احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ مسجدکے اندرونی صحن میں کبھی پوجا نہیں ہوئی

نئی دہلی 24/ستمبر (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج 30واں دن تھا جس کے دوران ڈاکٹر راجیو دھون نے سوٹ نمبر،1,3 اور 5پر گذشتہ 16 دنوں سے جاری اپنی بحث کا اختتام کرنے سے قبل عدالت کو بتایا کہ 16/جنوری 1950میں گوپال وشارد نامی شخص کی جانب سے داخل کردہ سوٹ نمبر ۱ میں عرضی گزار نے مسجد کے اندرونی صحن میں جاکر عبادت کرنے کی اجازت طلب کی تھی کیونکہ اس کایقین تھا کہ بھگوان رام کا جنم مسجدکے اندرونی صحن میں ہواتھا، ڈاکٹرراجیودھون نے پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس بوبڑے، جسٹس چندچور، جسٹس بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کوبتایا کہ عرضی گزارکے وکیل نے 20 مسلمانوں کی جانب سے داخل کردہ 14حلف ناموں کو بنیادبناکر عدالت کو بتایا تھاکہ مسلمان خود مسجدکا قبضہ ہندؤوں کو دینا چاہتے ہیں کیونکہ ان کاماننا تھا کہ مسجد میں سوائے نمازجمعہ کے دیگرنمازیں ادانہیں کی جاتی تھیں۔ڈاکٹرراجیودھون نے عدالت کو بتایا کہ گربھ گرہ (مسجدکااندرونی صحن)کے اندرکبھی پوجانہیں ہوئی اور غلط طریقہ سے رکھی گئی مورتی پرحق کا دعویٰ نہیں ہوسکتا، ڈاکٹرراجیودھون نے 14حلف ناموں کے تعلق سے عدالت کو بتایاکہ ان علف ناموں کو الہ آباد ہائی کورٹ نے قبول کرنے سے انکارکردیا تھا لہذا آج عدالت میں دوبارہ اس موضوع پر بحث کی جارہی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت کو مزید بتایاکہ عرضی گزارنے پٹیشن ذاتی طورپر داخل کی تھی اس کا حق ملکیت کے تعلق سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اسے صرف پوجاپرارتھنا کی اجازت مطلوب تھی نیز عرضی گزارنے عرض داشت میں نہیں بتایا کہ رام کا جنم کہا ں ہواتھا؟ ڈاکٹر دھون نے عدالت کومزید بتایا کہ 14/جنوری 1950کو جب عرضی گزارکو مسجد کے اندرجاکر عبادت کرنے سے روکاگیا تب اس نے عرض داشت داخل کی تھی نیز عرض داشت ضلعی انتظامیہ کے خلاف داخل کی گئی تھی جنہوں نے اسے مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ڈاکٹرراجیودھون نے عدالت کو بتایا کہ مسجد کا قبضہ ہندؤوں کو دینے والے حلف ناموں میں عبدالغنی، ولی محمد، محمد عمر،نعیم اللہ، لظیف،محمد حسین، عبدالستار، رمضان احمد، حوصلہ دار، عبدالشکور، عبدالجبار، عبدالجلیل،پیرواحمدودیگر شامل ہیں اور ان کی ہی جانب سے انہیں عدالت میں داخل کیا گیا تھا جسے الہ آبادہائی کورٹ کے جسٹس سدھیراگروال، اور جسٹس ایس یوخاں نے قبول کرنے سے انکارکردیا تھا اورجسٹس شرمانے اسے جزوی طورپر قبول کیا تھا، ڈاکٹردھون نے عدالت کو بتایا کہ گوپال وشارد کا انتقال ہوچکاہے لہذااب اس کے بعد کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کی جانب سے عبادت کرنے کی اجازت طلب کر ے۔لہذاسوٹ نمبر ۱ کو خارج کردینا چاہئے کیونکہ گوپال وشارد کے انتقال کے بعداس کے لڑکے کو قائم مقام بنایا گیا جس نے متنازعہ مقام پر کبھی پوجاپرارتھنا کی ہی نہیں ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے آج عدالت میں سوٹ نمبر 1 پر بحث کرتے وقت 29 صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ بھی پیش کیا اور عدالت کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ سوٹ نمبر 1 کی اس پورے تنازعہ میں کوئی قا نونی حیثیت نہیں ہے لہذا اسے خارج کردینا چاہئے۔