احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ نرموہی اکھاڑہ کے گواہوں کے بیانا ت میں کوئی صداقت نہیں

نئی دہلی 5/ ستمبر (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا آج بیسواں دن تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے کل کی اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بینچ کو بتایا کہ 1734ء سے نرموہی اکھاڑہ متنازعہ اراضی پر قابض یعنی کہ شبعیت ہونے کا دعو ی ٰکررہا ہے لیکن الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد انہوں نے اندرونی صحن پر بھی دعویٰ شروع کردیا جس پر ان کا کبھی قبضہ تھا ہی نہیں۔ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ 1734ء سے اپنی موجودگی کا دعویٰ کررہاہے، میں کہہ سکتاہوں کہ1855ء سے رام چبوترہ باہری آنگن میں ہے جسے رام جنم استھل کی حیثیت سے جانا جاتاہے، ڈاکٹردھون نے نرموہی اکھاڑہ کے گواہوں کے درج بیانات پر جرح کرتے ہوئے مہنت بھاسکرداس کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ مورتیوں کو متنازعہ ڈھانچہ میں رکھا گیا تھا ڈاکٹردھون نے بعدازاں مسٹرکے کے نائراور گرودت سنگھ ڈی ایم وسٹی مجسٹریٹ کی 1949کی تصاویر کوبھی عدالت کو دکھایا، آج ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت میں نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے سوٹ نمبر 3 میں دیئے گواہوں کے بیانات پڑھ کرعدالت میں سنائے اور اس میں موجود تضاد کی جانب عدالت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ کے گواہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ متنازعہ اراضی کے باہری صحن پر نرموہی اکھاڑہ کا قبضہ تھا اور رام چبوترا باہری صحن میں تھا جسے رام کا جنم استھان کہا جاتا ہے۔معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایا گواہ نمبر 18 نے جس کا نام اچاریہ مہنت بنسی دھر داس ہے نے دوران گواہی یہ قبول کیا تھا کہ اس نے ابتک 200 معاملوں میں گواہی دی ہے اور جھوٹ بولنے میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہے اس نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اگر کسی مندرکی زمین پر جبراًقبضہ کیاگیا ہوتو اس کیلئے اسے جھوٹ بولنے سے کوئی پرہیز نہیں ہے،گواہ نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ اسے پتہ نہیں رام جنم بھومی کس نے تعمیر کی تھی لیکن اس کی دیکھ ریکھ نرموہی اکھاڑہ گذشتہ 700 برسوں سے کر رہا ہے نیز میر باقی نے رام مندر کو منہدم کیا تھا لیکن اس نے بابری مسجد کی تعمیر نہیں کی تھی بلکہ اراضی کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔گواہ نے اپنی گواہی میں مزید بتایا تھا کہ مندر کی تعمیر نو گوند داس مہنت نرموہی اکھاڑہ نے بابر کے دور میں کرائی تھی۔گواہ نے دوران گواہی مزید کہا تھا کہ میر باقی نے رام مندر منہدم کیا تھا فقیر نامی شخص کے کہنے پر نہ کہ بابر کے حکم پر، متذکرہ گواہ کی گواہی پر ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ اس گواہ کی گواہی اور نرموہی اکھاڑہ کے دعوؤں میں تضاد ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے شری بھانو رپرتاب سنگھ کی گواہی بھی پڑھی جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ گواہی دینے کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور اس وقت حکومت نے اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور وہ سال 1949 تھا۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ 2004 میں اس گواہ کی گواہی عمل میں آئی تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ گواہ کی پیدائش 1934 میں ہوئی تھی اور 1949 میں اس کی عمر 15 سال رہی ہوگی جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اس گواہ کی گواہی میں صداقت نہیں ہے جس نے یہ کہا تھا کہ وہ نرموہی اکھاڑہ کو جانتا ہے اور وہی رام مندر کے متولی ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کے سامنے جگت گرو رمانند اچاریہ کی گواہی بھی پڑھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ والمیکی رامائن میں اس بات کا ذکر ہے کہ پورا ایودھیا رام کی جائے پیدائش ہے، کسی مخصوص جگہ کا ذکر نہیں ہے نیز گواہ نقشہ کی پہچان نہیں کرسکا تھا۔