تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کامعاملہ؛ مرکزی حکومت کا حلف نامہ داخل کرنے سے ٹال مٹول‘ جمعیۃعلماء ہندکی عرضی پر نہیں ہوسکاکوئی فیصلہ
نئی دہلی 29/اکتوبر (پریس ریلیز) کروناوائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں ومسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیاکے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدرجمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران یونین آف انڈیا کے وکیل نے عدالت سے حلف نامہ داخل کرنے کے لیئے مزید وقت طلب کیا جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے اپنی کارروائی ملتوی کردی، گذشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف انڈیا نے جونیئر افسر کی جانب سے حلف نامہ داخل کرنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے بعدسالیسٹر جنرل آف انڈیا ایڈوکیٹ تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا تھاکہ حلف نامہ سینئر افسر کی جانب سے داخل کیا جائے گا اور حلف نامہ ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی ہیں آج چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کے روبر و سماعت عمل میں آئی۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ آج یونین آف انڈیا کو حلف نامہ داخل کرنا تھا لیکن انہوں نے داخل نہیں کیا، چونکہ عدالت نے یونین آف انڈیا کو ایک ہفتہ کی مہلت دیدی ہے لہذا ایک ہفتہ کے بعد اس معاملے کی سماعت ہوسکے اس کے لیئے عدالت کو رجسٹرار کو حکم دینا چاہئے جس پر چیف جسٹس نے ا یڈوکیٹ اعجاز مقبول کو یقین دلایا کہ اس معاملے کی جلداز جلد سماعت کے لیئے عدالت آرڈ ر جاری کریگی ۔عیاں رہے کہ گذشتہ سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو سیکڑوں خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھاکہ کرونا وباء کی آڑلیکرکس طرح تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا تھا لیکن مرکزی حکومت کے حلف نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویاعرضی گذار (جمعیۃ علماء ہند)نے پٹیشن داخل کرکے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اس کے برخلاف ہماری عدالت سے گذارش ہے کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کوبدنام کرنے والے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی جائے۔اس معاملے کی سماعت بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ہوئی جس کے دوران ایڈوکیٹ اعجاز مقبول (ایڈوکیٹ آن ریکارڈ) اور ان کے معاونین وکلاء محمد طاہر حکیم، شاہد ندیم، اکرتی چوبے، سارہ حق، نہیا سانگوان، محمد عیسی حکیم موجود تھے۔آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ اس معاملہ میں حلف نامہ داخل کرنے میں حکومت کا ٹال مٹول یہ ظاہر کرتاہے کہ متعصب میڈیا ملک میں جو کچھ کررہا ہے اس کی اسے ذرہ بھربھی پرواہ نہیں ہے، ہم اس معاملہ میں جلد ازجلد کسی فیصلہ کے منتظرہیں تاکہ ملک کے غیر ذمہ دارمیڈیا کولگام لگائی جاسکے اور اپنی حرکتوں سے ملک کے امن واتحاد میں وہ جس طرح آگ لگانے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں اس سے ان کو باز رکھا جاسکے مگر افسوس موجودہ حکومت معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کررہی ہے، مولانا مدنی نے مزید کہا کہ اس سے زیادہ حیرت کی بات تویہ ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کے ذریعہ داخل عرضی کو اظہار رائے کی آزادی میں خلل ڈالنے کی کوشش قراردیا جارہا ہے، انہوں نے وضاحت کی ہم پہلے ہی یہ بات صاف کرچکے ہیں کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے حامی ہیں لیکن اس آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے کسی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین اور کسی قوم یا فردکی دلآزاری کی جائے، اظہاررائے کی آزادی کی بھی کچھ حدیں ہیں اور اگر کوئی شخص ان حدوں کو پارکرتاہے تو اس کی مخالفت اورمذمت دونوں ہونی چاہئے۔