سیاسی و سماجی

انسانی خدمت کیا ہوتی ہے ،یہ مولانا مدنی نے بتادیا

عام طورپر انسان اپنے اور اپنوں کے لیے زندگی جیتاہے لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے جینے کو دوسروں کے لئے جینے پر ترجیح دیتے ہیں یہ وہ عظیم شخصیتیں ہوتی ہیں انسانی خدمت جن کا شعاراور مصیبت زدہ لوگوں کے کام آنا جن کا کرداربن جاتاہے ، امیر مینائی نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے کہ
خنجرچلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر ـؔ
سارے جہاں کا دردہمارے جگرمیں ہے
یہ جو لوگ سارے جہاں کا درداپنے سینے میں رکھتے ہیں درحقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جو مذہب ،مسلک قوم، نسل اور برادری سے اوپر اٹھ کر لوگوں کا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگ کمیاب ضرورکہے جاسکتے ہیں لیکن انسانی تاریخ ایسے لوگوں کے کارناموں سے خالی نہیں ہے ہر دورمیں ایسے لوگوں کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے اوراللہ اپنی مخلوق سے کیونکربے نیاز ہوسکتاہے ؟، اپنے روزمرہ کے مشاہدہ میں ہم پاتے ہیں کہ معاشرہ میں ہرطرح کے لوگ ہوتے ہیں کچھ اچھے توکچھ برے ، کچھ لوگ اپنی ذات تک محدودہوتے ہیں اور کچھ ایسے جو دوسروں کے کام آنااپنی معراج سمجھتے ہیں ، ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگرہمارے معاشرے میں یہ چندلوگ بھی نہ ہوںتو دکھوں کے مارے اورمعاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ کیا کرتے انہیں کہاں پناہ ملتی ، ان کے دکھوں کا بوجھ کون بانٹتااوروہ اپنا دردکہنے کس کے پاس جاتے ؟، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کا جو نظام مقررکیا ہے یہ چندلوگ اس نظام کا حصہ ہیں ، اور ان لوگوں کے ذریعہ ہی اللہ اپنے بندوں کی دادرسی کرتاہے ،
وطن عزیزمیں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو انسانی جذبہ سے شرشارہوکر دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں ،ان میں جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کی ذات سب سے نمایاں اور سرفہرست ہے ان کی سرپرستی اور نگرانی میں جمعیۃعلماء ہند ایک ایسی تنظیم بن چکی ہے جس کا تذکرہ اب عالمی سطح پر بھی ہورہا ہے ،یہ ایک خالص مذہبی تنظیم ہے اس نے اپنے قیام کے شاندارسوبرس بھی مکمل کرلیے ہیں، ملک کی جدوجہد آزادی میں اس کے کارنامے ہماری تاریخ کا روشن حصہ ہیں یہ ان علماء کا ایک متحدہ پلیٹ فارم تھا جو حریت وآزادی کے جذبوں سے شرشارتھے اورملک کوغلامی کی زنجیروں سے آزادکرانے کے لئے ہرطرح کی قربانی دینے کو تیارتھے اور انہوں نے یہ قربانی دی بھی اورجب ملک آزادہواتوتمام علماء نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہمارامشن پوراہوچکاہے اور چونکہ ہماراکام سیاست کرنا نہیں ہے اس لئے اب ہم جمعیۃعلماء ہند کے پلیٹ فارم سے دین کی خدمت کریںگے اور مذہب ومسلک سے بلند ہوکر انسانی خدمت انجام دیںگے تب سے یہ تنظیم اپنے اسی منشورپر قائم ودائم ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں کے دوران اس نے مختلف شعبوں میں جونمایاں خدمات انجام دی ہیں وہ نہ صرف قابل رشک ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں ، یہ تنظیم ایک طرف جہاں مسلمانوں میں اصلاحی سرگرمیاں چلارہی ہے وہیں ان کی تعلیمی ترقی کے لئے ہمہ وقت مصروف نظرآتی ہے دوسری طرف وہ ملک کے شہریوں کی سماجی ،آئینی اور جمہوری حقوق کو لیکر بھی ہر سطح پر قائدانہ کرداراداکررہی ہے ، پچھلے چند برسوں کے دوران دہشت گردی کے الزام میں بندبے قصورنوجوانوں کو قانونی امدادکی فراہمی’’آسام شہریت کے معاملہ کو لیکر طویل قانونی جدوجہدسپریم کورٹ میں بابری مسجد ملکیت مقدمہ میںفریق اول کی حیثیت سے قانونی چارہ جوئی ومسلسل جدوجہد جیسے امورپر جمعیۃعلماء ہند نے جو کچھ کیا اورکررہی ہے اس کی تفصیلات اخبارات میں مسلسل آتی رہتی ہے ، اسی طرح مفظرنگرفسادات میں بے گھرہوئے لوگوں کی بازآبادکاری کی جومہم وہ چلارہی ہے اس سے بھی ایک زمانہ واقف ہے ،۔
