احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ تمام متنازعہ جگہ رام کی جائے پیدائش نہیں ہوسکتی: ڈاکٹر راجیو دھون

نئی دہلی23/ستمبر: (پریس ریلیز) بابری مسجد معاملہ میں آج روزانہ کی بنیادپر کی جانے والی سماعت کا 29واں دن تھا جس کے دوران ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت کوبتایا کہ ہمیں رام اور اللہ دونوں کی عزت کرنی چاہئے،ہمارے اس عظیم ملک کی روایت رہی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے پیروکاروں کی اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اگرہم رام اور اللہ کی عزت نہیں کریں گے توہمارا ملک تباہ وبرباد ہوجائے گا۔ڈاکٹردھون نے پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس بوبڑے، جسٹس چندچور، جسٹس بھوشن اور عبدالنظیر شامل ہیں کو بتایاکہ رام کاجنم ایودھیامیں ہواتھا اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ رام کا جنم مسجد کے اندرونی حصہ میں  ہی ہواتھا کونکہ ہمیشہ سے ہندووں کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ رام کا جنم رام چبوترہ پرہواتھا جو باہری صحن میں واقع ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل تنازعہ تو رام کی پیدائش کے مقام کو لیکر ہے کہ وہ کہاں ہے؟انہوں نے کہا کہ پوری متتازعہ جگہ جائے پیدائش نہیں ہوسکتی جیساکہ ہندوفریق دعویٰ کرتے ہیں۔ ڈاکٹرراجیودھون نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ مسلمان یہ کہہ سکتاہے کہ باباآدم کے زمانے سے ان کا یقین ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر ایودھیامیں ہوئی تھی لیکن کیا یہ کہنے سے ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ نہیں بلکہ انہیں اس کے لئے عدالت میں ثبوت دینے ہوں گے اوراس معاملہ میں عدالت میں ہم نے ایسے ثبوت پیش کئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ شرعی طریقہ سے مسجد کی تعمیر کی گئی تھی،جسے  ہندوشرپسندوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر دن دہاڑے شہید کردیا تھا۔ ڈاکٹر دھون نے Juristic Personality    (قانونی شخصیت)پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ دوطرح کی  Juristic Personality ہوتی ہے (۱) عقیدہ   (۲) خودسے ظاہرہوجانا لیکن اس معاملہ میں ایسا نہیں ہوا بلکہ رات کے اندھیرے میں ایک سازش کے تحت رام چبوترے سے مورتی کو اٹھاکر مسجد کے اندررکھ دیا گیا اور اسے کہا گیا کہ رام پرکٹ ہوئے یعنی کہ وہ سیوئم بھؤ  ہیں۔ڈاکٹردھون نے کہا کہ 1989سے قبل  Juristic Personality (قانونی شخصیت)نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں لہذا اس کی کیا قانونی حیثیت ہوگی عدالت کو فیصلہ کرنا ہوگا، ڈاکٹر دھون نے      بتایا کہ دھرم شاسترمیں دوطرح کی   Juristic Personality  بتائی گئی ہے جبکہ اس کی تیسری قسم ایجاد ہے اور عدالت Juristic Personality کی تیسری قسم ایجاد نہیں کرسکتا ڈاکٹر دھون نے کہا کہ ویدک زمانہ میں دریاوں اور پیڑ پودوں کو خدامانا گیا تھا لیکن اس وقت بھی اس کو Juristic Personality(قانونی شخصیت)کا درجہ نہیں دیا گیاتھا ڈاکٹردھون نے Juristic Personalityکی قانونی حیثیت پربحث کے بعد پریکرمایعنی کہ طواف کے تعلق سے گواہوں کے بیانات میں تضادکو عدالت کے سامنے پیش کیا، ڈاکٹردھون نے کہا کہ متنازعہ عمارت کے اردگردپریکرمایعنی کہ طواف کئے جانے کے تعلق سے متعدد گواہوں نے گواہی دی  ہے لیکن ان کے بیانات میں تضادہے جس سے ان کی گواہی کی قانونی حیثیت مشکوک ہوجاتی ہے۔