احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ بابر نے ایودھیا میں خالی میدان پر تعمیر کروائی تھی مسجد

نئی دہلی4/اکتوبر (پریس ریلیز) بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ معاملہ کی سماعت کا آج 37 واں دن تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے مسلم فریقوں کی جانب سے داخل سوٹ نمبر 4 پر بحث کرنے سے قبل عدالت کو بتایا کہ اگر عدالت آئین ہندکی دفعہ 142 کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے اس معاملہ میں کوئی فیصلہ صادر کرنا چاہتی ہے تو اسے اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ 26اور 27 دسمبر 1949 کی درمیانی شب مسجدکے اندر ونی صحن میں مورتی رکھی گئی تھی نیز اس کے بعد 6 دسمبر 1992 کو غیر قانونی طریقہ سے مسجدبھی شہید کردی گئی تھی۔ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ انہوں نے عدالت میں یہ ثابت کرنے کی مکمل کوشش کی ہے کہ بابر کے حکم پر میر باقی نے شرعی طریقہ سے مسجد کی تعمیر کی تھی نیز رام کے مسجد کے اندرونی صحن میں پیدا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے سوائے آستھا، یقین اور سیاحوں کی رپورٹ کے جن کی قانون شہادت کے تحت کوئی حیثیت نہیں ہے۔واضح رہے کہ آج کی عدالتی کارروائی کے اختتا م سے قبل چیف جسٹس نے فریقوں کے وکلاء سے کہا کہ پیر کی شام تک ڈاکٹر راجیو دھون سوٹ نمبر 4 پر اپنی بحث مکمل کرلیں گے اس کے بعد منگل اور بد ھ کو ہندو فریق کے وکلاء کو ڈاکٹرراجیو دھون کی بحث کا جواب دینے کا موقع دیا جائے گا نیز جمعرات کے دن یعنی کہ 17 اکتوبر کو عدالت وکلاء سے آرٹیکل  142 کے تحت حاصل خصوصی اختیار پر تبادلہ خیال کرے گی، چیف جسٹس کے آج کے تازہ حکم بعد اب بابری مسجد معاملہ میں فریقین کو بجائے 18 اکتوبر کے 17 اکتوبر تک اپنی بحث مکمل کرلینا ہوگی۔ اس اہم معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس بوبڑے جسٹس چندرچوڑ،جسٹس بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کوڈاکٹر راجیو دھون نے مسلم فریق جس میں سنی سینٹرل وقف بورڈ(یوپی)، حافظ محمد صدیق (جمعیۃ علماء ہند)حاجی محمد ابراہیم علی، محمد ہاشم،وکیل الدین، مولانا محفوظ الراحمن،محمد احمد، فاروق احمد کی جانب سے گوپال سنگھ وشارد، سری پرم ہنس رام چندرا، نرموہی اکھاڑہ، چیف سیکریٹری اترپردیش، کلکٹر فیض آباد،سٹی مجسٹریٹ فیض آباد، پریا دت، صدر آل انڈیا ہندو مہاسبھا، صدر آریہ مہا سبھا، صدر آل انڈیا سناتھن دھرما سبھا، دھرم داس، پندرک مشراء، بابا بجرنگ داس،شری رام سرن،شری رام دیا ل سرن، رمیش چندرا ترپاٹھی، مہنت گنگا داس، شری سوامی گون اچاریہ، مدن موہن گپتا،پرنس انجم قادر، یومیش چندراپانڈے کے خلاف داخل سوٹ نمبر 4 پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ فریق مخالف نے اپنی عرضداشتوں میں بابری مسجدکی موجودگی پر ہی سوال اٹھائے ہیں اور کہا کہ بابر نے کوئی مسجدبنوائی  ہی نہیں تھی۔ڈاکٹر دھون نے کہا کہ فریق مخالف نے سوٹ 4 میں یہ دعوی کیا ہے کہ یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ انگریزوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے بنایا ہے جس کو ختم کردیا جانا چاہئے کیونکہ انگریزوں نے بابری مسجد کو تسلیم کیا تھا او ر وہ اسے گرانٹ بھی دیتے تھے جس پر ڈاکٹردھون نے کہا کہ آپ نے مسلمانوں کی عبادت گاہ پر حملہ کیا اور اسے شہید کردیا اور آج کہا جارہاہے کہ یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، انگریز حکومت کی جانب سے بابری مسجد کے رکھ رکھاؤ کے لئے دی جانے والی گرانٹ کا رجسٹر عدالت میں پیش کیا اور اس کا وہ حصہ بھی پڑھا جس میں لکھاہے کہ انگریز حکومت  بابری مسجد کو گرانٹ دیتی تھی اور ضامن دار کے طور پر رجسٹر میں بابر کا نام بھی لکھا ہوا ہے نیز بابر کے بعد اودھ کے نواب کو ضامن دار بنایا گیا۔