اہم بات یہ ہے کہ قدرتی آفات ہوںیاسیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں یا پھر دوسری نوعیت کی مصیبتیں جمعیۃعلماء ہند واحد ایسی ملی تنظیم ہے جو متاثرین کی مددکے لئے سب سے پہلے میدان عمل میں جاپہنچتی ہے ، جب آسام اور بہارمیں بھیانک سیلاب آیا تو اس تنظیم نے مذہب سے اوپر اٹھ کر وہاں بچاؤ،راحت اور امدادکا کام کیا ، کیرالہ ملک کی ایک خوشحال ریاست ہے یہاں خواندگی کی شرح تقریبا صدفی صدہے ، مسلمانوں کی قابل قدرآبادی والی اس ریاست میں گزشتہ برس سیلاب کی شکل میں جو قیامت صغریٰ نازل ہوئی اس سے لاکھوں لوگ متاثرہوئے اور ہزارو ں کی تعدادمیں لوگ بے گھرہوگئے تھے ، متاثرین کو فوری امدادپہنچائی گئی ریاستی حکومت نے بھی ہر سطح پر مددفراہم کی ان میں جمعیۃعلماء ہند بھی شامل تھی ، رفتہ رفتہ زندگی معمول پر آگئی جن کے مکانات سیلاب کی نذرہوئے تھے ان میں سے بہت سے لوگوں نے کسی مددکے بغیر اپنے مکان کی ازسرنوتعمیربھی کرلی لیکن ایک بڑی تعدادایسے لوگوں کی تھی جو کسی مددکے بغیر ایسانہیں کرسکتے تھے ، یہ مزدورپیشہ لوگ تھے ۔مولانا مدنی کو جب اس صورت حال کا علم ہوا توانہوں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا اپنی ایک ٹیم کے ذریعہ سروے کرایا اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ ایسے کتنے لوگ ہیں جو گھروں سے اب تک محروم ہیں ، چنانچہ ایک فہرست تیارہوئی اور اس کی بنیادپر وہاں ایک تعمیراتی منصوبہ تیارہوا ، پہلے مرحلہ میں 66مکانوں کی تعمیر کاکام شروع ہوا ان میں سے 40مکانات متاثرین کے حوالہ کئے جاچکے ہیں اور دیگر 26مکان تقریبا مکمل ہونے والے ہیں95ایسے مکانوں کی مرمت کا کام بھی پوراہوچکاہے جو سیلاب کے بعد رہنے کے لائق نہیں رہ گئے تھے ، نئے مکان کی تعمیر پر تقریبا چارلاکھ سے ساڑھے چار
لاکھ روپے اور مرمت پر نوے ہزارسے لیکر دولاکھ روپے تک صرف ہوئے ہیں .۔
گزشتہ 27؍اپریل کو کیرالہ کے کنورضلع میں اس کے لئے ایک بڑی تقریب کا انعقادہوا جس میں متاثرین کومولانا مدنی نے اپنے دست مبارک سے مکانوں کی چابیاں حوالہ کیں، یہ تقریب بھی متاثرین کے بے حد اصرارپر منعقد کی گئی تھی کیونکہ لوگ اپنے اس ہمدردکو ایک نظردیکھنا چاہتے تھے جس نے دھوپ اوربارش سے بچنے کے لئے ان کیلئے ایک چھت کا انتظام کیا تھا ، میں اس تاریخی موقع پر وہاں موجودتھا ، اس سے پہلے میں سیلاب متاثرہ تمام اضلاع کا دورہ بھی مکمل کرچکا تھا ، ملاپورم کے آس پاس کا علاقہ میدانی علاقہ ہیں لیکن کالی کٹ ، ویاناڈاور کنوراضلاع میں ہر طرف اونچے اونچے پہاڑہیں اوران پہاڑوں کے کے دامن میں جو خالی وادیاں ہیں ان میں چائے کے باغان ، کافی اور سپاری کے درخت ہیں ، انہی وادیوں میں وہ لوگ آبادہیں جو ان چائے باغان میں محنت مزدوری کرتے ہیں بارش میں جب سیلاب کاتیز پانی پہاڑوں سے نیچے اترکر ان وادیوں میں آیا تو گھروں کو ملبہ کا ڈھیربناگیا کئی جگہ مٹی کے تودے گرے جس میں پورے پورے مکان دب گئے ، زیادہ جانی اورمالی نقصان بھی انہی علاقوں میں ہوا حیرت کی بات تویہ ہے کہ ان وادیوں میں اوپر سے نیچے جانے کے لئے باقاعدہ کوئی راستہ نہیں ہے بلکہ پگڈنڈیاں ہیں ، نیچے اترنا قدرے آسان ہے مگروہاں سے اوپر آنا انتہائی تکلیف دہ ہے سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ، ایسی جگہوں پر مکانوں کی تعمیر اور تعمیراتی سازوسامان اوپر سے نیچے پہنچانا گویا جوئے شیرلانے جیساتھا مگر جمعیۃعلماء ہند کے ذمہ داروں اور رضاکاروں نے ایک فرض سمجھ کر یہ کام انجام دیا اور اس پورے عمل میں کوئی مذہبی تفریق نہیں برتی گئی مکان پانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی اور ہندوبھی بڑی تعدادمیں شامل ہیں ۔
