جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر پر بین مذاہب مشاورت کا انعقاد‘ ملک بھر کے مظاہرین کی قربانیوں کو سلام
نئی دہلی22؍فروری (پریس ریلیز) سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کو لے کر آج جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی میں’ باشعور ہندستانی شہریوں کے درمیان مباحثہ کے عنوان سے ایک اہم اور فیصلہ کن پروگرام منعقدہوا، جس کی صدارت جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے کی ، اس پروگرام کے کنوینر جمعیۃ علما ہند کے جنر ل سکریٹری مولانا محمود مدنی اور جوائنٹ کنوینر کمال فاروقی تھے ۔ پروگرام میں سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے ملک کے دانشور، سماجی قائدین ، دلت رہ نما اور سبھی مسلم جماعتوں کے عہدیداران شریک ہوئے ۔
میٹنگ میں تقریبا چار گھنٹے کے طویل مذاکرے اور مختلف قانونی معاملات پر غوروخوض کے بعد ایک متفقہ اعلامیہ منظور کیا گیا، جس کا نام ’’دہلی اعلامیہ ’’ دیا گیا ہے ۔اس اعلامیہ میں واضح طور سے جلد ہونے والے این پی آر کو مسترد کرنے کا اعلان کیا گیا اور عوام سے کہا گیا کہ این پی آر یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 تک ہوگا ۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے والے گھر گھر جائیں گے، ہمیں شائستگی کے ساتھ ان سے تعاون کرنے سے انکار کرنا چاہئے اور انھیں کسی طرح کی تفصیلات فراہم نہیں کرنی چاہیے۔
واضح ہو کہ مباحثہ میں ایک ڈرافٹنگ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس کے صدر سابق مرکزی وزیر کے رحمان خاں تھے ، اس کمیٹی میں مشہور تجزیہ نگار ابوصالح شریف، عیسائی رہ نما جان دیال ،انل چمڑیا، ایم ایم انصاری ، قاسم رسو ل الیاس، دھنراج ونجاری اور اویس سلطان خاں شامل تھے۔ کمیٹی نے قانونی پہلوئوں کا بھی جائزہ لیا اور پھر متفقہ طور سے سات نکاتی اعلامیہ منظور کیا ہے جس کا اردو متن حسب ذیل ہے :
(۱) ہم واضح طور پر این پی آر کو مسترد کرتے ہیں کیوں کہ یہ ملک کے آئین کی دفعہ (14) سے کھلے طور پر متصادم ہے ۔این آرسی کی تیار ی کے لیے، این پی آر کا عمل ڈیٹا جمع کرنے کا پہلامرحلہ ہے جیساکہ شہریت ایکٹ 1955اور شہریت رولز 2003سے ظاہر ہوتا ہے۔یہ عمل واضح طور پر تفرقہ پر مبنی ، امتیازی ،علیحدہ پسند اور غیر دستوری ہے جس میں ایک مخصوص طبقے کو ذات پات، طبقہ اورصنف کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔(۲) این پی آر یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 تک ہوگا ۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے والے گھر گھر جائیں گے۔ ہمیں شائستگی کے ساتھ ان سے تعاون کرنے سے انکار کرنا چاہئے اور انھیں کسی طرح کی تفصیلات فراہم نہیں کرنی چاہیے۔(۳) ہم تمام ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر این پی آر کے عمل کو معطل کردیں ۔ ہم تمام امن وامان نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ پرامن مظاہرے کے سلسلے میں ہندستانی عوام کے آئینی حقوق کا احترام کریں(۴) ہم بالخصوص اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں کے پرامن مظاہرین کی پولس فائرنگ میں نشان بند ہلاکتوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ حکومت پرامن اختلاف رائے رکھنے والوں پر ریاستی جبر کی لیبارٹری بن چکی ہے۔ ہم پولیس کی فائرنگ ، املاک کو پہنچنے والے نقصان ، بے گناہ لوگوں کی گرفتاری اور سول مظاہرین پر غیر معمولی جرمانے عائد کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔(۵) ہم ملک بھر میںسبھی مذاہب کے نوجوانوں ، طلباء اور شاہین باغ کی خواتین کی طرف سے ہونے والے پرامن احتجاج کو سلام پیش کرتے ہیں(۶) ہم بغاوت اور اس جیسے سخت قوانین کے تحت اندھا دھند گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم گرفتار شدگان کی فوری غیر مشروط رہائی اور ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر میں ادارہ جاتی املاک اور لوگوں کو ہونے والے جسمانی اور مادی نقصانات اور نفسیاتی تنائو کے لئے مناسب معاوضہ دیا جائے۔ (۷) ہم لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت امن قائم رکھیں اور تحریک کو سبوتاژ کرنے والی اشتعال انگیزی اور پروپیگنڈاکا شکار نہ ہوں۔(جے ہند ‘)‘
میٹنگ کے اختتام پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا کہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف ایک تجویز منظورکی تھی ، اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس موضوع پر ملک کے دانشوروں کا ایک اجتماع طلب کیا جائے ، چنانچہ اس کے تحت یہ پروگرام ہواہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس میٹنگ میں ہماری دعوت پر زیادہ تر غیر مسلم دانشوروں اور بڑے نامور تجزیہ نگاروں نے شرکت کی ہے ، ہم ان کی شرکت اور ان کی مفید آراء کا شکریہ اداکرتے ہیں، انھوں نے آج این پی آر کو لے کر واضح راہ دکھائی ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سرکار عوام کے دلی جذبات کو سمجھے گی ۔
اس اجتماع میں جن شخصیات نے شرکت کی ان کے نام حسب ذیل ہیں :
مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند،مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃعلما ء ہند، جناب کمال فاروقی ،جناب کے رحمن خان سابق مرکزی وزیر،ابو صالح شریف ، ابوبکر سباق ، امبریش رائے ،امریک سنگھ بنگر، ایم ایم انصاری ، بیلیہ نایک تیجاوت، ڈاکٹر اے ڈی ساونت ، دلیپ نیم، اوماوالی شنکر، جان دیال ، جناب سلیم انجینئر جماعت اسلامی ہند ،ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، انل چمڑیا، مودی شیش، راج کمار جین ، جناب محمد ادیب، اویس سلطان خان، ایم جے خاں، میناکشی سکھی،جناب مجتبیٰ فاروق، مولانا شبیر ندوی، نریندر کمار شرما، پی ایم اے سلام، جناب قاسم رسول الیاس،عبدالسمیع سلمانی ،شکیل احمد سید ایڈوکیٹ، ندیم خاں، ذیشان احمد، خالد انصاری،ملوی پون کمار،جتندر دکش، بشامبھیر پٹیل،حافظ پیر خلیق احمد صابر،راہل چندن، راکیش بہادر،راکیش رفیق، ڈونگر رام گیدر، دھرمپال کرتاریہ، بی آر بھاسکر پرساد،سوشیل گوتم، ٹی کے جان ، دھنراج ونجاری،،وی کے ترپاٹھی ،گلزار سنگھ ،حاجی محمد ہارون بھوپال،ویدپال سنگھ، جیپال سنگھ ،رنجیت سنگھ ،تیج سنگھ، پریادشی تلنگ، رتنیش کتولکر،محمد ساجد،امتیاز پیرزادہ، جناب مشفق رضا خان، سید شفیع اللہ ، مولانا عبدالواحد کھتری ، مولانا حافظ ندیم صدیقی، کالو رام، دھنا رام مہدہ، دھرم پال کٹیریا، اڈانکی ڈیاکار،لکشمن باپوراؤ مانے، جیکانت مشرا، انورپاشا، ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی ،مولانا حکیم الدین قاسمی ،سید دانش، عظمی جمیل ،جناب سیف اللہ، خالد سیفی، وشامبر پاٹل ،مولاناآصف انظار ندوی۔