ڈاکٹر راجیو وھون نے عدالت کو بتایا کہ وہ دیگر مسلم فریقین کے وکلاء کی بحث کے بعد سوٹ نمبر 4 پر اپنی بحث کا آغاز کریں گے جس کی انہیں چیف جسٹس آف انڈیا نے اجازت دے دی۔راجیو دھون کی بحث کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے بحث کی اور عدالت کو بتایاکہ پرانے زمانے کی تاریخ اور ہندو مذہب کے وجودمیں آنے کے پس منظر میں لکھی گئی کتابیں رام چرتر مانس اور والمیکی رامائن میں بابری مسجد کے اندورنی صحن میں رام کے جنم ہونے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی نے تاریخی دستاویزات، گزیٹیئر اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں دوپہر کے سیشن میں پانچ رکنی آئینی بینچ کے سامنے بحث کی جس کے دوران جسٹس اشوک بھوشن نے ظفر یاب جیلانی سے کہا کہ عدالت منفی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی نیز جسٹس چندر چوڑ نے بھی ظفر یاب جیلانی سے کہا کہ اگر کسی کتاب میں رام کا جنم کہا ں ہواتھا یہ درج نہیں ہے توبھی اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ رام کا جنم ہوا ہی نہیں البتہ بحث اس بات پر ہوگی کہ رام کا جنم کہاں ہوا تھا۔ظفر یاب جیلانی نے عدالت کو مزید بتایا کہ انیسویں صدی تک بابری مسجد کسی عام مسجد کی طرح ہی تھی لیکن رام کے جنم کا تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے بابری مسجد کی اہمیت بڑھ گئی نیز بابرنے خالی جگہ پر مسجد کی تعمیر کی تھی مندر منہدم کرکے مسجد کی تعمیر کئے جانے کاکوئی ثبوت عدالت میں اب تک پیش نہیں کیاجاسکاہے۔انہوں نے عدالت کو بتایاکہ 1949سے قبل مسجد کے درمیانی گنبدکے نیچے رام جنم پوجاکا کوئی وجودیا ثبوت نہیں ملتاہے اس پر جسٹس بوبڑے نے ان سے پوچھاکہ کیا آپ یہ ثبوت دیں گے کہ 1949سے پہلے وہاں بلاناغہ نمازہوتی تھی َ؟ اس پر ایڈوکیٹ جیلانی نے کہاکہ ثبوت زبانی ہے تحریری نہیں ہے انہوں نے راجہ نندچاریہ،رام بھداچاریہ،کا حوالہ دیا اور کہا کہ مانس پٹکامیں اودھ پوری کا ذکر ہے اور کسی جگہ نہیں، دوہاشتک کو مستردکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ کتاب تلسی داس کے ذریعہ لکھی گئی ہے، انہوں نے مزیدکہاکہ اسکندپران میں ایودھیاکھنڈمیں رام جنم استھان کولے کر رقبہ اور دوری کا ذکرہے لیکن اب وہ جگہ نہیں مل رہی ہے جس کا ذکر پران میں ہے انہوں نے کہا کہ 1886کے فیصلہ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ چبوترہ ہی جنم استھان ہے لیکن بعد میں ہندوفریق کی طرف سے اندرونی احاطہ اور گنبدپر دعویٰ کیا جانے لگا، تاریخی حوالہ سے انہوں نے کہا کہ سمترابھون، کوشلیابھون اور کیکئی بھون کا رام چرت مانس میں کوئی ذکرنہیں ہے اسی طرح راجہ ٹوڈرمل گوسوامی تلسی داس کے دوست تھے لیکن تلسی داس نے اس کا ذکر رام چرت مانس میں نہیں کیا ہے، ایڈوکیٹ جیلانی نے یہ بھی کہا کہ 1886میں ہی وہ مندربنانا چاہتے تھے لیکن عدالت نے اس کی اجازت نہیں دی، دوران کارروائی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×