احوال وطن

ہندو اور مسلمان دونوں عدالت کے فیصلہ کا احترام کریں

نئی دہلی: 6؍نومبر (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے ملک کے عوام خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان دونوں اس کا احترام کریں اور امن و اتحاد کو بہر صورت برقرار رکھیں۔ اس لئے کہ اگر امن واتحاد قائم ہے تو ملک قائم ہے اور اگر ملک قائم ہے تو حکومت قائم ہے۔ یہ ملک ہندو و مسلم اتحاد سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے اور کہیں یہ اتحاد کمزور ہوا تو ملک کمزور ہوجائے گا۔ اس سے اکثریت اوراقلیت دونوں کو چوٹ پہنچے گی اور سب کا نقصان ہوگا۔ یہ الفاظ جمعیۃ علماءہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آج نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ایک پرہجوم کانفرنس میں کہے۔ انہوںنے کہا کہ یوں تو مسائل کی فہرست طویل ہے لیکن ان میں سب سے اہم بابری مسجد کا مسئلہ ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے فوراً بعد جب مسجد کے صحن میں جبراً مورتیاں رکھی گئیں اور بعد میں 400سال پرانی اس مسجد کو شہید کردیا گیا تو اس وقت بھی جمعیۃ علما ہند اس کے خلاف سڑکوں پر نہیں اتری بلکہ قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا ،یہ لڑائی بہت طویل ہوگئی، مگر اب سپریم کورٹ میں اس پرحتمی بحث مکمل ہوچکی ہے۔ ہمارے وکلاء بالخصوص ڈاکٹر راجیو دھون نے بہترین قانونی بحث کی اور مسلمانوں کے حق میں ثبوت و شواہد بھی عدالت کے سامنے رکھے اور اب اس پر فیصلہ آنا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے آئین ، قانون اور عدلیہ پر ہم نہ صرف اعتماد کرتے ہیں بلکہ ان کا احترام بھی ہمارے دلوں میں ہے ، اس لیے جمعیۃ علماء ہند ہندو اور مسلمان دونوں سے خواہ مرد ہوں یاعورت، بوڑھے ہوں یا نوجوان سب کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ فیصلہ حق میں ہو یا خلاف ، دونوں صورتوں میں اتحاد اور بھائی چارے کو قائم رکھیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہندو مسلم اتحاد کی آواز جہاں تک پہنچ سکتی ہے ، پہنچائی جانی چاہئے۔ حکومت ہو یا دوسری تنظیمیں ، یہاں تک کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت جی کا بھی یہی موقف ہے کہ ملک میں امن واتحاد قائم رہنا چاہئے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ایسے بہت سے مواقع آئے کہ جب ہم سڑکوں پر اتر سکتے تھے، مگر کبھی نہیں اترے۔ کیونکہ جمعیۃ علماءہند کی نظر میں ملک کا امن و اتحاد کہیں زیادہ اہم ہے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی جمعیۃ علماء ہند امن و اتحاد کے پیغام کو عام کرنے کے اپنے مشن پر ایمانداری سے قائم رہی ہے۔ چنانچہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر بھی جمعیۃ علماءہند چاہتی ہے کہ ملک میں امن و سکون کی فضا نہ صرف برقرار رہے بلکہ قومی یکجہتی اور رواداری کی صدیوں پرانی روایت کو بھی برقرار رکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جمعیۃ علماءہند کے اس پرانے نظریہ کو تبدیل نہیں کیا۔ اور ہمارا ماننا ہے کہ اگر ہندو مسلم اتحاد کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ انہو ں نے آگے کہا کہ ہم نے اسی بنیاد پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی اور ہمیں خوشی ہے کہ اپنے اپنے نظریہ پر قائم رہتے ہوئے اس نکتہ پر دونوں متحد تھے کہ ملک میں ہندو مسلم اتحاد کو برقرار رکھنا چاہئے، کیونکہ یہ اتحاد دونوں کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو مسلم اتحاد کی یہ جو کوشش شروع ہوئی ہے، اس کے نتائج سامنے آنے بھی لگے ہیں۔ تاہم ہماری بات چیت کا سلسلہ آگے بھی چلتا رہے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ جمعیۃ علماءہند آزادی سے پہلے بھی فرقہ پرستی کی مخالف تھی اور آزادی کے بعد بھی اس کی مسلسل مخالفت کرتی آئی ہے۔
