احوال وطن

سدرشن جیسےچینلوں پر لگام کسنے کے لیئے نئی گائڈلائنس مرتب کرنا وقت کی ضرورت: گلزار اعظمی

سدرشن نیوز چینل کے پروگرام بنداس بول پر پابندی لگانے والی پٹیشن سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، عدالت کے حکم پر مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کیئے گئے حلف نامہ میں حکومت نے عدالت سے درخواست کی ہیکہ اگر اسے لگتا ہیکہ سدرشن چینل کا پروگرام غیر مناسب ہے تو وہ صرف سدرشن نیوز چینل پر کارروائی کرے۔ مرکزی حکومت نے عدالت سے گذارش کی ہیکہ وہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر لگام لگانے سے پہلے سوشل میڈیاپر کارروائی کرے، حکومت کی جانب سے عدالت پر مسلسل دباؤ بنایا جارہا ہیکہ وہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاپر کارروائی نہ کرے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نفرت پھیلانے والے نیوز چینلوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ انہیں بچانے کی کوشش کررہی ہے۔
حلف نامہ میں مزید کہا گیا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لیئے پہلے سے ہی گائڈلائنس اور قوانین موجود ہیں جبکہ سوشل میڈیا جیسے ٹوئیٹر، فیس بک، یوٹیوب وغیرہ پر لگام کسنا ضروری ہے جن کی وجہ سے خبریں فوراً وائرل ہوجاتی ہیں۔حکومت کی جانب سے عدالت سے گذارش کی جارہی ہیکہ وہ پہلے سوشل میڈیا پر لگام کسنے کے لیئے گائڈلائنس جاری کرے۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے میڈیا کو بچاتے ہوئے عدالت میں مسلسل یہ بات کہی جارہی ہیکہ میڈیا کی آزادی ختم نہیں کی جانی چاہئے نیز اگر کوئی میڈیا رہنمایانہ اصولوں کے خلاف خبریں دکھاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیئے پہلے سے ادارے اور قوانین موجود ہیں (حالانکہ یہ سب ادارے اور قوانین، گائدلائنس گودی میڈیا پر لگام کسنے میں غیر موثر ثابت ہوئے ہیں)سدرشن چینل معاملہ اور جمعیۃعلماء فیک نیوز پٹیشن پر مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کیئے گئے حلف ناموں کوپڑھنے کے بعد حکومت کی نیت واضح ہوجاتی ہے کیونکہ حکومت نے صاف لفظوں میں کہا ہیکہ وہ میڈیا پر پابندی کے خلاف ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ تبلیغی جماعت مرکز نظام الدین معاملے میں نیوز چینلوں کی جانب سے مسلمانوں کو بدنام کرنے والی نیوز دکھانے کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پر بھی مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل کرکے نیوز چینلوں کو بچانے کی کوشش کی ہے اور عدالت سے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن(Writ Petition (Civil) No. 787 of 2020) پر عدالت کوئی عمومی حکم جاری نہ کرے کیونکہ اس سے میڈیا کی آزادی ختم ہوجائے گی۔ان دونوں معاملات میں مرکزی حکومت کی جانب سے داخل حلف ناموں سے یہ ظاہر ہوتا ہیکہ حکومت فرقہ پرست میڈیا کو بچانے کی کوشش کررہی ہے جو مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئی ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ ایک جانب جہاں جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے سدرشن چینل کے پروگرام پر کارروائی کرنے کا اشارہ دیا ہے وہیں چیف جسٹس آف انڈیا نے جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن پر بجا ئے میڈیا پر کاررائی کرنے کے فیک نیوز دکھانے والے نیوز چینلوں کی شکایت نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن کے روبرو کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن نیوز براڈ کاسٹرس ایسو سی ایشن غیر موثرادارہ ہے جس کا اظہار جسٹس چندرچوڑ نے خود کیاہے اس لیئے ہماری جانب سے چیف جسٹس آف انڈیا سے گذارش کی جارہی ہیکہ اس ضمن میں سپریم کورٹ خود کوئی تازہ گائڈلائنس مرتب کرے تاکہ نفرت آمیز خبریں دکھانے والے نیوز چینلوں پر کاررائی کی جاسکے یا ان پر قدغن لگ سکے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ سدرشن نیوز چینل معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہوسکتا ہے اور اگر سپریم کورٹ نے نئی گائڈلائنس مرتب کردی تو گودی میڈیا پر لگام کسنے میں کچھ حد تک مدد ملے گی ورنہ پریس کونسل آف انڈیا، پریس ٹرسٹ آف انڈیا، نیوز براڈ کاسٹرس ایسوسی ایشن، منسٹری آف براڈ کاسٹر وغیرہ ادارے نیوز چینلوں پر لگام کسنے میں ابھی تک ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ جمعیۃعلماء مہاراشٹر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×