احوال وطن

جامعہ ملیہ تشدد کے دوبرس مکمل؛ ظلم کے خلاف سب کو مل کر آواز اٹھانے کی ضرورت

نئی دہلی: 15؍دسمبر (عصرحاضر) جامعہ تشدد کے دو برس مکمل ہونے پر قومی دارالحکومت دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں متعدد سماجی کارکنان سمیت ان طلباء کے اہل خانہ بھی موجود رہے جنہیں جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔

دو برس قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد ہوا تھا جس میں جامعہ کیمپس میں داخل ہو کر دہلی پولیس نے طلبا پر لاٹھی چارج کیا تھا جس کا سی سی ٹی وی فوٹیج بھی بعد سامنے آیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد ہی شاہین باغ میں احتجاج کا آغاز ہوا تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر سُرخیوں میں جگہ بنائی تھی۔جامعہ تشدد کے دو برس مکمل ہونے پر پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں سماجی کارکنان سمیت ان طلباء کے اہل خانہ بھی موجود رہے جنہیں جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔اس موقع پر معروف قلم کار فرح نقوی نے کہا کہ 15 دسمبر کی رات کو جب معلوم ہوا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کو پیٹا جا رہا ہے تب ہم لوگ پولیس اسٹیشن پہنچے۔ ہم نے دیکھا کہ نیو فرینڈز کالونی میں ہی 116 بچوں کو اٹھایا گیا تھا۔ پولیس اسٹیشن کے باہر بچوں کے والدین پولیس کے سامنے گڑگڑا رہے تھے کہ ان کے بچوں کے بارے میں کوئی معلومات مل جائے۔فواز شاہین نے جامعہ تشدد سے متعلق کہا کہ جب جامعہ میں طلباء کے خلاف تشدد کیا گیا تبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ نے جامعہ کی حمایت میں ایک مارچ نکالنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں متعدد طلباء زخمی ہوئے تھے۔
اس دوران ایک کشمیری طالب علم جو اپنے کمرے میں تھا، اسے باہر نکال کر آر اے ایف نہ صرف پیٹا بلکہ اسے درخت سے باندھ دیا گیا تھا۔اس موقع پر معروف مصنف اروندھتی رائے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘پورا الیکشن کا سسٹم بدل دیا گیا ہے اور بڑے بڑے کاروباریوں کے اشارے پر سب کچھ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ہم سب کو مل کر فاشزم کے خلاف جنگ لڑنی ہے اب تک جامعہ کی لڑائی جامعہ کے طلبا، جے این یو کی لڑائی جے این یو کے طلاب اور کسانوں کی لڑائی کسان لڑتے آ رہے تھے لیکن اب ہم سب کو مل کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہے۔اروندھتی رائے نے مزید کہا کہ ‘تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر انتخابات میں شامل ہونا چاہیے اور جو پارٹی فاشزم کے خلاف اتحاد نہیں کرتی اس کا مطلب ہے کہ وہ جماعت بھی فاشزم کی ساتھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمر خالد، شرجیل امام، خرم پرویز جیسے تمام لوگ شدت پسند نہیں ہیں۔ جیسے حکمران جماعت نے زرعی قوانین واپس لیے ہیں ویسے ہی انہیں شہریت ترمیمی قانون بھی واپس لینا پڑے گا۔اروندھتی رائے نے مطالبہ کہ اب ملک ایسا قانون بنایا جانا چاہیے جس کے مطابق ایک شخص ایک ہی میعاد کے لیے ملک کا وزیراعظم بن سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×