ڈاکٹر دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ شرعی اعتبارسے ایک مرتبہ مسجدکی تعمیر ہونے کے بعد وہ تاقیامت مسجد ہی رہتی ہے اس میں نمازاداکی جائے یانہیں نیز اس معاملہ میں ہمیشہ نمازاداکی جاتی رہی ہے، کبھی اسے چھوڑانہیں گیا لہذافریق مخالف کا Advers Possesion کا دعویٰ غیر واجبی ہے (یعنی کہ منفی قبضہ کا دعوی غیر آئینی ہے)کیونکہ تمام تر حالات کے باوجود مسلمانوں نے مسجد میں نماز ادا کرنا ترک نہیں کیاتھا۔انہوں نے کہا کہ مہنت رگھورداس نے خود ان کی جانب سے 1885 میں داخل کردہ سوٹ میں مسجد کے موجود ہونے کا اعتراف کیا ہے نیز اس تعلق سے آزاد گواہوں کی گواہیاں بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ڈاکٹردھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ  Juristic Personalityکی قانونی حیثیت طے کرنے سے پہلے زبانی و دستاویزاتی ثبوت وشواہد کو مدنظررکھنا ہوگا کیونکہ اس تعلق سے فریق مخالف کی طرف سے عدالت میں کوئی بھی پختہ ثبوت پیش نہیں کیا گیا Juristic Personality پر بحث  مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹرراجیودھون نے     Limitation   یعنی کہ مقررہ مدت میں داخل نہیں کئے گئے رام للاکے سوٹ کی قانونی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ مورتی (Deity)نے مقررہ مدت میں سوٹ داخل نہیں کیا بجائے اس کے ان کا دعویٰ ہے کہ وہ   مقررہ مدت کی پابندی سے مستثنی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ڈاکٹر راجیود ھون نے آ ج عدالت میں سوٹ نمبر 3 اور سوٹ نمبر 5 میں فریق مخالف کی جانب سے کی جانی والی بحث کامکمل اوربھرپور جواب دے رہے تھے جس کے دوران انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں شیعہ سینٹرل وقف بورڈ نے اپیل داخل کی ہے جس پر سماعت ہونا باقی ہے اس اپیل میں انہوں نے 1946 کے اس فیصلہ کو چیلنج کیا ہے جس میں عدالت نے بابری مسجد کو سنی مسجد قرارد یا تھا اور شیعہ وقف بورڈ کا دعوی خارج کردیا تھا، راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ کئی سالوں کی تاخیر کے بعد اپیل داخل کی گئی ہے جو مقررہ مقدت کے قانون یعنی کہ Limitation Act  کے ضابطوں کے خلاف ہے لہذا اس پر زیادہ بحث کرنے کی ضروررت نہیں ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے آج عدالتی کاررروائی کے اختتام پر فراق گورکھپوری کا شعر پڑھاکہ  سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراق ٭قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا،اور عدالت سے کہاکہ ہندوستان ایسے ہی نہیں ایک عظیم ملک بن گیا، بلکہ اس میں تمام اقوام کا تعاون شامل رہا ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت سے کہا کہ وہ کل سوٹ نمبر 1 پر بحث کریں گے کیونکہ سوٹ نمبر 3 اور سوٹ نمبر 5 میں وہ  فریق مخالف کی بحث کا جواب دے چکے ہیں نیز محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ، مسجد کی شرعی حیثیت اور دیگر امور پر ان کے ساتھی وکلاء ان کی بحث کے اختتام کے بعد بحث کریں گے۔آج عدالتی کارروائی صبح بارہ بجے شرو ع ہوکر شام سوا پانچ بجے تک چلتی رہی۔واضح ہوکہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف 15/نومبر 2010کو سب سے پہلے جمعیۃعلماء ہندکی جانب سے اپیل داخل کی گئی تھی اس کے بعد دیگر مسلم فریقین نے بھی اپیلیں داخل کیں، اپیل سماعت کے لئے قبول ہونے کہ بعد سے اب تک اس معاملہ میں 81سماعت ہوچکی ہے جبکہ موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی والی آئینی بینچ کے سامنے حتمی بحث کے 29دن مکمل ہوچکے ہیں جبکہ عدالت نے فریقین کو 18/اکتوبر تک اپنی بحث مکمل کرنے کہ احکامات دیئے ہیں۔دوران بحث عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×