ڈاکٹر دھون نے عدالت کو بتایا کہ بیراگیوں نے مسجد پر حملہ کیا تھا اس کے بعد مسجد کی تزئین کاری کے لیئے کورٹ کے ذریعہ گرانٹ جاری کی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کو برابر گرانٹ ملتی تھی یعنی کہ مسجد کا وجود تھا۔ڈاکٹر دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ 1934 میں مسجد پر حملے کے بعد مسلمانوں کو مسجد کی مرمت کے لیئے معاوضہ دیا گیا تھا جس پر جسٹس چندر چوڑنے ڈاکٹر دھون سے پوچھا کہ آیا ان کے پاس کوئی دستاویزاتی ثبوت ہے جس پر دھو ن نے کہا کہ ان کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور ہندو فریق کے پاس بھی کوئی دستاویزاتی ریکارڈ نہیں سوائے کہانیوں کے۔ڈاکٹردھو ن نے کہا کہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا اور ہمارا اس پر اعتراض بھی نہیں ہے کہ رام کا جنم ایودھیام میں نہیں ہوا تھا بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ رام کا جنم مسجد کے اندورنی صحن میں مرکزی مینار کے نیچے ہوا تھا کیونکہ 1885 سے قبل ہندؤں کا خود عقیدہ تھا کہ رام کا جنم باہری صحن میں واقع رام چبوترے پر ہوا تھا لیکن آج یہ دعوی کیا جارہا ہیکہ رام کا جنم بابری مسجد کے اندر ہوا تھا اور مسجد کی تعمیر مندر مہندم کرکے کرائی گئی تھی۔ڈاکٹر دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ جب ہندؤں نے عرض داشت داخل کرکے یہ دعوی کیا کہ رام کا جنم مسجد کے اندرونی صحن میں واقع مرکزی مینار کے نیچے ہوا تھا، مسلمانوں نے ان سے کہا کہ ثابت کرو جس کے جواب میں انہوں نے سیاحوں کی رپورٹ پیش کی جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ڈاکٹر دھون نے نرموہی اکھاڑہ کیجانب سے داخل عرضداشت پڑھتے ہوئے عدالت کوبتایا کہ نرموہی اکھاڑہ نے دعوی کیاہے کہ بابر نے نہیں بلکہ میر باقی نے رام مندر گرایا تھا کیونکہ وہ ایک فقیر سے بہت متاثر تھا نیز عرضداشت میں مزید لکھا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ تین گنبد والی کوئی عمارت نہیں تھی نیز بھارت میں اسلامی قانونی لاگو نہیں ہوتا ہے۔ڈاکٹر دھو ن نے کہا کہ ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کردیا اور الٹے کہا گیا ان کی آستھا کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے نیز وقف کو انگریز حکومت نے بھی قانونی درجہ دیا تھا نیز 1934 سے مسجد کے اندر کسی مسلمان کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور بعد میں کہا گیا کہ مسلمانوں نے مسجد چھوڑ دی ہے لہذا ب اس پر ان کا قبضہ ہوگیا یعنی کہ Adverse Posession ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ مسجد کوشہید کرنے کی پلاننگ مارچ 1992 میں بنائی گئی تھی جسے 6دسمبر1992 میں انجام دیا گیاڈاکٹردھون نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ کی دلیلوں میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کوئی بھی پختہ ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا۔
