حکومت نے ٹی وی چینلوں کے خلاف کیا کاروائی کی؟ سپریم کورٹ کا مرکز اور پریس کونسل آف انڈیا سے سوال
نئی دہلی: 27مئی (پریس ریلیز) مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوان عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عرضی گذار کو بتائے کہ اس تعلق سے حکومت نے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19 اور 20 کے تحت ابتک ان چینلز پر کیا کارروائی کی ہے اس کے ساتھ ہی عدالت نے جمعیۃعلماء ہند کوبراڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے آج سالسٹرجنرل آف انڈیا تشارمہتاکو کہاکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے جس سے لاء اینڈآڈرکا مسئلہ ہوسکتاہے لہذاحکومت کو بھی اس جانب توجہ دینا ضروری ہے،اسی درمیان سینئروکیل دوشینت دوے نے کہاکہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور عدالت کو اس پر خصوصی توجہ دینا چاہئے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو اس تعلق سے علم ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ 13 اپریل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد آج سماعت عمل میں آئی اس دوران عدالت نے جمعیۃعلماء کی جانب سے داخل پٹیشن مرکزی حکومت کو مہیا کرانے کے ساتھ ساتھ حکومت کونوٹس جاری کرتے ہوئے 15 جون تک جواب داخل کرنے کو کہا نیز براڈ کاسٹ ایسو سی ایشن کو بھی فریق بنانے کاحکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی حالانکہ آج امید کی جارہی تھی چیف جسٹس اس تعلق سے کچھ فیصلہ صادر کریں گے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے آج کی پیش رفت پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہمیں امید تھی کہ معززعدالت آج باقاعدہ کوئی فیصلہ صادرکرے گی تاہم اس نے جس طرح کیبل ٹی وی نیٹ ورک قانون کی دفعات 20-19کے تحت بے لگام ٹی وی چینلوں کے خلاف کاروائی کو لیکر مرکز اور پریس کونسل آف انڈیا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس پر جواب طلب کیا ہے وہ ایک انتہائی امید افزابات ہے اور جمعیۃعلماء ہند کی کامیابی کا پہلامرحلہ ہے،مولانامدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند یہ قانونی لڑائی ہندومسلم کی بنیادپرنہیں لڑرہی ہے بلکہ اس کی یہ لڑائی ملک اور اس قومی یکجہتی کیلئے ہے جو ہمارے آئین کی بنیادی روح ہے اور ملک کی آئین نے ہمیں جو اختیاردیا ہے، اس طرح کے معاملے میں ہم اپنے اسی اختیارکا استعمال کرتے ہوئے عدالت کا رخ کرتے ہیں جہاں سے ہمیں انصاف بھی ملتاہے اس اہم معاملہ میں بھی ہماری قانونی جدوجہد تب تک جاری رہے گی جب تک کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آجاتا، فیصلہ میں اگرچہ تاخیر ہورہی ہے لیکن میڈیا نے پچھلے کچھ ماہ کے دوران اپنی اشتعال انگیزیوں سے نفرت کا جو ماحول پیداکیاتھا، کورونا وائرس کے حملہ کے بعد لاک ڈاؤن میں پید اہوئی صورت حال میں اس ملک کے مسلمانوں نے غریبوں مزدوروں اور مفلوک الحال لوگوں کی مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر بے مثال خدمت کرکے اس نفرت کو محبت میں تبدیل کردیا ہے ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عمل سے نہ صرف یہ باورکرادیا کہ وہ ملک کے امن پسند شہری ہیں بلکہ یہ بھی بتادیا کہ ہر مصیبت کی گھڑی میں وہ ایک محب وطن شہری کی طرح اس ملک کے عوام کی بے لوث خدمت کرنے کے لئے تیارہیں ان کا یہ عمل ملک کے متعصب میڈیا کے منہ پر ایک ایساطمانچہ ہے جس کی گونج وہ تادیر محسوس کرتے رہیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے سہارامزدوروں اور غریبوں کی مسلم طبقہ نے جگہ جگہ اس رمضان کے مہینہ میں بھی اپنی بھوک اور پیاس کو نہ محسوس کرتے ہوئے جس طرح دھوپ اور جسم کوجھلس دینے والی لومیں مددکی اس کی مثال کم ازکم ملک کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ہم امن پسند شہری ہیں اور ملک کے آئین وقانون کے ساتھ ساتھ عدالت پر بھی اعتمادکرتے ہیں اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اس معاملہ میں عدالت کا جوبھی فیصلہ آئے گا وہ انتہائی مثبت اور دوررس نتائج کا حامل ہوگا۔ آج عدالتی کاروائی کے بعد گلزار اعظمی نے کہا کہ حالانکہ سپریم کورٹ نے آج کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا لیکن عدالت کا حکومت سے جواب طلب کرنا مثبت بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق براڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو جلد ہی فریق بناکر اس معاملے کی سماعت جلد ہو اس تعلق سے کوشش کرنے کی ہدایت ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کو دی گئی ہے۔ آج چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس اے ایس بوپننا اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل تین رکنی بینچ کو سینئر ایڈوکیٹ دوشینت دوے (صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن) نے بتایا کہ تبلیغی مرکزکو بنیادبناکر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دلآزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس معاملہ میں فریق بنے جمعیۃعلماء لیگل سیل کے سکریٹری گلزاراحمد اعظمی نے کہا کہ ایک عام سے واقعہ کو میڈیا کے بڑے حلقے نے غیر معمولی واقعہ بناکر پیش کیا اور اس کے لئے جھوٹ کو بنیادبنایا گیا یہاں تک کہ کرونا وائرس کی وباء کو کرونا جہاد سے تعبیر کرکے یہ تاثردینے کی مجرمانہ کوشش کی گئی کہ ملک میں اس وباکو مسلمانوں نے پھیلایا ہے اس سے عوام کی اکثریت نہ صرف گمراہ ہوئی بلکہ عام مسلمانوں کو لوگ شک کی نظرسے دیکھنے لگے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالت میڈیا کے لئے شرائط اور حدودطے کرے اور اسے آئندہ اس طرح کی اشتعال انگریزی سے روکے کیونکہ ایک ایسے وقت میں کہ لوگ ایک ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں بے لگام میڈیا کا ایک بڑاطبقہ معاشرے میں انتشاروتفریق پید اکرکے لوگوں کو مذہبی طورپر تقسیم کرنے کی خطرناک سازشیں کررہا ہے اور اس کے لئے دھڑلے سے جھوٹی خبریں اور فرضی ویڈیوزکاسہارالیا جارہا ہے جو قانونی طورپر انتہائی قابل گرفت بات ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشرکرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طورپر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط مگر میڈیا ایسانہیں کررہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماراقانون یہ بھی کہتاہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشرنہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔اس سے قبل گزشتہ سماعت کے موقع پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول نے عدالت کی توجہ ان دیڑھ سو چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی تھی جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینلوں کی جانب دلائی تھی جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی۔