ڈاکٹر راجیو دھون نے آج عدالت میں نرموہی اکھاڑہ کے گواہان جس میں مہنت بھاسکر داس، شری راجا رام پانڈے، شری ستیہ نارائن ترپاٹھی، مہنت شیو سرن داس، شری رگھوناتھ پرساد پانڈے، شری سیتا رام یادو، مہنت رام جی داس، شیام سندر مشراء، شری رام آشرے یادو، شری پتیشوری دت پانڈے، شری بھانو پرتاب سنگھ، رام پانڈے، مہنت رام سبھاش شاستری، جگت گرو راما نند، نریندر بہادر سنگھ، شری شیو بھک سنگھ، شری ماتا بادل تیواری، شری اچاریہ مہنت بنسی دھر، شری رام ملن سنگھ، مہنت راجا رام چندر اچاریہ  کے بیانات پڑھ کرسناتے ہو ئے عدالت کو بتانے کی کوشش کی کہ ان گواہوں نے اپنی گواہی میں اعتراف کیا ہے کہ باہری صحن میں رام چبوترا تھا اور نرموہی اکھاڑہ کے پاس اس کے انتظامی امور کی ذمہ داری تھی۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ 1949 میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور سٹی مجسٹرٹ کے کے نائر اور گرودت کی موجودگی میں مورتیوں کو باہری صحن سے اندرونی صحن میں منتقل کیا گیا اور بعد میں یہ دعوی کیا گیا کہ رام پرکٹ ہوئے حالانکہ گواہوں کی گواہی سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ مورتی پہلے باہر ی صحن میں ہی تھی۔اس پر ڈاکٹر راجیو دھون سے جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا کہ آپ یہ قبول کررہے ہو کہ نرموہی اکھاڑہ کے پاس باہری صحن کے انتظامی امور تھے اور وہ شبیعت تھے جس پر ڈاکٹر راجیو دھو ن نے کہا کہ عدالت کو اس تعلق سے آنے والے دنوں میں بتائیں گے فی الحال وہ عدالت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نرموہی اکھاڑہ کے ذریعہ گواہی کے لئے پیش کئے گئے گواہوں نے خود نرموہی اکھاڑہ کے دعوؤں کو کمزور کردیا ہے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس معاملے میں نرموہی اکھاڑہ کا رول نہایت محدودہے لیکن آج وہ مکمل اراضی پر دعویٰ پیش کررہے ہیں جو خود ان کے ماضی کے دعوؤں کے برعکس ہے نیز اس سے قبل حکومت کی جانب سے متنازعہ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لینے کے بعد نرموہی اکھاڑہ نے حکومت کے خلاف مقدمہ داخل کیا تھا۔بینچ کی جانب سے لیمیٹیشن یعنی کہ مقررہ مدت میں نرموہی اکھاڑہ کے ذریعہ داخل کئے گئے سوٹ کے سوال پرڈاکٹرراجیودھون نے کہا کہ وہ عدالت کو اس تعلق سے تفصیل سے جواب دیں گے، نیز ڈائٹی(Deity) یعنی کہ مورتی کی قانونی حیثیت پر وہ اگلی سماعت پر بحث کرکے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔آج دن بھر ڈاکٹر راجیو دھون نے نرموہی اکھاڑہ کی قانونی حیثیت اور وقت کے ساتھ بدلتے ان کے دعوؤں پر بحث کی اور عدالت میں ماضی کے فیصلوں کی خواندگی بھی کی، آج ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی 11 ستمبر تک ملتوی کردی دوران کارروائی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے ڈاکٹر راجیودھون کی طرف سے بابری مسجد کے حق میں کی جانے والی اب تک کی بحث پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے ہماراموقف بہت مضبوطی کے ساتھ رکھ رہے ہیں اور ہمارے دعویٰ کے حق میں ثبوت وشواہد بھی پیش کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اپنی بحث کے دوران ڈاکٹرراجیودھون ہندوفریق کے وکلاء کی مسلسل سولہ روزتک چلی بحث کا ایک ایک کرکے جواب بھی دے رہے ہیں اور ان کے بیانات اور دعوؤں کے تضادات کی نشاندہی بھی بھرپورطریقہ سے کررہے ہیں۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے صدر جمعیۃعلماء مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر 30/ ستمبر2010ء/ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا(10866-10867/2010 سول اپیل نمبر) خیال رہے کہ23/ دسمبر 1949؁ء کی شب میں بابری مسجد میں مبینہ طور پر رام للا کے ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ 145/ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیراحمدفیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجہاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھااسی فیصلہ کے خلاف مرحوم حافظ محمد صدیق سابق جنرل سکریٹری جمعیۃعلماء اترپردیش نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی،جس کا نمبر 10866-10867/2010ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×