دہلی فسادمعاملہ؛ کونسلر طاہر حسین کے بھائی سمیت مقدمہ سے باعزت بری، مزیددوکی ضمانت ہائی کورٹ سے منظور
نئی دہلی: 3؍ ستمبر (پریس ریلیز) دہلی فساد معاملے کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے نا کافی ثبوت و شواہد اور ناقص تفتیش کی وجہ سے تین مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا یعنی اب ان ملزمین کو مقدمہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ملزمین میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم کے ساتھ راشد سیفی اورشاداب شامل ہیں،عدالت نے انہیں مقدمہ سے بری کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ”دہلی پولس کی ناقص و ناکام تفتیش کی وجہ سے دہلی فساد تاریخ میں یاد رکھا جائے گا “ ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا،گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا)اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ وکیل آن ریکارڈ ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاون وکلاء دنیش تیواری وغیرہ نے چارج پر بحث کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا تھا کہ دہلی پولس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے، ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت و شواہد اکھٹا کیئے گئے اور انہیں پھنسایا گیا۔ وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین کے خلاف صرف پانچ لوگوں نے گواہی دی ہے جس میں چار پولس والے شامل ہیں جبکہ ایک عام شہری ہے، انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ دو سو لوگوں کے ہجوم میں سے صرف انہیں تین لوگوں کی نشاندہی کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزمین کو منظم طریقے سے مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے۔ حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی سخت مخالفت کی لیکن عدالت نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے تینوں ملزمین کو دیال پور پولس اسٹیشن مقدمہ (چاند باغ) سے ڈسچارج کردیا اور پولس کی ناقص تفتیش پر سخت برہمی کااظہاربھی کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ مقدمہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے پیسوں کی بربادی ہے کیونکہ تفتیش صحیح رخ پر نہیں کی گئی۔عدالت نے مزید کہا کہ یہ تفتیشی ایجنسی کی ناکامی ہے کہ انہوں نے سائنسی طریقہ کار اختیار نہیں کیا، بس عدالت کی آنکھ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزیدکہا کہ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولس بس اضافی چارج شیٹ داخل کرنے میں مصروف ہے، مقدمہ کی سماعت شروع کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، ملزمین جیلوں میں بند ہیں اور تاریخ پر تاریخ دینے سے عدالت کا قیمتی وقت برباد ہورہا ہے۔عدالت نے مزید کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں ہونے والی تاخیر اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ پولس کانسٹبل نے گڑ بڑ ی کی ہے اور ملزمین کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں دہلی پولس کی جانب سے کی جانے والی غیر پیشہ وارانہ تفتیش پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔اسی دوران دہلی ہائی کورٹ نے بھی دوملزمین فرقان اور صالحین کی ضمانت منظورکرلی ہے۔ اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہم تو پہلے دن سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ دہلی پولس نے جانبدارانہ تفتیش کی اور مسلمانوں کو گرفتار کیا، عدالت نے خود اس بات کو نوٹ کیا کہ دہلی پولس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے۔ خصوصی جج کے تبصرے سے ہمارے موقف کو تقویت ملی ہے کہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی گرفتار بھی کرلیا، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دہلی فسادمیں جو مظلوم ہیں جس پر ظلم ہوا پولس نے اسے ہی ظالم اورمجرم بناکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا جبکہ اس فسادکی سازش رچنے والے آج بھی آزادگھوم رہے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ تفتیش اور گرفتاری کے نام پر قانون وانصاف کی جس طرح بے حرمتی ہوئی ہے اس کی تصدیق عدالت کے اس سخت تبصرہ سے بھی ہوجاتی ہے کہ دہلی پولس کی اس ناقص تفتیش کے لئے دہلی فسادتاریخ میں یادرکھاجائے گا۔ واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پرماخوذ 92مسلم ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کا پینل کل 139 مقدمے دیکھ رہا ہے۔