سیاسی و سماجی

کورونا وائرس کی مصیبت اور خود احتسابی کی ضرورت! (۱)

بعض کتابوں میں ایک تمثیلی حکایت ذکر کی گئی ہے کہ ایک جانور جنگل کے بادشاہ شیر کی بہت خدمت کیا کرتا تھا، اس کو کچھ عرصہ کے لئے دوسری جگہ جانے کی ضرورت پیش آئی، اس کا ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا، اس نے شیر سے گزارش کہ کہ میں اپنا بچہ آپ کے حوالہ کر کے جاتا ہوں، آپ اس کو اپنی حفاظت میں رکھیں ، آنے کے بعد واپس لے لوں گا، شیر نے قبول کر لیا اور اپنی دانست میں اس کی حفاظت کا خوب انتظام کیا، یہاں تک کہ ہمیشہ اس کو اپنی پشت پر سوار کر کے رکھتا؛ تاکہ کوئی جنگلی جانور اس کو کھا نہ جائے؛ لیکن ایک دن ایسا ہو اکہ اوپر سے چیل آئی اور اس نے اسے اُچک لیا، شیر نے دیکھا کہ اب اس کو واپس لینا اس کے بس میں نہیں ہے؛ اس لئے خاموش ہو گیا، کچھ دنوں بعد جب بچے کی ماں آئی اور اس نے شیر سے اپنا بچہ مانگا تو شیر نے کہا کہ میں نے اس کی بڑی حفاظت کی؛ لیکن چیل آئی اور وہ اس کو لے اُڑی، پرندہ نے احتجاج کیا کہ تم جنگل کے بادشاہ ہو پھر بھی تم اس بچے کی حفاظت نہیں کر سکے، شیر نے کہا کہ اگر نیچے سے کوئی مصیبت آتی تو میں اس کی حفاظت کرتا تھا؛ لیکن اوپر سے یہ مصیبت آئی؛ اس لئے میں اس کی حفاظت کرنے اور اس کے بچانے پر قادر نہیں ہوا۔
یہ ایک تمثیلی حکایت ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخلوق کی طرف سے جو مصیبت آتی ہے، انسان اس مصیبت کو روک سکتا ہے اپنی تدبیر کے ذریعہ، اپنی طاقت کے ذریعہ، اپنی صلاحیت کے ذریعہ اور اپنی چوکسی کے ذریعہ؛ لیکن جو آفت اللہ کی طرف سے آتی ہے، جو آزمائش اس کائنات کے خالق ومالک کی طرف سے مقدر کی جاتی ہے، اس کو کوئی مخلوق روک نہیں سکتی، اس وقت پوری دنیا میں کرونا وائرس کی وجہ سے جو کہرام برپا ہے، ہم لوگوں نے ۶۰؍ سال سے زیادہ کی اپنی زندگی میں کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا، جو ملک اپنی صلاحیت اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، دنیا کے کسی کونے میں جائیے، ضرور آپ کو وہاں اس کی مصنوعات ملیں گی، یعنی چین، جہاں سے یہ مصیبت شروع ہوئی اور کس پریشانی سے چین کو گزرنا پڑا یہ ہم سب کو معلوم ہے، اس نے اپنا قدم ایک ایسے ملک کی طرف بڑھایا، جو طبی سہولتوں کے اعتبار سے دنیا میں ایک مثال مانا جاتا ہے، دنیا بھر سے لوگ وہاں بیماری کے علاج کے لئے پہنچتے ہیں، یعنی اٹلی، آپ دیکھئے کہ وہاں کس تیز رفتاری کے ساتھ انسانی ہلاکت کے واقعات پیش آرہے ہیںکہ وہاں کا وزیر اعظم اس کیفیت پر روئے بغیر نہ رہ سکا، دنیا کی سپر طاقت جو اپنے آپ کو حکمراں نہیں؛ بلکہ خدا تصور کرتی ہے، اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر جگہ جس کا سکہ چلتا ہے، یعنی امریکہ، وہ اس وقت اس بیماری کے سامنے بے بس ہے اور روزانہ سینکڑوں لاشیں اُٹھ رہی ہیں، اگر ٹکنالوجی کے ذریعہ، فوجی طاقت کے ذریعہ، علم اور عقل کے ذریعہ اور اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ اس آفت کا مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ممالک ان میں گرفتار نہ ہوتے، انھوں نے آنے سے پہلے اس کو روک دیا ہوتا؛ لیکن بات وہی ہے کہ جو مصیبت اوپر سے آتی ہے، اس مصیبت کو روکنا انسان کے بس سے باہر ہے۔
اس وقت کرونا کے سلسلہ میں ہمارا پورا ملک لاک ڈاؤن ہے، اور یہ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے، دنیا کے کتنے ہی ممالک ہیں، جہاں زندگی پوری طرح تھم چکی ہے، لوگوں میں بھی اتنا خوف بیٹھ گیا ہے کہ لوگ اپنے رشتہ داروں سے بھی ملاقات کرنے اور کسی مہمان کا استقبال کرنے سے کتراتے ہیں؛ حالاں کہ بیماری کا ایک امکان ہے؛ لیکن خوف اس قدر ذہنوں میں چھایا ہوا ہے کہ ہر آدمی دوسرے کو بیمار سمجھ کر اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ اپنی طاقت کا اظہار اتنی معمولی چیزوں کے ذریعہ فرماتے ہیں ، جن کا انسان تصور بھی نہیں کرتا، ہم سورۂ فیل کا مطالعہ کریں، جب ابرہہ نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور کعبۃ اللہ کو زمیں بوس کر دینا چاہا تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی حفاظت کے لئے یہ بھی کر سکتے تھے کہ اہل مکہ کو ہمت دے دیتے، وہ مقابلہ کرتے، یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پورے جزیرۃ العرب سے کعبۃ اللہ کااکرام کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو جاتے، اور ابرہہ سے مقابلہ کر لیا جاتا؛ لیکن ایسا نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے کوئی بڑا جانور نہیں، ہاتھی نہیں، اونٹ نہیں، گھوڑا نہیں بالکل چھوٹے سے پرندے کو اور کوئی بڑا ہتھیار لے کر نہیں، چھوٹی چھوٹی کنکریاں، جن کو انھوں نے اپنے پنجوں میں لے رکھا تھا، کوایک طاقت ور فوج کا مقابلہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور قرآن نے خود کہا کہ صورت حال یہ ہوگئی کہ وہ بالکل بھونسوں کی طرح ہوگئے، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت تھی کہ ایسی چیز اللہ تعالیٰ نے بھیجی جو بظاہر بڑی چھوٹی اور معمولی سی تھی اور اس کے ذریعہ اس وقت جو سب سے زیادہ طاقتور اور مغرور شخص تھا، اور جس کے پاس ہاتھیوں کی زبردست فوج تھی، جس سے عرب کا معاشرہ نا آشنا تھا، اللہ نے ان کا نام ونشان مٹا دیا، توآج اتنا چھوٹا سا وائرس جو انسان اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ بھی نہیں سکتا، اس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کو مزہ چکھانے کا ذریعہ بنایا ہے، لوگ اس کو مادی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں؛ لیکن بحیثیت ایک مسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس مسئلہ کا دینی نقطۂ نظر سے جائزہ لیں اور اپنے آپ کا محاسبہ کریں۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اس زمین پر جو فساد رونما ہوتا ہے، جو مصیبتیں آتی ہیں، انسان کو جن امتحانات میں مبتلا کیا جاتا ہے، یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے، یہ اللہ کی طرف سے پیش آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بے رحم نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو تکلیف میں مبتلاء کرے؛ بلکہ انسان کے عمل اور اس کے کرتوت کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ایسے حالات بنائے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس ( نوح: ۴۱) یعنی خشکی اور تری کا فساد لوگوں کی شامت ِاعمال کی وجہ سے ہے، اور اس فساد کا مقصد یہ ہے کہ انسان نے جو برائیاں کی ہیں، ساری برائیوں کی سزا تو یہاں نہیں آخرت میں ہے؛ لیکن کچھ برائیوں کی سزا ان کو یہاں دی جائے، اور اس کا مقصد انسان کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے؛ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، ان میں اللہ کی طرف لوٹنے کا جذبہ پیدا ہو، یہ ان کے لئے تنبیہ ہے، اسی طرح ایک دوسرے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (شوریٰ: ۳۰) تم کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے، یہ تمہارے ہی کئے ہوئے کاموں کا بدلہ ہے، یہ اصول بتایا گیا ہے ، ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ مصیبت عذاب اور تکلیف کے طور پر آئے، کبھی امتحان وآزمائش کے لئے بھی آتی ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ کا عمومی نظام یہ ہے کہ انسان کی شامت ِ اعمال کی وجہ سے، انسان کی بدکاریوں کی وجہ سے، اللہ کے احکام کو پامال کرنے کی وجہ سے، پیغمبروں اور رسولوں کی طرف سے زندگی گزارنے کا جو طریقہ ان کے لئے آیا ہے، ان کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے، اور آسمانی کتابوں کی جو ہدایات ہیں، ان کو فراموش کر دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ ہوتی ہے؛ اس لئے اس وقت ہم جس صورت حال سے گزر رہے ہیں، اس میں بھی ضرورت ہے خود احتسابی کی، ہم قرآن وحدیث