احوال وطن

دہلی گیٹ کے قبرستان اہلِ اسلام میں امارتِ شرعیہ کے ناظم مولانا معز الدین سپردِ خاک

نئی دہلی: 14/ستمبر (پریس ریلیز) امارت شرعیہ ہند کے ناظم اور جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اہم رکن مولانا معزالدین احمد نے دہلی کے میکس ہسپتال میں اتوار کی صبح آخری سانس لی اور تدفین سوموار کی صبح قبرستان اہل اسلام دہلی گیٹ نئی دہلی میں حسب دستور عمل میں آئی، ان کی موت حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی۔وہ 58/سال کے تھے، مولانا کا آبائی وطن دتلو پور ضلع بلرام پور ہے، پسماندگان میں والدین، چار بھائی،بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں،اولادا بھی کم عمر اور زیرِ تعلیم ہیں۔ آج صبح ان کی نعش میکس ہسپتال سے لائی گئی، امیر الہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند نے نماز جنازہ پڑھائی، نماز جنازہ میں مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا حکیم الدین قاسمی،  مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری، مولانا سید محمد مدنی، مولانا عبدالحمید نعمانی، قاری محمد یامین، سید ذہین مدنی دیوبند، مولانا اسجد قاسمی پسونڈہ، مولانا عبداللہ اسامہ کانپور، مفتی ذکاوت، مولانا مرحوم کے والد مولانا عبدالحمید سمیت دہلی و اطراف کے کئی اہم علماء شریک ہوئے۔
ان کی وفات حسر ت آیات پر امیرالہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے گہرے رنج والم کا اظہار کیا ہے، ان کی رحلت امارت شرعیہ ہند اور جمعیۃ علماء ہند کے لیے بالخصوص اور دینی وملی حلقے کے لیے بالعموم نقصانِ عظیم ہے۔مولانا مرحوم معاملہ فہم، سنجیدہ، متین اور اصول پسند شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اخلاق،اخلاص اور سادگی کے پیکر تھے۔دینی و فقہی علوم میں ان کو باری تعالی نے خاص دستر س عطا کی تھی، وہ کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرتے: ہر وقت کتابوں میں گھرے رہتے، ٹھوس اور مدلل گفتگو فرماتے اور ان کی رائیں اکثر معاملوں میں نہایت اہم ہوتیں اور جب بھی کوئی مشکل مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ ان کو آسان اور سہل بنادیتے۔ جمعیۃ علماء ہند کے لیے ان کی بیش بہا خدمات ہیں،وہ جمعیۃ علماء ہند، اس کی تاریخ، جمعیۃ کے دستور پر گہری نگاہ رکھتے تھے، بہت ساری باتیں ان کوازبر یاد تھیں۔ مولانا مرحوم کی نگرانی میں گزشتہ تیس سالوں سے لگاتار ادارہ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علما ء ہند کے زیر اہتمام سلگتے ہوئے مسائل پر کئی فقہی اجتماعات منعقد ہوئے، انھوں نے مسائل کی تحقیق و تنقیح اور اجتماعات کے انعقاد میں بڑی جانفشانی سے خدمت انجام دی ہے۔انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کی صد سالہ تقریبا ت کے تحت منعقد ہونے والے سیمیناروں میں بڑا کردار ادا کیا، سیمیناروں میں جمع شدہ مقالات کی ترتیب و تحقیق میں بھی مرتبین کو ان کی رہ نمائی حاصل رہی جس کی وجہ سے ’تذکرہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجادؒ بہاری‘، تذکرہ مولانا سیدمحمد میاں ؒدیوبندی، تذکرہ محدث اعظمی‘ ؒ، تذکرہ مولانا احمد سعید دہلوی ؒ جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں۔
صدر جمعیۃ علماء ہند اور ناظم عمومی نے مولانا مرحوم کے اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کی ہے، ان کے پسماندگان کے ساتھ پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہ ر ب العلمین میں دعاء گو ہیں کہ مرحوم کو جنات علیا میں مقام اعلی فرمائیں اور ان کے بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور ان کو خصوصی پناہ میں لیتے ہوئے دارین کی سعادت سے سرفراز فرمائیں۔ مولانا محمود مدنی جو بیرونی سفر پر ہیں، انھوں نے مولانا کی رحلت جدائی پر خصوصی طور سے قلق و اضطراب کا اظہار کیاہے اور اسے دفتر جمعیۃ علماء ہند اور اپنا ذاتی نقصان بتایا ہے۔
مولانا معزالدین احمد مرحوم کامختصر تعارف
مولانا معزالدین احمد 1962ء میں دتلو پور ضلع گونڈہ یوپی (جو اب بلرام پور ضلع میں واقع ہے) میں دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، والد کا نام مولانا عبدالحمید ہے۔ 1985ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، اس سے قبل ابتدائی تعلیم دارالعلوم فرقانیہ گونڈہ اور جامع العلوم پٹکاپور کانپور میں حاصل کی، وہ حافظ قرآن بھی ہیں۔فراغت کے بعد 1986ء میں دارالعلوم دیوبند میں معین مدرس رہے،اسی سال دیوبند میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبو ت دارالعلوم دیوبند کا تاسیسی اجلاس منعقد ہواتو انھوں نے اس کے انعقاد میں اپنے حصے کا اہم کردار ادا کیا، اُسی سال دیوبند کی مدنی مسجد میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ نے ان کا نکاح پڑھایا۔1987ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کی دعوت پر جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر سے وابستہ ہوئے، ان کو امارت شرعیہ ہند کی ذمہ داری سونپی گئی، اس کے ساتھ انھوں نے مدرسہ حسین بخش نزد جامع مسجد دہلی میں فقہ و حدیث کا درس دینے کی بھی ذمہ داری نبھائی، لیکن یہ سلسلہ طویل عرصے تک نہیں چلا۔3/اگست1992ء کو امارت شرعیہ ہند کے اجلا سِ شوری زیر صدارت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ میں ان کو باضابطہ امارت شرعیہ ہند کا ناظم نامزد کیا گیا۔ وہ تادم واپسیں 28/سال تک اس عہدہ پر رہے، اس کے علاوہ مولانا مرحوم نے ادارہ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کی بھی ذمہ داری نبھائی، جس کے زیر انتظام گزشتہ تیس سالو ں میں کئی اہم اور معرکۃ الآراء مسائل پر اجتماعات منعقد ہوچکے ہیں۔ان کے پسماندگان میں والدین، بیوہ اور دو بچوں کے علاوہ چار بھائی بھی بقید حیات ہیں۔مولانا مرحوم امارت شرعیہ ہند کے زیر اہتمام قائم رویت ہلال کمیٹی کے بھی کنوینر تھے۔ وہ ’خطبات فدائے ملت‘ ؒ کے مرتب ہیں جو مولانا اسعد مدنی ؒ کی تقاریر و مواعظ کا مجموعہ ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے’بابری مسجداور تالا بندی‘’مرزا قادیانی سےمتعلق فتاوی اور فیصلے‘ اور’ختم نبوتﷺ پر چار ٹ‘ سمیت متعدد رسالے مرتب کیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×