احوال وطن

جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ، کا ہنگامی اجلاس

’ریویو پٹیشن‘پر جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا پینل کرے گا فیصلہ

نئی دہلی15/نومبر:  (پریس ریلیز)بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا جائزہ لینے کے لئے آج مرکزی دفترجمعیۃعلماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی اجلاس زیر صدارت مولانا سید ارشد مدنی منعقد ہوا، اجلاس مجلس عاملہ کی کارروائی کا آغاز ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔اس اہم اجلاس میں ممبران نے سپریم  کورٹ کے حالیہ فیصلے کی تمام شقوں  پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔مجلس عاملہ کی نظر میں بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے، اس لئے کہ کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل پرمسجد سے دستبردارہوجائے۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کے خلاف ایک پینل تشکیل ہو جو وکلاء اور ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ  ریویو پٹیشن داخل کی جائے یا نہیں۔چنانچہ مولانا سید ارشد مدنی،مولانا حبیب الرحمٰن قاسمی، مولانا سید اسجد مدنی، فضل الرحمٰن قاسمی او ر ایڈوکیٹ اعجاز مقبول پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا گیا۔پینل مستقل وکلاء اور ماہرین قانون کے ساتھ تبادلہئ خیال کررہا ہے۔مجلس عاملہ نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے  جیسا کہ خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا ہے۔اسی بنیاد پرجمعیۃ علماء ہند کا روز اول سے بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں یہ موقف رہا ہے کہ ثبوت و شواہد اور قانون کی بنیاد پر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا اسے ہم تسلیم کریں گے۔خود سپریم کورٹ نے متعدد بار کہا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ صرف ملکیت کا  ہے نہ کہ آستھا کا۔اسی لئے جمعیۃ علماء ہندنے ملک کے ممتاز وکلاء کی خدمات حاصل کیں،ثبوت وشواہد اکٹھا کئے اور قدیم دستاویزات کے ترجمے کرواکر عدالت میں پیش کئے اور پوری مضبوطی سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی ملکیت کادعویٰ پیش کیا اور ہم اسی بنیاد پرپر امید تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگامگرجو فیصلہ آیا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ ان تمام حقائق اور شواہد کو نظر انداز کرکے آستھا کی بنیاد پر دیا گیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔ صدر جمعیۃ علماء ہندمولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا اور یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیوں کہ پانچ ججوں کی بینچ نے ایک طرف تو اپنے فیصلے میں کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنانے کا انکار کیا،بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے، پھر اسے توڑنے کو غلط ٹھہرا یا ہے اورجگہ انہیں لوگوں کودے دی جنہوں نے مسجد میں مورتی رکھی اور پھر مسجد کو شہید کردیاجس کی ہرگز امید نہ تھی۔مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے آزاد ہونے بعد جب دستور بنا اس وقت بھی وہاں مسجد تھی اور لوگ نماز بھی پڑھتے تھے۔انہوں نے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف نہیں بلکہ تصفیہ ہے۔یہ فیصلہ ہندوستان کے بڑے بڑے ہندو مسلم ماہرین قانون کو محوحیرت کردیا ہے۔صحافیوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوال کہ بابری مسجد کے عوض میں سپریم کورٹ نے 5/ایکڑ زمین مسلم فریق کو دی ہے کیا اس کو جمعیۃ علماء ہند قبول کرے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان زمین کا محتاج نہیں ہے ہمیں اسے قبول نہیں کرنا چاہئے اور سپریم کورٹ نے یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی ہے وقف بورڈ کو بھی زمین قبول نہیں کرنی چاہئے۔ ایک اور سوال کہ کیا جمعیۃ علماء ہند بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عالمی عدالت میں چیلنج کرے گی؟ اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمارا ہے اور ملک بھی ہمارا ہے اس لئے ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور عالمی عدالت میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو بھی کارروائی کی جائے گی وہ ملک کے اندر قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے گی۔میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں پر ہمیشہ سے یہ کلنک  اورداغ لگا ہوا تھا کہ بابر نے مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرائی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ میں یہ تبصرہ کہ’مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی‘ یہ کلنک اور داغ بھی مسلمانوں کی پیشانی سے دھل گیا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ثبوت و شواہد کا اپنے فیصلے میں ذکر کیا ہے لیکن فیصلہ اس کے برخلاف دیا ہے۔سپریم کورت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ مسجد 1528 میں بابر کے زمانے میں بنی تھی اور 1934 میں فرقہ وارانہ فساد میں کچھ حصے کو نقصان پہنچاتھا، جس کواس وقت کی گورنمنٹ نے ہندوؤ ں پر ٹیکس لگا کر مرمت کروائی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس بات بھی کو تسلیم کیاہے کہ 22 اور23  دسمبر 1949کی درمیانی رات میں کچھ لوگوں نے دیوار پھاند کررام للاکی مورتی کو مسجد کے اندر درمیانی گنبد کے نیچے رکھ دیا تھا۔6دسمبر 1992کوسپریم کورٹ کو یوپی گورنمنٹ نے بابری مسجد کے حفاظت کی ذمہ داری کا حلف نامہ دیا تھاسپریم کورٹ کے آرڈر کے خلاف بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ انہدامی عمل غیر قانونی تھا،کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 1528 سے لیکر 22دسمبر 1949 تک مسلمانوں نے وہاں نماز پڑھی۔کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد آثار قدیمہ نے جو کھدائی کی تھی اور بابری مسجد کے نیچے سے جو ملبہ ملا تھا وہ غیر اسلامی تھا لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابری مسجد کسی مند ر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ کی مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے مسجد کے وجود کو تسلیم کیا،اس کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا، اس میں نماز پڑھنے کو تسلیم کیا،کسی مندر کو گراکر مسجد بنانے کا انکار کیا ہے،لیکن ان تمام ٹھوس ثبوت و شواہد کو تسلیم کرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ نے پوری زمین رام للا کو دے دی۔ا س لئے مذکورہ حقائق کے بعد بھی یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔مزید برآں اگر مسجد کی جگہ مسلمانوں کی ملکیت ہی نہیں تھی تو 5 /ایکڑ زمین کا دیا جانا کس چیز کا معاوضہ ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ خود کسی نہ کسی درجے میں ملکیت بھی تسلیم کرر ہا ہے۔خیال رہے کہ 1949 میں جس وقت جبرا مورتی رکھی گئی تھی اس وقت دفعہ 145کے تحت کورٹ نے اس پراپرٹی کو اٹیچ کرکے ریسیور کے ماتحت کردیاتھا۔مولانا مدنی نے سوال اٹھا تے ہوا کہا کہ اگر 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید نہیں کی گئی ہوتی تو آج کیا سپریم کورٹ یہ ہدایت دیتا کہ مسجد کو شہید کردیا جائے اور زمین رام للا کودے دی جائے۔جہاں تک 5  / ایکڑ زمین کی بات ہے جمعیۃ علما ء ہند کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے اور وہ وقف علی اللہ ہوتی ہے اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے۔اس لئے کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی متباد ل پر مسجد سے دستبردار ہوجائے۔لہذا زمین لینے کا مطلب ہے کہ ہم مسجد سے دستبردار ہورہے ہیں جس کا ہمیں اختیار ہی نہیں ہے۔اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ مسجد کا انہدام غیر قانونی تھا تو جب بابری مسجد کی شہادت قانون کی خلاف ورزی تھی تو اس جرم میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی روزانہ کی سماعت کی  بنیاد پرجلد ازجلد فیصلہ ہونا چاہیے۔اجلاس مجلس عاملہ میں مرحومین خاص کرمفتی منظور احمد مظاہری قاضیٰ شہر کانپور کے انتقال پرملال پر رنج وغم کااظہاراور ان کے لئے دعاء مغفرت کی گئی، اس میں ایک تجویز منظورکی گئی اجلاس کی کارروائی صدرمحترم مدظلہ کی دعاء پر اختتام پزیرہوئی۔اجلاس میں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی،مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی، مولانا فضل الرحمن قاسمی،جناب گلزار احمد اعظمی، مولاناحلیم اللہ قاسمی علاوہ ہندوستان کے بڑے وکلاء اور دانشور ان بھی شریک  ہوئے۔                                                                                فضل الرحمن قاسمی  پریس سیکریٹری جمعیۃعلماء ہند

09891961134

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×