کی روشنی میںغور کریں کہ آخر ہماری کیا کوتاہی ہے، کیا بد اعمالیاں ہیں، کیا گناہ ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس وقت ہماری پکڑ فرمائی ہے، اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عمومی گرفت ہوتی ہے تو اس وقت جو برائی کا ارتکاب کرنے والے لوگ ہوں ، اللہ کی پکڑ ان تک محدود نہیں رہتی؛ بلکہ پورا سماج اور پورا معاشرہ اس کی گرفت میں آجاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذا ظھر السوء في الأرض أنزل اللہ بأسہ بأھل الأرض (طبرانی، حدیث نمبر: ۲۰۷۹) کہ جب زمین پر برائیاں زیادہ ہوتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ انسانوں کی پکڑ کرتے ہیں تو اگر ان میں نیک لوگ بھی ہوں تو وہ بھی اس مصیبت میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں؛ اس لئے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ رب کریم جس کی محبت ۷۰؍ ماؤں کی محبت سے بڑھ کر ہے، جس کی رحمت سے بڑھ کر رحمت کا تصور نہیں کیا جا سکتا، جس کی صفت رحیم ہے رحمن ہے، آخر اس نے آج پوری انسانیت کو اس مصیبت سے کیوں دو چار کیا ہے؟
گناہ یوں تو بہت ہیں اور ہر گناہ اس لائق ہے کہ انسان اس سے اپنے آپ کو بچائے، اپنے آقا ومالک کی چھوٹی سی حکم عدولی بھی کچھ کم بری بات نہیں ہوتی؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہ ایسے ہیں، جن کی وجہ سے اجتماعی مصیبت نازل ہوتی ہے، ان میں سے ایک ہے بے حیائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی قوم میں بے حیائی پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ علی الاعلان بے حیائی کے کام کو کرنے لگتی ہے تو اس قوم میں پلیگ کی بیماری اور ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن کو ان کے آباواجداد نے کبھی سنا بھی نہیں ہوگا: لم تکن مضت في أسلافھم الذین مضوا (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۴۰۱۹) غرض بے حیائی اور فحاشی یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا اور اس کے غضب کے بھڑکنے کا ایک اہم سبب ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز میں بھی بے حیائی شامل ہو جائے وہ اس کو خراب کر دیتی ہے، عمل میں بے حیائی ہو، گفتگو میں بے حیائی ہو(ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۷۴) اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن بے حیاء نہیں ہو سکتا، وہ ایسا کام نہیں کر سکتاجو بے حیائی کا ہو، یہ اس کی شان کے خلاف ہے، وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتا جو حیاء کے تقاضے کے خلاف ہو (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۷۷)
اگر ہم اپنے موجودہ معاشرہ کو دیکھیں تو جن برائیوں کی آج کثرت ہو رہی ہے، ان میں ایک بے حیائی بھی ہے، اور دن بدن اس میں عموم ہوتا جا رہا ہے، پہلے فلمیں بنا کرتی تھیں اور اس میں مردوعورت کے عشق کے مناظر پیش کئے جاتے تھے، مکالمے پیش کئے جاتے تھے اور اشارہ وکنایہ کی زبان استعمال کی جاتی تھی، اسی کو بڑی بے حیائی سمجھا جاتا تھا، جو معاشرے کے ثقہ اور متدین لوگ ہوتے تھے، وہ اس کو دیکھنا پسند نہیں کرتے، یہاں تک کہ غیر مسلم معاشرے میں بھی بڑا اپنے چھوٹے کے ساتھ اور چھوٹا اپنے بڑوں کے ساتھ فلمیں دیکھنے سے گریز کرتا تھا؛ لیکن آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ یہ فلمیں بہت پیچھے چلی گئیں اور فلم کے پردوں پر انسان کو بے لباس بھی دکھایا جاتا ہے، ڈانس کے ایسے پروگرام بھی کئے جاتے ہیں، جس میں بنت حواء کو اس طرح رقص کرایا جاتا ہے کہ اس کے جسم پر ایک تارِ لباس بھی نہیں ہوتا، حُسن کے مقابلے ہوتے ہیں، ہر شعبۂ زندگی میں بے حیائی داخل ہوگئی، بعض ملازمتوں کے لئے جیسے: فوج میں شامل ہونے کے لئے، پائیلٹ بننے کے لئے کوئی لڑکی آگے بڑھے تو میڈیکل ٹسٹ کے نام پر اس کو پوری طرح بے لباس کر دیا جاتا ہے، اور مرد حضرات اس کے ایک ایک عضو کا جائزہ لے کر پھر اس