احوال وطن

حق اور پیغام امن کو برادران وطن تک پہنچائیں: مولانا محمود مدنی

نئی دہلی:۱۲؍ستمبر (پریس ریلیز) جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس منتظمہ کا اہم اجلا س آج جمعیۃ کے صدر دفتر میں مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند کے زیر صدارت منعقدہوا، اجلا س میں ملک بھر سے جمعیۃ علماء ہند کے تقریبا دو ہزار اراکین ومشاہیر نے شرکت کی۔اس موقع پر قضیہ کشمیر ، مدارس دیینہ میں بنیادی عصری علوم ،دستور جمعیۃ میں ترمیم ،جمعیۃ سدبھائونا منچ،این آرسی اور مرکزی سرکار کی طرف سے ملکی سطح پر شہریوں کے رجسٹریشن جیسے اہم مسائل پر تجاویز منظو ر کی گئیں ۔
جمعیۃ علماء ہند کی سب سے بڑی جنرل باڈی نے قضیہ کشمیر سے متعلق موجودہ حالات کی روشنی میں ایک اہم تجویز منظور کی:یہ تجویز جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے پیش کی ، تجویز میں اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے واضح طور سے کہا گیا کہ کشمیر وطن عزیز ہندستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور کشمیر میں بسنے والے سبھی لوگ ہمارے ہم وطن ہندستانی ہیں، جمعیۃ علماء ہند ہمیشہ متحدہ ہندستان کی حامی رہی ہے اور ملک کی سلامتی اور وحدت اس کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ اس لیے وہ کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتی ، بلکہ اس طرح کی تحریکات کو نہ صرف ہندستان بلکہ خود کشمیریوں کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے ۔اسی کے ساتھ ہم کشمیری عوام کی آرزئوں ، خودداری اور تہذیبی شناخت کے تقاضوں سے ہرگز بے پروا نہیں ہیں ، ان کے جمہوری اور انسانی حقوق کی پاسبانی ہمارا قومی اور انسانی فریضہ ہے ، ہماری نظر میں کشمیر ی عوام کی فلاح و بہبو د ہندستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ تجویز میں زور دیاگیا کہ پڑوسی ملک اور دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ مظلوم اور مقہور کشمیری عوام دو چکیوں کے پاٹ کے درمیان بری طرح پس رہے ہیں ، دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، کشمیری عوام کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ اس صورت حال کو تبدیل کیا جائے جس کی وجہ سے صرف کشمیر ہی نہیںبلکہ پورے علاقے کا امن وامان خطرے میں ہے ، لہذا اس خطے میں امن امان کا قیام اور ایٹمی طاقتوں کے ٹکرائو اور بے پناہ جانی ومالی نقصان سے تحفظ کے لیے فوری طور پر پرامن اقدامات کرنا وقت کی آواز ہے۔نیز موجودہ حالات کے تناظر میں جمعیۃ علماء حکومت ہند سے اپیل کرتی ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے کشمیری عوام کی جان ومال کی حفاظت میں کوئی دریغ نہ کرے اور کشمیریوں کے دل جیت کر حالات کو معمول پر لانے کے لیے دستور کے مطابق ہر ممکن اقدامات کرے ۔
اس سلسلے میں پروگرام کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید قاری محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے پریس کانفرنس میں میڈیا سے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند 1951سے یہ با ت کہہ رہی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹو ٹ حصہ ہے۔ یہ ہماری جماعت کی خصوصیت ہے کہ ہم نے مذہب کی بنیاد پر تقسیم وطن کی مخالفت تھی ۔ ہم نے ہمیشہ اپنے وطن کی حفاظت اور اس کی سربلندی کے لیے کام کیا ہے ۔ پر یس کانفرنس میں مولانا نیاز احمد فاروقی اور کمال فاروقینے شرکت کی ۔
مجلس منتظمہ میں جماعتی احباب سے اپنے صدارتی خطاب میں مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری نے کہا کہ جمعیۃ علماء کی تجاویز مشعل را ہ ہوتی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ کچھ مہینوں کے بعد این آرپی ہونے والی ہے ، جماعت کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ وہ آدھار کارڈ ،راشن کارڈ ، ووٹر کارڈ وغیرہ میں ناموں کی اصلاح کرانے میں لوگوں کی مدد کریں ، ان کو سمجھائیں کہ اسپیلنگ کی غلطی ان کو پریشانی میں ڈال سکتی ہے ۔
دریں اثناء مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے جماعت کی کارگزاری پر مشتمل ایک سکریٹری رپورٹ بھی پیش کی ۔ اس موقع پر اکابر پر ہونے والے سیمینار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ ، حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولانا اسعد مدنی ؒ پر چوں کہ ماضی میں سیمینار ہو چکے ہیں، اس لیے ان اکابر پر ایک علیحدہ اجلاس منعقد کیا جائے گا ۔ انھوں نے اس موقع پر فدائے ملت مولانا اسعد مدنیؒ سابق صدر جمعیۃ علماء ہند کو یاد کیا اور کہا کہ مولانا اسعد مدنی ؒ کی علمی شخصیت مسلم تھی ، آپ نے بحیثیت استاذ دارالعلوم دیوبند تقریبا تیرہ سالوں تک تدریسی خدمات انجام دیں ، اپنے مکتوب میں خو د حضرت شیخ الاسلام ؒ نے ان کی تدریسی خدمات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔پھر شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ؒو دیگر اکابر کے مشورے سے خدمت خلق کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم کو منتخب کیا اور پھر پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمت خلق میں گزارا۔مولانا مدنی نے اس موقع پر جماعت کے لوگوں سے کہا کہ اگر اللہ کی نصرت چاہتے ہیں تو اسلام کے پیغام حق اور پیغام امن کو برادران وطن تک پہنچائیں اور خدمت خلق کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو جیتیں ۔
مجلس منتظمہ میں مدارس اسلامیہ سے متعلق ایک اہم تجویز میں موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مدنظر مدارس اسلامیہ سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے نظام تعلیم میں بنیادی عصری علوم کو شامل کریں اور اپنے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائے بغیر اپنے مکاتب میں پرائمری سطح سے اوپر مڈل اسکول تک کی تعلیم فراہم کریں اور مدارس و جامعات کے نظام تعلیم میں ہائر سکنڈری تک کی تعلیم کو یقینی بنائیں ۔
این آرسی کے متعلق تجویز میں آسام میں این آرسی کی حتمی فہرست شائع ہونے پر قلبی اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے زیر نگرانی اس عمل نے ان شرپسند عناصر کا ناطقہ بند کردیا ہے جو آسا م میں بنگلہ دیشی کے نام پر مسلم اقلیت کو ہراساں کرتے تھے۔ امید ہے کہ آسام میں لمبے عرصے سے جاری دراندازی کا قضیہ حل ہو گا اور لوگوں کو غیر ملکی ہونے کے نام پر ہراساں کرنے والے عناصر سے بھی نجات ملے گی ۔ اگلے سال ہونے وا لے این آرپی کے عمل سے متعلق خدشات کا ازالہ کرتے ہوئے تجویز میں کہاگیا یہ عمل ملک کے قانون کے مطابق ہے اور اسے ایک عام قومی سرگرمی کے طور پر دیکھانا چاہیے۔اس پس منظر میں یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ہم خود کو تیار کر یں ، بالخصوص ووٹر لسٹ، آدھار کارڈ ، پاسپورٹ، بینک کھاتے، راشن کھاتے وغیرہ میں اپنے ناموں کا صحیح اندراج ، اپنے اور اپنے والدین کے ناموں کی درست اسپیلنگ پر قومی سطح پر توجہ دیں۔
جمعیۃ سدبھائونا منچ سے متعلق تجویز میں تمام مقامی یونٹوں کو ہدایت دی گئی کہ جمعیۃعلماء ہند کے دستور کی دفعہ (۸) ’سماجی خدمات‘ کے تقاضوں کے مطابق و ہ اپنے اپنے دائرہ کار میں ’جمعیۃ سدبھائونا منچ‘ کی تشکیل کریں جس میں کم ازکم گیارہ ممبر ہوں جن میں نصف غیر مسلم افرا د ہوں۔ اس منچ میں جمعیۃ کے فعال (ایکٹو)ممبران اور بلالحاظ مذہب وملت مقامی ذمہ داروں کو شامل کیا جائے۔ منچ ہر ماہ میٹنگ منعقد کرے جس میں برادران وطن کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور دفعہ (۸) متعلقہ ہدایات کے مطابق مشترک عملی اقدامات کیے جائیں ۔ اس کے تحت کل چھ ا مور کی نشاندہی کئی گئی ہے بالخصوص (۶) حساس مذہبی مسئلوں میں ( مثلاً گئو کشی ، عبادت گاہوں میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال ، مذہبی تہواروں نیز عبادات کے لیے عوامی مقامات کا استعمال جیسے مسائل) باہمی گفت و شنید سے پر امن حل نکالنا ۔
اس کے علاوہ مولانا محمود مدنی نے دستور کی چند شقوں میں ترمیم سے متعلق کمیٹی کی سفارشات پڑھ کرسنایا جن کو منظور کیا گیا ۔
دوسری نشست بعد نماز مغرب شروع ہوئی جو دیر رات تک جاری ہے ۔ اس میں یو اے اپی اے ایکٹ ترمیمات 2019اور ملک میں بڑھ رہی مذہبی شدت پسند ی کے ایجنڈے پر بات ہورہی ہے ۔
صبح کی مجلس نو بجے صدر جمعیۃ علماء ہند کے ہاتھوں پرچم کشائی سے شرو ع ہوئی۔ تحریک صدارت مولانا متین الحق اسامہ کانپوری نے پیش کی جس کی تائید قاری شوکت علی ویٹ و تمام ریاستی صدور و نظمائے اعلی نے پیش کی ، سابقہ کارروائی کی خواندگی مفتی سید محمد عفان منصورپوری نے کی۔ اجلاس کی نشست اول میں جن دیگر حضرات نے تجاویز پیش کی ان کے نام حسب ذیل ہیں :مولانا صدیق اللہ چودھری ، مولانا نیاز احمد فاروقی ، کمال فاروقی ، مولانا سلمان بجنوری دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالقادر آسام، مولانا حکیم الدین قاسمی ۔اس موقع پر مولانا امان اللہ قاسمی نائب صدر جمعیۃ علماء ہند ، مفتی محمد سلمان منصورپوری سمیت جماعت کے کئی اہم عہدیداران اسٹیج پر موجود تھے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×