خواجہ یونس قتل معاملہ؛ توہینِ عدالت کی پٹیشن پر کل اہم سماعت ہوسکتی ہے
ممبئی: 3؍جو لائی (پریس ریلیز) خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کو ملازمت پر لینے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں داخل توہین عدالت کی پٹیشن پر کل یعنی کے 3 جولائی کو ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اے اے سید اور جسٹس این آر بورکرکے روبر وسماعت ہوسکتی ہے، اس سے قبل کی سماعت پرعدالت نے توہین عدالت کے مرتکب فریقوں سے جواب طلب کرتے ہوئے انہیں 3 جولائی تک عدالت میں اپنا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔
عیاں ہے کہ گذشتہ 23 جون کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) نے خواجہ یونس کی والدہ کی جانب سے خواجہ یونس قتل معاملے میں ملوث چار پولس والوں کو ملازمت پر بحال کرنے کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن داخل کی تھی کیونکہ سات دن گذر جانے کے باوجود ممبئی پولس کمشنر نے توہین عدالت کی نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا۔
توہین عدالت کی پٹیشن میں پولس کمشنر آف ممبئی پرم ویر سنگھ،پرنسپل سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ امیتابھ گپتا،اسٹیٹ سی آئی ڈی،روویو کمیٹی اور حکومت مہاراشٹر کو توہین عدالت کا مرتکب بتایا گیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چاروں پولس والوں کو نوکری پربحال کرنے کے لئے خواجہ یونس کی والدہ کو ایک،لاکھ روپئے معاوضہ دیں اور پولس والوں کو فوراً نوکری سے معطل کریں۔
اس ضمن میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ حالانکہ ممبئی پولس کمشنر کل کی ہونے والی ممکنہ سماعت پر عدالت میں رسمی طور پر اپنا جواب داخل کریں گے لیکن ان کی آفس سے جاری اخباری بیانات سے یہ ظاہر ہورہا ہیکہ وہ پولس والوں کی دوبارہ ملازمت پر بحالی کو توہین عدالت نہیں سمجھ رہے ہیں اور انہوں نے پولس والوں کی ملازمت کو کرونا وبا ء سے جوڑ دیا ہے اور وہ یہ کہ رہے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے پولس محکمہ میں پولس والوں کی کمی کی وجہ سے چاروں پولس والوں کو ملازمت پر دوبار ہ لیا گیا ہے۔ اب عدالت یہ فیصلہ کریگی کہ آیا ممبئی پولس کمشنر کا یہ عمل توہین عدالت ہے یا نہیں۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ ممبئی پولس کمشنر کی جانب سے عدالت میں جواب داخل کرنے کے بعد ان کا موقف کیا ہے اور وہ قانونی طور پر کتنے مضبوط ہیں سمجھ میں آئے گا۔
واضح رہے کہ23 دسمبر 2002 کو خواجہ یونس کو 2، دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر میں ہونے والے بم دھماکہ کے الزام میں گرفتارکیا تھا جس کے بعد سچن وازے نے دعوی کیا تھا کہ خواجہ یونس پولس تحویل سے اس وقت فرار ہوگیا جب اسے تفتیش کے لیئے اورنگ آبا دلے جایا جارہا تھا حالانکہ سی آئی ڈٖی نے سچن وازے کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے معاملے کی تفتیش کے بعد سچن وازے سمیت دیگر تین پولس والوں کے خلاف خواجہ یونس کو قتل کرنے کا مقدمہ قائم کیا تھا جو فاسٹ ٹریک عدالت میں زیر سماعت ہے۔