احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ رام للا کے وکیل کا نرموہی اکھاڑہ کے متولی ہونے پر سخت اعتراض

نئی دہلی3/اکتوبر2019 (پریس ریلیز) بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ معاملے کی سماعت کا آج 36 واں دن تھا جس کے دوران رام للا کے وکیل سی ایس ویدیاناتھن نے جمعتہ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کے سیاحوں کی رپورٹ پر اعتراض کرنے کے جواب میں کہا کہ سیاحوں کی رپورٹس کو یہ کہہ کر مسترد کردینا کہ وہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں غلط ہے،حالانکہ اسی طرح بہت سی مذہبی کتابیں بھی سنی سنائی باتوں کا مجموعہ ہیں۔ ویدیاناتھن کی اس دلیل پر دھون نے سخت برہم ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ہندو مذہب کی کسی بھی مذہبی کتاب کے ایک لفظ پر بھی اعتراض نہیں کیا ہے مگر آج سیاحوں کی رپورٹ کا مسلمانوں کی مذہبی کتابوں سے موازنہ کرنا بدقسمتی کی بات ہے۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ انہوں نے سیاحوں کی رپورٹ اور آزاد گواہوں کے بیانات میں تضاد کی روشنی میں اپنا اعتراض کیا تھا اورکہاتھاکہ سیاحوں نے خود یہ دیکھا نہیں تھا کہ رام کا جنم کہاں ہوا تھا بلکہ انہوں نے ہندو عبادت گذاروں کے بیانات کی روشنی میں یہ کہا تھاکہ ایودھیا میں رام کا جنم ہوا تھا اور بابری مسجد کے اندر رام کے جنم استھان کا ان کا عقیدہ تھا۔ گزشتہ 36 دونوں سے اس اہم معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس بوبڑے جسٹس چندرچوڑ،جسٹس بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کوآج سینئر ایڈوکیٹ ودیاناتھن نے بتایا کہ مسلم فریق نے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر اعتراض کیا ہے لیکن انہیں یہ پتہ ہونا چاہئے کہ کھدائی کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ مسجد کی تعمیرپہلے سے موجودہ عمارت کو منہدم کرکے اس پر بنائی گئی تھی اور مسلم فریق کا یہ دعوی کہ مسجد کی تعمیر کھلی جگہ پر کی گئی تھی غیر حقیقی ہے۔ ایڈوکیٹ ودیا ناتھن نے کھدائی کے بعد نکلے ستونوں پر بحث کی جس پر جسٹس بوبڑے نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے پتہ چلے گا یہ ستون کس زمانے کے ہیں جس پر ڈاکٹر دھون نے کہا کہ اس تعلق سے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ بھی خاموش ہے۔ ودیاناتھن نے مزید کہا کہ اس پر تمام لوگوں کا یقین ہے کہ ایودھیا میں رام کا جنم ہوا تھا اور اس علاقے کو رام کوٹ کہا جاتا تھا لہذا یہ کہنا کہ متنازعہ مقام پر بدھشٹ مندر ہوسکتا ہے خیالی معلوم ہوتا ہے۔ اسی درمیان ڈاکٹردھون نے الہ آباد ہائی کور ٹ کا فیصلہ پڑھ کر عدالت کو یہ بتایا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی رپورٹ میں یہ کہیں بھی نہیں کہا ہے کہ کسی عمارت کو منہدم کرکے دوسری عمارت کی تعمیر کی گئی تھی لہٰذا فریق مخالف کا یہ دعوی کہ مندر کو مہندم کرکے بابر نے مسجد کی تعمیر کی تھی اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ رام للا کی قانونی حیثیت، محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ اور دیگر موضوعات پر بحث کرنے کے بعدانہوں نے نرموہی اکھاڑہ کے دعویٰ پر بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں انہیں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ نے انہیں غلطی سے ایک تہائی حصہ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 1855  میں نرموہی اکھاڑہ نے باہری صحن میں رام چبوترا بنایا تھا اور تب سے وہ انتطامی امور کی دعوے داری پیش کررہے ہیں۔ودیاناتھن نے کہا کہ 1855 سے پہلے سے ہندو متنازعہ اراضی پر پوجا پراتھنا کررہے ہیں اور سیاحوں کی رپورٹس، گزیٹییئر، ایودھیامہابھارت و دیگر دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ متذکرہ وقت سے پہلے نرموہی اکھاڑہ کے شبیعت یعنی متولی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اسی درمیان رام للا کے وکیل ویدیاناتھن کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعدمندر میں پوجا پراتھنا کی اجازت مانگنے والے گوپال سنگھ وشارد کے وکیل رنجیت کمار نے اپنی بحث شروع کی جنہیں عدالت نے صرف پانچ منٹ کا وقت دیا تھا، رنجیت کمار نے عدالت کوبتایا کہ وہ رام کا بھگت ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ رام کی پدائش ایودھیا میں ہوئی تھی۔