میں ان متاثرین سے مل کر ان کے تاثرات جانناچاہتاتھا مگر پریشانی یہ تھی کہ وہ اردونہیں سمجھ پاتے تھے خیر سے مجھے ایک مترجم مل گئے جنہوں نے میری یہ پریشانی دورکردی ، ان متاثرین میں ساٹھ سالہ ایک بیوہ عیسائی خاتوں سروجنی بھی شامل تھی ، میں مترجم سے اس کی دکھ بھری کہانی سن چکاتھا ، اس کا بیٹا شوگرکا مریض ہے اس کی وجہ سے اس کے دونوں پیر بھی کٹ چکے ہیں اوراب وہ محنت مزدوری کرکے کسی طرح دووقت کی روٹی کاانتظام اور بیٹے کے علاج کا بندوبست کرتی ہے اس کا گھر سیلاب میں پوری طرح تباہ ہوچکاتھا ، میں نے جب اس سے گفتگوکرنی چاہی تو وہ بے ساختہ رونے لگی ، اللہ جانے یہ خوشی کے آنسوتھے یا غم کے لیکن میرے سوال پر اس نے سسکیوں کے درمیان بس اتناکہا کہ گاڈمدنی جی کو سلامت رکھے ہمیں دلاسہ دینے والے توبہت سے لوگ آئے مگر کام انہوں نے کیا انہوں نے اب ہمیں چھت مہیاکرادی ہے جس کے نیچے اپنے بیٹے کے ساتھ اب سکون سے رات گزارسکتی ہوں ، دوسرے متاثرین کے بھی یہی جذبات تھے ان سب کہناتھا کہ اگر جمعیۃعلماء ہند مدد نہ کرتی تو وہ اپنے گھر کی تعمیر نہیں کرواسکتے تھے ،۔
کسی کے آنسوپونچھ دینا بھی کسی عبادت سے کم نہیں ہے اور اسلام نے تو انسانیت کی خدمت کو دوسرے تمام امورپرفوقیت دی ہے ایک ایسے وقت میں کہ جب مذہب ، مسلک،قوم اور برادری کے نام پر لوگوں کو بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے مولانامدنی جیسے لوگ لوگوں کو جوڑنے کا کام کررہے ہیں ، انسانیت کے لئے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہی شاید اس پیرانہ سالی میں بھی انہیں جوان رکھے ہوئے ہے ، کنورکے وسیع وعریض ہال میں خطاب کرتے ہوئے جب انہوں نے یہ کہا کہ یہ اللہ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے وسائل مہیاکیا ورنہ میرے پاس کیا ہے میں ایک ہاتھ سے لیتاہوں اوردوسرے سے خرچ کردیتاہوں ،انہوں نے جب یہ کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کوئی کام ہندوومسلمان دیکھ کر نہیں کرتی بلکہ انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے توپوراہال دیر تک تالیوں سے گونجتارہا اپنے بزرگوں کی علمی وراثت کو سنبھالے ہوئے یہ درویش صفت انسان آج بھی زمین پر سوتاہے اور بہت سادہ زندگی گزارتاہے ، اور جب انسانیت کی خدمت کا جذبہ عظیم لیکر وہ باہر نکلتاہے تو غیب سے نہ جانے کتنے نظرنہ آنے والے ہاتھ اس کی مددکے لئے آگے آجاتے ہیں ،گویا اللہ کی تائید اورنصرت بھی اس کے ساتھ ہوجاتی ہے اورپھرہرمشکل کام اس کے لئے آسان ہوجاتاہے، ایک ایسے دورمیں کہ جب کچھ لوگ ایک انسان کو دوسرے انسان کے خون کا پیاسابنانے کو مذہبی فریضہ سمجھنے لگے ہیں مولانا مدنی کی ذات سراپا محبت بن کر انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کامیاب کوشش کررہی ہے ، اس روز گھروں کی چابیاں پانے کے بعد متاثرین کے چہروں پر انتہائی طمانیت اور مسرت کا احساس دیکھ کر لگا کہ جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ
کہہ رہے ہیں یہ خراشوں میں نہائے چہرے
گھاؤچومے نہیں جاتے ہیں بھرے جاتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×