سیاسی و سماجی

22‘ جنوری، سپریم کورٹ اور عوامی تحریک

22 ؍جنوری کا ہندوستان کو انتظار ہے۔ سپریم کورٹ اس دن کیا کہتا ہے، لوگ کان لگائے بیٹھے ہیں۔حالانکہ ملک میں پہلی بار عدالتِ عظمیٰ کا وقار واعتبار اتنا گرا ہے کہ اب اس کا فیصلہ تسلیم کرنے کا رجحان کمزور ہوگیا ہے۔اس کے باوجود سی اے اے کے سلسلے میں 22/جنوری کو سپریم کورٹ کا جو ردعمل ہوگا، اس سے عوامی تحریک کا اگلا رخ طے ہوگا۔ ذرا تصور کیجیے سی اے اے پر سپریم کورٹ کیا کیا کہہ سکتا ہے؟ میرے خیال میں چار امکانات ہیں : (1) سپریم کورٹ سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے کر رد کردے گا۔یا(2)سی اے اے کو جائز ٹھہرائے گا۔یا (3)سی اے اے کو کچھ ترمیم کے ساتھ مشروط کرکے ہری جھنڈی دکھادے گا۔یا(4) اس مسئلے کی سنوائی اگلی تاریخ تک ملتوی کردے گا۔ مجھے آخر الذکر تین امکانات پر تحریک کے سرد پڑنے کا خدشہ نہیں ہے، لیکن پہلا امکان میرے لیے بہت تشویش ناک ہے۔ پہلا امکان یعنی کہ اگر سپریم کورٹ نے سی اے اے کو خلافِ دستور قرار دے دیا تو سڑکوں پر نکلے ہوئے لاکھوں ماں، بہنیں، طلبہ و طالبات اور عوام الناس چین کا سانس لیں گے اور فتح و کامرانی کا جشن مناکر چٹائی سمیٹے ہوئے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی تحریک صرف سی اے اے کے خلاف ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر این پی آر کا کیا ہوگا؟ کیا این پی آر کا مسئلہ این آر سی کے برابر سنگین نہیں ہے؟ ادھر بہار سرکار  نے اعلامیہ جاری کردیا ہے کہ 15/ مئی تا 28/ جون 2020 این پی آر مکمل کرلیا جائے گا۔ نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا۔ لیکن دوسری طرف نتیش سرکار این پی آر کرانے جارہی ہے۔ کیا این پی آر خطرناک نہیں؟ کچھ معصوم لوگ این پی آر اور مردم شماری کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، جب کہ یہ دو الگ الگ دستاویز ہیں۔ این پی آر واضح طور پر این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے۔ این پی آر میں ایک کالم ہے مشکوک شہری کا۔ مقامی رجسٹرار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی مشکوک شہری قرار دے۔ این پی آر میں والدین کی تاریخ پیدائش اور ان کی جائے پیدائش کے سوالات بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ این پی آر کی تحریک کس طرح جاری رہے گی؟ اور اسے کامیاب کس طرح بنایا جائے گا؟
آخر میں اصل بات یہ کہنی ہے کہ اس عوامی تحریک کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا محض سی اے اے/این آر سی/این پی آر کا خاتمہ؟ یا پھر صحیح معنوں میں دستورِ ہند کا تحفظ؟
اگر اس تحریک کا مقصد صرف اول الذکر قوانین کو کالعدم کرنا ہے تو پھر یہ تحریک وقتی اور عارضی ہوگی۔ لیکن اگر اس کا مشن آئین اور ملک کی سلامتی ہے تو اس تحریک کو طویل مدتی، منصوبہ بند اور منظم کرنا ہوگا۔ سچ یہ کہ اصل مسئلہ ہندو راشٹر، ہندوتو، برہمن واد اور منوواد کا ہے۔ ایک فسطائی قوت جمہوری آئین کی جگہ منواسمرتی نافذ کرنا چاہتی ہے، گاندھی کی جگہ گوڈسے کو بابائے قوم بنانا چاہتی ہے۔ یہ جنگ سیکولرزم بنام فاشزم اور جمہوریت بنام آمریت ہے۔لہذا ہندوستان کو طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ لڑائی کس طرح لڑے گا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×