سینئر ایڈوکیٹ رنجیت کمار کی مختصر بحث کے بعد نرموہی اکھاڑہ کے وکیل ایس کے جین نے بحث شروع کی اور عدالت کو بتایا کہ دسمبر 1949 میں ہندوؤں نے کوئی موررتی مسجد کے اندرونی صحن میں نہیں رکھی تھی بلکہ مسلمانوں نے یہ کہانی گڑھی تاکہ ماحول خراب کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر راجیو دھون نے ان کے متولی ہونے کو قبول کیا ہے لیکن مقررہ وقت میں سوٹ نہیں داخل کیئے جانے پر انہوں نے اعتراض کیا ہے لہذا آج وہ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان کا سوٹ مقررہ وقت کی پابندی کا شکار نہیں ہے حالانکہ رام للا اور دیگر ہندو فریقوں نے نرموہی اکھاڑہ کے شبیعت (متولی)ہونے کو چینلج کیا ہے۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ نے حالانکہ صرف مسجد کے اندرونی صحن کے قبضہ کے لئے سوٹ داخل کیا ہے لیکن ان کا دعوی باہری صحن کے ساتھ مکمل اراضی کے انتظامی امور کا ہے۔آئینی بینچ کے تمام ججوں نے ایس کے جین سے متعدد مرتبہ گذارش کی کہ وہ وقت مقررہ میں اپنی بحث مکمل کریں لیکن جب ایڈوکیٹ جین پہلے کی ہوئی بحث کے پوائنٹ دوہراتے رہے تو چیف جسٹس نے انہیں بیٹھ جانے کو کہا، آج جب  ایس کے جین نے بحث شروع کی اور عدالت نے انہیں ایک گھنٹے میں بحث مکمل کرنے کے احکامات جاری کئے اس پر ایڈوکیٹ جین نے کہا کہ عدالت انہیں بیس بیس اوروں کے میچ کھیلنے پر مجبو رکررہی ہے جس پر چیف جسٹس آگ بگولہ ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ عدالت کے روبرو انہوں نے ساڑھے چار دن بحث کی تھی نیز ان کا یہ بیان کل کے اخبار کی زینت بنے گا کہ عدالت انہیں وقت نہیں دے رہی ہے جس پر انہوں چیف جسٹس سے معذرت کرلی۔ایڈوکیٹ ایس کے جین جب عدالت میں ان جانب سے داخل تحریرپر بحث پڑھ  رہے تھے جسٹس بوبڑے نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ آپ بحث کرو تاکہ ہم سمجھ سکیں لیکن آپ تب تک بحث نہیں کرسکتے جب تک ہم سمجھ  نا جائیں اور آپ کی بحث کو قبول نہ کرلیں؟۔جسٹس بوبڑے ایڈوکیٹ جین سے یہ کہنا چاہے رہے تھے کہ وہ بحث جلد از جلد مکمل کریں تاکہ ڈاکٹر راجیو دھون سو ٹ پر بحث شروع کرسکیں۔ایڈوکیٹ جین کی بحث کے بعد سینئر ایڈوکیٹ پی این مشراء نے بحث شروع کی اور اسکند پران اور دیگر دستاویزات عدالت میں پیش کرکے بحث جیسے ہی شروع کی ڈاکٹر راجیو دھو ن نے اعتراض کیا اور چیف جسٹس کو بتایا کہ فریق مخالف کے وکلاء ان کی بحث کا جواب دینے کی بجا ئے نئے پوائنٹ عدالت میں پیش کررہے ہیں
، ڈاکٹر دھون کے اعتراض کو چیف جسٹس نے قبول کرتے ہوئے ایڈوکیٹ پی این مشراء کو کہا کہ وہ ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث کا جواب دے سکتے ہیں، نئے پوائنٹ عدالت میں پیش کرنے کی انہیں اجازت نہیں دی جائے گی۔ایڈوکیٹ پی این مشراء نے جیسے ہی رام سیتو کی مثال دینے کی کوشش کی ڈاکٹر دھون نے اعتراض کیا جس پر چیف جسٹس نے پی این مشراء کو کہا کہ عدالت آج بابری مسجد مقد مہ کی سماعت کررہی ہے اور اس میں رام سیتو کا کوئی تذکرہ نہیں ہے نیز ان کی جانب سے داخل کی جانے والی ہندی لغت ریکارڈ پر نہیں لی جاسکتی کیونکہ اسے ہائی کورٹ میں داخل نہیں کیا گیا تھا البتہ اسلامی لغت ریکارڈ کا حصہ ہے جس  کا عدالت حسب ضرورت استعمال کرے گی۔پی این مشراء نے کہا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے لہذا انہیں نئے دستاویزات داخل کرنے کی اجازت ملنی چاہئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ کی سماعت دو رکنی بینچ کے ذریعہ کی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پانچ رکنی اسپیشل بینچ تشکیل دی ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون کے اعتراض کے بعد چیف جسٹس نے پی این مشراء کو بیٹھ جانے کو کہا اور پھر بیس منٹ کے لیئے نرموہی اکھاڑہ کے وکیل ایس کے جین کو دوبارہ بحث کرنے کی اجازت دی جس کے بعد انہوں نے عدالت کو بتایا کی 1949 میں مورتی اندر رکھے جانے کے بعد حکومت نے پراپرٹی اپنے قبضہ میں لے لی تھی جب تک متذکرہ اراضی پر ان کا قبضہ تھا۔اسی درمیان ایس کے جین کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے، کل عدالت میں ڈاکٹرراجیو دھون سوٹ نمبر 4 پر اپنی بحث کا آغاز کریں گے جو مسلمانوں کی جانب سے حق ملکیت کے لیئے داخل کیا گیا تھا۔ووران کارروائی عدالت میں ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ شاہد ندیم،ایڈوکیٹ گوتم پربھاکر، ایڈوکیٹ کنور ادیتیا، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا و دیگر موجود تھے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×