے محروم ہو ، ۱۰؍ محر ۱۴۱۶ھ کو مولانا کا انتقال ہو گیا اور اب تحریک نے اجتماعی قیادت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے تحریک کے تین آز مودہ کار شخصیتوں کو اس کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے منتخب کیا یہ تھے حضرت مولانا اظہار الحسن صاحبؒ،مولانا زبیر الحسن صاحبؒ اور مولانا سعد صاحب، اول الذکر دونوں بزرگوں کی وفات ہوگئی، اور اس قافلہ کے ایک رکن مولانا محمد سعد صاحب (اطال اللہ حیاتہ) رہ گئے، افسوس کہ اس کے بعد جماعت میں تقسیم کی صورت پیدا ہوگئی، ایک نظام امارت، جس کی باگ ڈور مولانا محمد سعد صاحب کے ہاتھ میں ہے، دوسرے: نظام شوریٰ، جس کی رہبری بزرگ عالم دین حضرت مولانا احمد دیولا صاحب اور مولانا احمد لاٹ صاحب کر رہے ہیں، شروع میں تو بڑی ناخوشگوار صورت حال رہی اور مجھ جیسے محبین کو بڑا قلق اور دکھ ہوا؛ لیکن آہستہ آہستہ یہ زخم مندمل ہو رہا ہے اور دونوں حلقے اپنے نظام کے ساتھ کام کر رہے ہیں، کام بھی ایک ہے اور مقصد بھی ایک، باہمی تلخیاں بھی قریب الختم ہیں۔
تبلیغی جماعت نے ہمیشہ سے اپنی یہ پالیسی رکھی ہے کہ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست سے دور رہتے ہوئے خالص مذہبی اُمور کی مسلمانوں کو دعوت دی جائے ، اللہ کے بندوں کو اللہ کے گھر تک لایا جائے ، ان میں خوفِ آخرت کے تحت عمل کا جذبہ اُبھارا جائے؛ اسی لئے اس جماعت کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں آسمان کے اوپر یا زمین کے نیچے کی باتیں ہوتی ہیں ؛ لیکن اب ہندوستان کی فرقہ پرست تنظیموں کو اس غیر سیاسی شور اورشورش سے دور ، خالص مذہبی جماعت میں بھی ملک دشمنی کی بو آنے لگی ہے ، مرکز نظام الدین میں ہمیشہ ملک کے چپہ چپہ سے اور دنیا کے مختلف علاقوں سے جماعتیں آتی رہتی ہیں، یہاں ان کا قیام ہوتا ہے، یہاں کے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں، اور پھر ان کو مختلف علاقوں میں رُخ دے دیا جاتا ہے، جماعتیں اُس رخ پر نکل جاتی ہیں اور وہاں کام کرتی ہیں، معزز وزیر اعظم صاحب کی طرف سے اچانک لوک ڈاؤن کا اعلان ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ جہاں تھے، وہ وہیں پھنس کر رہ گئے، مرکز نظام الدین میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد آئی ہوئی تھی، ظاہر ہے کہ ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ وہیں رکے رہیں، اگر گورنمنٹ نے لوک ڈاؤن کا اعلان ۴۸؍یا ۷۲؍ گھنٹے کی مہلت کے ساتھ کیا ہوتایامدھیہ پردیش میں اپنی سرکار بنانے کے لئے بی جے پی نے جو وقت خرچ کیا اور اِس اعلان کو ٹالا، اگر اس کے بجائے اس سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا ہوتا تو لوگوں کو موقع مل جاتا؛ کیوں کہ جماعت کا اصول ہے کہ شریعت کا حکم اور قانون کا دائرہ دونوں کی رعایت کرتے ہوئے کام کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا؛ لہٰذا مرکز کے لئے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ وہیں ان کو روک لیں؛ لیکن اس کو رائی سے پہاڑ بنا دیا گیا، اور بہت سی جھوٹی خبروں کی بنیاد پر میڈیا نے بھر پور آگ لگائی؛ حالاں کہ اب خود حکومت کے اہلکار اُن خبروں کی تردید کر رہے ہیں، مثلاََ یہ کہ جماعت والوں نے نان ویج کھانے کا مطالبہ کیا، یا وہ لوگ آئیسولیشن سینٹر میں جہاں نرسیں تھیں کھلے بدن گھومتے تھے، یا یہ الزام کہ جماعت کے لوگوں نے پولیس پر تھوک دیا، جو شخص جماعت کے مزاج سے واقف ہے، وہ بغیر کسی تحقیق کے ان خبروں کی تردید کر دے گا، اس کو کسی تحقیق کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی؛ لیکن پھر بعد میں خود پولیس نے ان واقعات کی تحقیق کی اور یہ سارے الزامات غلط نکلے، افسوس کہ ہمارے میڈیا میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرےاور اعلان کرے کہ ہم نے جو خبر نشر کی تھی، وہ غلط اور غیر مصدقہ تھی، اور اس کے لئے جماعت سے معافی مانگے، غرض اس صورت حال میں جماعت کا نام لے کر مسلمانوں پر اور اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نہ معلوم ان حقیقت ناشناس اور سچائی سے عداوت رکھنے والے صحافیوں کے تیغ قلم سے کتنی سچائیوں کا خون ہوگا اور اس خون ناحق سے جھوٹ اور نفرت کی کھیتی بار آور کی جائے گی۔
یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جس کا مقصد ایک ایسی تحریک کو نقصان پہنچانا ہے، جو پر رونق شہروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے قریوں ، دیہاتوں اور کم آباد صحراؤں اور جنگلوں تک دین کو پہنچانے اور مسلمانوں میںاپنی مذہبی شناخت پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے اور آج اس کا نفع ایک ایسی حقیقت ہے، جسے ہر جگہ سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے ، میں دین کے تمام کاموں کی دل سے قدر کرتا ہوں اور مختلف تنظیموں اور تحریکوں کے کاموں کو اختلافِ کار کے بجائے تقسیم کار خیال کرتا ہوں ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دعوت و تبلیغ کی یہ تحریک جتنی دور رس اثر کی حامل ہے اور جتنی انقلاب خیز اور اثر انگیز اورطریقہ کار کے اعتبار سے سادہ اور آسان ہے اور جس طرح قدم قدم پر خدا سے لو لگانے کا عادی بتاتی ہے ، وہ ایک نمونہ ہے ، ایسا نہ ہوکہ اعداء اسلام کو مسلمانوں کے باہمی اختلاف؛ بلکہ غلط فہمیوں سے فائدہ اُٹھا کر اُمت کے اچھے کاموں کو نقصان پہنچانے کا موقع ملے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے ، کہ مسلمانوں کا ایک گروہ بارانِ حق کا امین اور سحابِ رحمت بن کر بے طلبوں تک پہنچے اور ان میں طلب اور پیاس پیدا کرے اور یہ تحریک عملاً اس وقت اس کام کو انجام دے رہی ہے ۔

۰ ۰ ۰

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×