کے بارے میں اپنی رائے لکھتے ہیں، شعراء بہت ہی لطیف طریقے پر اپنے جذبات کا اظہار کیا کرتے تھے، بہت ہی کنایہ اور پردے کے الفاظ میں اپنے محبوب کی تعریف کیا کرتے تھے، اگرچہ یہ بھی اسلام کی نظر میں کوئی بہتر بات نہیں ہے؛ لیکن اب ہم اس دور کی شاعری دیکھیں، گانوں اور غزلوں میں محبوب کے اس حُسن کو بے پردہ کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے مزاح کی ایک لطیف حِس رکھی ہے ، اور مزاح کوئی بری بات نہیں ہے، اگر مناسب حدوں میں ہو؛ لیکن آج آپ دیکھیں گے کہ لطائف کے نام پر کتنے فحش مذاق کئے جاتے ہیں، اور کچھ مخلوط پروگراموں میں بھی نہایت بے حیائی پر مبنی لطائف بیان کئے جاتے ہیں، اور اس کو آرٹ سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ پڑوسی ملک میں بعض خواتین تنظیموں کی طرف سے ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگ رہا ہے۔
اگر آپ کہیں کسی دفتر میں جائیں تو استقبال کے لئے کوئی لڑکی ہوگی اور وہ بھی ناکافی اور چست لباس میں، اگر لڑکا ہو تو اس کا یونیفارم شاید ساتر ہو؛ لیکن اگر لڑکی ہو تو اس کا یونیفارم نیم برہنہ ہوتا ہے، ائیرلائنس میں خدمت کے لئے جو لوگ رکھے جاتے ہیں، وہاں کی صورت حال آپ دیکھئے، وہاں بھی یہی صورت حال ہے، جو مرد ہیں ان کا پورا جسم چھپا ہوا ہے، جو عورتیں ہیں ان کے جسم پر اتنا مختصر اور چست لباس کہ گویا ان کو لباس میسر نہ ہو، یہ بے حیائی کے مناظر ہیں، جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں شامل ہیں، اور اس کا نتیجہ ہے کہ آنکھوں کی حیاء ختم ہو گئی، جس چیز کے تذکرے کو، جن اشعار کے پڑھنے کو اور جن تصویروں کے دیکھنے کو لوگ عار کی چیز سمجھتے تھے، اور کبھی اپنے بے تکلف دوستوں کے ساتھ دیکھا تو اس کو چھپاتے تھے، آج لوگ اس کو چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اس بے حیائی کا اثر یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں اور خود ہمارے مسلم معاشرہ میں بد کاری کے واقعات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ حرمت کے رشتوں کی حرمت بھی پامال ہوگئی، باپ بیٹی ، ماں بیٹے ، سسر بہو، ساس داماد اور بھائی بہن جو حرام رشتے ہیں، جن کے درمیان اللہ تعالیٰ نے حرمت کی دیوار رکھی ہے، اور کسی سلیم الفطرت انسان اس کا تصور نہیں کر سکتا کہ وہ ان رشتہ داروں کے ساتھ کوئی جنسی تعلق ہو؛ لیکن آج یہ سب واقعات ہمارے معاشرہ میں پیش آرہے ہیں، یہ جو بے حیائی اور فحاشی کی کثرت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ عام ہو جائے اور لوگ بے حیائی علی الاعلان کرنے لگیں تو پھر اللہ کا عذاب آتا ہے، یہ تو ہم نے ہندوستان اور مسلم معاشرے کے پس منظر میں بات کہی ہے، اگر آپ تھوڑا سا مشرق اور مغرب کی طرف بڑھ جائیں، یورپ چلے جائیں امریکا چلے جائیں یا مشرق کی طرف جاپان یا کوریا وغیرہ چلے جائیں تو وہاں تو بے حیائی اور بے شرمی کو کئی عدد سے ضرب دینا پڑے گا، جو بہت ہی معمولی لباس یا بے لباس سمندروں کے ساحل پر سورج کی روشنی میں اپنے جسم کی نمائش کرتے ہیں ، یہ صورت حال ایسی ہیں کہ شاید آج سے پچاس سال پہلے لوگوں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔
اس پس منظر میں سخت ضرورت ہے کہ ہم اس بے حیائی اور فحاشی کو روکنے کی کوشش کریں اور اس کی ابتداء اپنے گھر سے کریں، شریعت کے حکم کے مطابق پردے کو رواج دیں، غیر محرموں سے اختلاط کو روکیں، حتی الامکان مخلوط تعلیم کے نظام سے اپنے آپ کو بچائیں، مسلم انتظامیہ کے اسکولوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے تعلیم کا الگ الگ انتظام ہو، یہی چیزیں ہیں جو انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہیں، ہمیں اس بے حیائی کے سیلاب پر بند باندھنا چاہئے؛ تاکہ اللہ کی رحمت ہم پر متوجہ ہواور اللہ کی پکڑ سے ہم بچ سکیں، شاید اللہ ہم پر رحم کھائے اور اس مصیبت سے ہمیں نجات دے۔(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×