احوال وطن

مفتی منظور احمد مظاہریؒ حق گوئی و بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے: مولانا متین الحق اُسامہ

کانپور:7؍نومبر (پریس ریلیز) مسجد عیدگاہ کالونی کانپور میں رجسٹرڈ قاضی شہر کانپورحضرت الحاج مولانا مفتی منظور احمد صاحب مظاہری ؒ کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی جلسہ منعقد ہوا۔ جلسہ کا آغاز جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کے استاذ قاری صلاح الدین صاحب کفلیتوی نے تلا وت قرآن پاک سے کیا۔ مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی صدرجمعیۃ علماء اتر پردیش نے اس موقع پر سخت رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے ملک عزیز کی ایک بڑی علمی ،ملی شخصیت ہزاروں علماء کے استاد حضرت مولامفتی منظور احمد صاحب مظاہری ہمارے درمیان نہیں رہے۔ حضرت والاؒ کی حق بات کہنے کی جرأت کا ہر کوئی قائل تھا۔ حضرت کا علم بہت مضبوط اور گہرا تھا۔ مولانا اسامہ نے اس موقع پر افسران کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا میٹنگوں میں سب افسران کی باتیں خاموشی کے ساتھ سنتے رہتے تھے ، کئی مرتبہ وہ مختلف انداز سے گھمانے کی بھی کوشش کرتے تو حضرت مولانا ؒسب کے سامنے ہی پوری بے باکی کے ساتھ حق بات کہہ دیتے تھے۔ پوری زندگی کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئے۔ حضرت ؒ ملک کے دو بڑے اور معتبر اداروں میں مجلس شوریٰ کے رکن تھے ، شروع سے ہی حضرت کی بات بہت سنجیدگی کے ساتھ سنی جاتی تھی اور عمل بھی ہوتا تھا۔ 1992کے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے کہا حضرت نے ہمیشہ شہر کے امن وامان کو قائم رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا جس کا کوئی جوڑ نہیں۔ بیشک ہم حضرت ؒ کے برابر تو کام نہیں کر سکتے لیکن اللہ کی توفیق سے ہم اپنے تمام بڑوں کی دعاؤں کو لیتے ہوئے نائب قاضی حافظ معمور احمد صاحب اور تمام علماء کو جوڑتے ہوئے دین کے تحفظ جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اسکے لئے ہر کوشش کرتے رہیں گے۔
زبیر احمد فاروقی نے کہا کہ حضرت مفتی صاحبؒ نے سنگین حالات میں بھی شہر کانپور کے عوام کواکیلا نہیں چھوڑا۔ سن1992کے فسادات کے موقع پر شہر کے لوگوں کیلئے جو محنتیں کیں وہ میں نے بہت قریب سے دیکھاہے۔ ہمیں ان کے دینی اور علمی خدمات سے تو استفادہ کرنا ہی ہے لیکن جس طرح سے انہوں نے شہر میں امن وایکتا کو قائم رکھنے کیلئے بلا تفریق سب کیلئے کام کیا ہمیں اس کو سامنے رکھنا چاہئے۔جیسے ہم اپنے والدین کیلئے دعائیں کرتے ہیں ، ہمیں حضرتؒ کیلئے بھی دعاء کرنا ہے۔
مرکزی عیدگاہ کے متولی الحاج فخر عالم صاحب نے اپنی بات ایک شعر سے شروع کیا کہ’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ، بڑی مشکل سے ہوتا چمن میں دیدہ ور پیدا۔ حضرت مفتی صاحب ؒ دونوں جگہ دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور میں بے باک مشورہ دیتے تھے ، آپ میدان کارساز میں برابر نظر آتے تھے ۔ عیدگاہ کے سابق امام قاری محمد الٰہی صاحب سے بہت پکی دوستی تھی۔ آپؒ نے کبھی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔ اتحاد امت کے لئے کسی بات کو اپنی ناک کا مسئلہ نہیں بنایا۔ جلوس محمدی ؐ میں خود شریک نہیں ہوتے تھے لیکن دوسروں کو شریک ہونے کیلئے کہا کرتے تھے اور کسی کو روکتے نہیں تھے۔ انہو ںنے بتایا کہ حضرت مفتی صاحبؒ نے اپنی زندگی میں ہی مولانا اسامہ قاسمی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا ہم لوگ ان کے اس فیصلہ پر تائید کرتے ہیں اور اب ہر طرح سے بحیثیت قاضی شہر مولانا اسامہ قاسمی کے ساتھ ہیں۔ اللہ مولانا اسامہ کو ہمت اور استقلال سے کام کرنے کی توفیق دے۔ مفتی صاحبؒ عیدگاہ کمیٹی میں برابر سرپرستی فرماتے رہے اور مسجد بساطخانہ اور عیدگاہ کی کمیٹی کی طرف سے ہم تعزیت پیش کرتے ہی۔