ابھی الیکشن کے دوران اور بعد میں آسام اور کولکاتہ میں ہمارے وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ جو بھی ہندو، بودھ ، سکھ یا عیسائی باہر سے یہاں آئے گا ہم اسے یہاں کی شہریت دیں گے اور دراندازوں کو ملک سے مار بھگائیں گے۔ ہم نے اس کی مخالفت کی ، کیونکہ ان کا یہ بیان آئین کے منافی ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ پارلیمنٹ میں انہوں نے جس دستور کے مطابق کام کرنے کا حلف لیا ہے۔ ان کا یہ بیان اسی دستور کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم این آر سی نافذ کرنے کے خلاف نہیں ہیں، لیکن تعصب کی بنیاد پر اس کا نفاذ نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ہمارا جس نکتہ پر اتفاق ہوا، وزیر داخلہ کا یہ بیان اس کے بھی خلاف ہے کہ آپ مذہب کی بنیاد پر ایک کو ملک سے دربدر کردیں اور دوسرے کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دے دیں۔
کشمیر کے حوالے سے مولانا مدنی نے کہا کہ 370کو ہٹانے کا معاملہ عدالت میں ہے اور اسے ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس کا ہٹایا جانا صحیح ہے یا غلط۔ لیکن جو چیز باعث تشویش ہے وہ یہ ہے کہ 70؍لاکھ کی آبادی پچھلے 90دنوں سے گھروں میں قید ہے، کاروبار بند ہیں، اسکول کالج بند ہیں، اسپتال خالی ہیں اور لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔ یہاں میں وہی بات دوہراﺅں گا جو غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے موہن بھاگوت جی نے کہی تھی اوروہ یہ کہ کشمیری عوام کے احساسات و جذبات کا خیال رکھا جائے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ 70لاکھ لوگوں کی تحریک ہے اور ان پر طاقت کے زور پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے ، مگرہمارا فرض ہے کہ ہم کشمیریوں کو بھی اپنا سمجھا اور انہیں یہ یقین دلائیں کہ ہماری لئے وہ غیر نہیں ہیں۔
ماب لنچنگ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جن ریاستوں میں غیر بی جے پی سرکاریں ہیں ، وہاں اس کے خلاف قانون بن چکا ہے ، مگر افسوس کی بات ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے، وہاں اب تک قانون سازی نہیں ہوئی ۔ ان ریاستوںمیں غنڈہ اور سماج دشمن عناصر کو پوری آزادی ملی ہوئی ہے اور وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس لئے ہم ایک بار پھر مرکزی حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ وہ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کو یہ ہدایت کرے کہ وہ ماب لنچنگ کے خلاف قانون سازی کریں۔ جب ان سے پوچھا کہ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آتا ہے تو ان کا موقف کیا ہوگا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بعد کی بات ہے ، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف ہوتی ہے اور جہاں ایک بار مسجد بن جاتی ہے ، وہ جگہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ آستھا کا نہیں ملکیت کا مقدمہ ہے ، اس لئے فیصلہ قانون کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ ایک صحافی نے جب یہ سوال کیا کہ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر فساد پھوٹ پڑ نے کا اندیشہ ہوسکتا ہے ، اس صورت میں کیا ہوگا؟ تو مولانا مدنی نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ کسی کی ماں نے دودھ نہیں پلایا ہے کہ حکومت اگر نہ چاہے تو وہ فساد برپا کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چاہے گی تب ہی فساد ہوسکتے ہیں، اور اگر وہ امن و قانون کو ایمانداری سے برقرار رکھنا چاہے گی تو پھر کہیں کوئی فساد نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہم محبت کے پیغام کو مذہب سے اوپر اٹھ کر عام کر رہے ہیں اور میڈیا کے توسط سے بھی ملک کے تمام شہریوں تک اپنے محبت کے اس پیغام کو پہنچانا چاہتے ہیں کہ ملک کی ترقی اور استحکام کا راز ہندومسلم اتحاد میں ہی پوشیدہ ہے ، اس لیے کسی بھی صورت میں اس اتحاد کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×