ڈاکٹر دھون نے اپنی بحث آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب بابر 1526 میں ہندوستان آیا تھا اس وقت بابری مسجد کی جگہ خالی میدان تھا نیز مسلمانوں کی عبادت کے لئے اس نے بابری مسجدکی تعمیرکرائی تھی نیز مسجد میں نماز ادا کی جاتی ہے جو صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی لئے ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام میں دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے جو بندے کو براہ راست اللہ سے جوڑتی ہے جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ انہیں اس تعلق سے مزید معلومات چاہئے جس پر ڈاکٹر دھو ن نے کہا کہ انہوں نے جو کہاوہ کافی ہے یہ سمجھنے کے لئے کہ مسجداور نماز کیا ہے؟۔ڈاکٹر دھو ن نے کہا کہ بابری مسجد مسئلہ کو لیکر فریق مخالف کہانیاں بنا رہے ہیں نیز ہندو فریقین کے دلائل میں خود تضاد ہے، وہ خود یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ مسجد کو بابر نے بنایا تھا یااورنگ زیب نے اورقانونی شخصیت یعنی کہ Juristic Personality  کے حساب سے متولی یعنی کہ شبعیت کون ہوگا اس پر بھی سوال ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو 1885 سے لیکر 1989 کے درمیان کے سیاحوں کی رپورٹ اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ کرکے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہندو کہاں عبادت کررہے تھے؟۔ ڈاکٹر راجیو دھون مزید کہا کہ ویدوں میں بھی یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ قانونی شخصیت کیاہوتی ہے مگر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بھگوان رام کا جنم استھان قانونی شخصیت ہے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا قانونی شخصیت کیلئے آستھا کا ہونا کافی ہے؟ عدالت کو طے کرنا ہے کہ قانونی شخصیت کون ہوگا؟ اور اگر آستھا پر ہی سارامعاملہ منحصرہے تو مسلمانوں کی آستھا ہے کہ وہاں پر مسجد تھی، مسجد کی موجودگی کی حق متعدددلائل پیش کرنے کے بعد ڈاکٹردھون نے کہا کہ ہندووں کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مندرتھا اور اس کے بعد یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مسلمانوں نے اس پر قبضہ کیا، ڈاکٹر دھون کی بحث آج نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔آج صبح بحث کرنے سے قبل ڈاکٹر راجیو دھون نے چیف جسٹس کو کہا کہ عدالت نے یہ واضح کردیا کہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی بھی مداخلت کار کے دلائل کی سماعت نہیں کریگی لہذا عدالت کو اپنی بات کر قائم رہنا ہوگا کیونکہ وہ آج عدالت میں سبرامنیم سوامی کو دکھ رہے ہیں جو شاید اس انتظار میں ہیں کہ عدالت ان کے دلائل کی سماعت کریگی، ڈاکٹر دھون نے کہا کہ انہیں راجیہ سبھا کی ممبر شپ نہیں چاہئے جس پر چیف جسٹس نے مذاحیہ انداز میں کہاکہ انہیں راجیہ سبھا میں میں جانا چاہئے۔عیاں رہے کہ ڈاکٹر سبرامینم سوامی نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی جگہ پر عبادت کرنے کی اجازت طلب کررہے ہیں لیکن چیف جسٹس نے اس کی عرضدشت پر ڈاکٹر راجیو دھون کی شدید مخالفت کے بعد اس پر سماعت کرنے سے انکار کردیا۔آج دوران کارروائی عدالت میں ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ شاہد ندیم،ایڈوکیٹ گوتم پربھاکر، ایڈوکیٹ کنور ادیتیا، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا و دیگر موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×