ڈاکٹر محمود رحمانی نے سب سے پہلے تعزیتی جلسہ منعقد کرنے کیلئے مولاا سامہ قاسمی کا شکریہ اداکرتے ہوئے ، مفتی منظور احمد صاحب مظاہریؒ کے ساتھ گجرات فسادات میں کام کرنے کا ذکر کیاجس میں16دن گجرات میں رہ کرمولانا ؒ کے ذریعہ کئے گئے کاموں سے متاثر ہو کر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ جو آج ملک کے وزیر اعظم ہیں نے خود مولانا ؒ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور مولانا ؒ کی قیادت میں وفد ان سے ملاقات کیلئے گیا تھا جس میں حضرت نے انتہائی بے باکی کے ساتھ اپنی بات رکھی ، جس کااثر یہ ہوا کہ دو دن کے اندر ہی وہاں کے حالات نارمل ہونا شروع ہو گئے تھے ۔یہ ان کا ملی جذبہ تھا ، حضرتؒ محض کانپور کے ہی نہیں بلکہ پورے عالم کے مسلمانوں کا درد اپنے دل میں رکھتے تھے ۔ آج ہم لوگ جس مسجد میں بیٹھ کر یہ جلسہ کر رہے ہیں اس مسجد کی سنگ بنیاد بھی حضرت ؒ نے ہی رکھی تھی۔
قاضی نور السلام نے کہا کہ اللہ ہمیں مفتی صاحبؒ کے نقش قد م پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، ہمارے حضرت ؒ نے مولانا اسامہ قاسمی کو اپنا جانشین بناکر قوم کو یتیم نہیں چھوڑا۔
مختار عظیم عرف اچھے بھائی نے مفتی صاحب کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا اظہار کرتے کہا جب مجھ سے آخرت میں پوچھا جائے گا کہ کیا آخرت کیلئے کیا سامان لائے ہوئے تو نماز روزہ اور دیگر عبادتوں کے ساتھ میرا یہی جواب ہوگا کہ میں نے اپنی زندگی علماء کی صحبت میں گزاری ہے۔
مفتی عبد الرشید قاسمی نے کہا کہ اگر کسی کا اخلاق دیکھنا ہوتو اس کے ساتھ سفر کرو ، مجھے حضرتؒ کے ساتھ کئی مرتبہ سفر کرنے کا موقع ملا ، حضر ت ؒ مجھے خوب نصیحتیں کرتے اور بڑی سے بڑی پریشانی کے عالم میں بھی آپؒ کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔
مفتی اقبال احمد قاسمی نے کہا کہ حضرت ؒ جن صلاحیتوں کے مالک تھے وہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ آپؒ نے مولانا اسامہ کو قاضی بنایا اور ان کا نائب حافظ معمور کو بنایا اب ہم لوگوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی ہے۔ اب ہم مولانا اسامہ سے کہیں گے حضرت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مقالات لکھوا کر ایک اچھا پروگرام کریں۔ شہر قاضی مولانا اسامہ نے اس تجویز کو قبول فرمایا۔
چودھری ضیاء الاسلام نے کہا ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں ، مجھے بھی کئی مرتبہ حضرؒ کے ساتھ سفر کا موقع ملا۔ حضرت ایک عالم، مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی نظر بھی رکھتے اور حکمت عملی سے کام کرتے تھے۔ انہوں نے حضرتؒ کی حیات وخدمات پر باقاعدہ ایک کتاب لکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے اس میں اپنا پورا تعاون دینے کی بات کہی۔
مولانا محمد اکرم جامعی نے کہا کہ زندگی ، موت ، صحت ، تندرستی سب اللہ ک نعمت ہیں۔حضرت مفتی صاحب ؒ بے باک اور حق گو تھے، صحیح معنوں میںحضرتؒ حنفی مسلک کے ترجمان تھے۔ انہوں نے موجود تمام لوگوں سے کہا کہ حضرتؒ نے خود اپنے ہاتھ سے مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کو اپنا جانشین اور قائم مقام قاضی شہر نامزد کیا جس کا مرچنٹ چمبر ہال میں شہر کے سیکڑوں علماء ، ائمہ مساجد اور دانشوران شہرکے سامنے خود اپنی زندگی میں ہی اعلان فرمادیا۔آج بھی اس کاغذ کی کاپی ہمارے پاس موجود ہے ۔ حضرت کی زندگی کا یہ بہت بڑا قدم تھا ۔
اس کے علاوہ نواب انوار الحق، پنڈت ہیرلال چوبے، مولانا سید مختار احسن جامعی، مولانا محمد اکرم جامعی ، حضرت مفتی صاحبؒ کے چھوٹے بیٹے مولانا منصوراحمد، ڈاکٹر حلیم اللہ خاں ، مولانا محمد انیس خاں قاسمی، مولانا محمد انعام اللہ قاسمی ، محمود عالم قریشی نے حضرت والا ؒسے اپنے تعلقات کی بنا پر تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر متولی بڑی عیدگاہ ماہ عالم ظفر، ڈاکٹر آر اے صدیقی، مفتی صاحب کے بیٹے قاری معمور احمد جامعی وحافظ مسرور احمد، مولانا محمد شفیع مظاہری ، حاجی فرحت حسین ، ڈاکٹر حبیب الرحمن ، حافظ محمد احمد متولی مسجد مچھلی بازار، مفتی سید محمد عثمان قاسمی ، قاری محمد انیس خاں،حافظ محمد ریحان، شارق نواب،مولانا آفتاب عالم قاسمی، مولانا انصار احمد جامعی،مولانا فرید الدین قاسمی، قاری عبد المعید چودھری، مفتی اظہار مکرم قاسمی، مولانا محمد سہیل قاسمی، مولانا محمد کاشف جامعی سمیت سینکڑوں علماء ، ائمہ اور دانشوران موجود رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×