سیاسی و سماجی

نظام الدین: مؤاخذہ انتظامیہ سے ہوناچاہئے نہ کہ مرکز سے!

اس وقت نیشنل میڈیاکی سب سے بڑی خبرمرکزنظام الدین ہے، کسی بھی چینل کوکھولئے، بس مرکز، مرکزاورمرکز، لاک ڈاؤن کے نتیجہ میںغذائی قلت کاجوعذاب مزدوروںاورمتوسط طبقہ کے لوگوںپرآیا، وہ اکدم سے اسکرین سے غائب، دوچاردن پہلے ہی کسی صاحب کامضمون نظرسے گزراکہ ابھی تک ملک میںکوروناوائرس سے مرنے والوںکی تعداد۲۷؍(آج ۳۱؍مارچ کو ۴۸؍کی تعدادنظرآئی)اورغدائی قلت کے سبب ۲۲؍کی موت ہوئی، دنوںکے تناسب سے اگر دیکھاجائے توکوروناسے کم اورلاک ڈاؤن کے نتیجہ میںزیادہ لوگوںکی موتیںہوئی ہیں۔
اس وقت میڈیاکااہم کام تویہ تھا کہ وہ حکومتوںتک غذائی قلت اوراس کی وجہ سے لوگ کس طرح پریشان ہیں؟یہ دکھاتے اورگاؤوں ودیہات تک اپنی لمبی لمبی گاڑیوںسے پہنچتے اورحکومتوںکی طرف سے اعلان کئے گئے پیکیجزکی جانچ کرتے کہ اب تک کن علاقوںتک وہ پہنچے؟ حقیقی مستحقین کو کہیںجان کے لالے تونہیںپڑے ہیں؟وغیرہ؛ لیکن میڈیاکرکیارہی ہے؟ بہت پہلے سے رویش کماریہ کہہ رہے ہیںکہ میڈیابک چکی ہے ، وہ اپنافرض بھول کرگودی میڈیابن چکی ہے، اس وقت عالمی وبائی مرض ’’کورونا‘‘سے جھونجھتے دیش نے میڈیاکے گودی ہونے کامشاہدہ اپنے سرکی آنکھوںسے دیکھ لیا۔
’’کورونا‘‘ایک وبائی مرض ہے، اس کی آہٹ کے کچھ دن بعدملک کولاک ڈاؤن کیاگیااوراس سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیراورگائڈلائنس حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے، تمام لوگوںکی طرف سے اس کاخیرمقدم کیاگیا؛ البتہ کچھ لوگوںنے اپنی تحاریرسے لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ہونے والے معاشی نقصانات کی طرف اشارہ بھی کیا؛ لیکن مجموعی طورپرسبھوںنے حکومت کے اس اعلان کونہ صرف یہ کہ مانا؛ بل کہ اپنے ماننے والوںکوان ہدایات پرعمل کرنے کی تلقین بھی کی، جوحکومت کی طرف جاری کئے گئے تھے، اس سلسلہ میں مذہبی رہنماؤوںنے بھی اچھارول اداکیااورکیوںنہ کرتے ؟ یہ کوروناہرایک کے لئے ہے، یہ نہ ہندوہے، نہ مسلمان، یہ نہ سکھ ہے، نہ عیسائی، یہ توبس ایک کوروناہے، جوبھی اس زدمیںآئے گا، وہ جان سے جائے گا۔
لیکن افسوس…صدافسوس…! گودی میڈیاپر، جو شروع ہی سے خالی الذہن عوام کی ذہنوںمیںیہ بات انجیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ مسلمان لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کررہے ہیںاوراگراس ملک میںکوروناکاقہربرپاہوگاتووہ انھیںکی وجہ سے ہوگا، مسموم ذہنوںکے حامل آئی ٹی سیل نے بھی سوشل میڈیامیںاس بات کوپھیلانے کی کوشش کی، اتفاق سے ایک دومسجدوںکی ایسی ویڈیووائرل ہوگئی، جہاںعبادت کرکے نکلتے ہوئے لوگوںپرپولیس کے ڈنڈے برستے نظرآئے، بس شوشہ ملنے کی دیرتھی کہ نزلہ تمام مسلمانوںپرگرنے لگا؛ حالاںکہ ایسی ویڈیوبھی گردش میںآئی ، جہاںمندرسے نکلتے ہوئے لوگوںپربھی پولیس کے ڈنڈے پڑتے دکھائی دئے؛ لیکن ملک کے شایدہی کسی چینل نے اس کوکورکیاہواورعفریتی چینلوںنے توبالکل بھی نہیں۔
میڈیاکاکام لوگوںکوبھڑکانانہیں؛ بل کہ نارمل رکھناہے؛ لیکن یہاںکی میڈیاکاکام عوام کوایک دووسرے سے دوررکھناہے، انھیںقریب نہ آنے دیناہے، ورنہ سیاست میںپھروہ گرماہٹ باقی نہیںرہے گی کہ ان میڈیا کے مالکوںکے اژدہے جیسے کھلے ہوئے جبڑوںمیںغذاتوکرم فرمانیتاؤوںکی طرف سے ڈالاجاتاہے، میڈیاکواپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی، ورنہ جس طرح یہ نفرت کے وائرس پھیلانے کاکام کرہی ہیں، وہ کوروناسے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں، دیکھئے نامرکزنظام الدین کوجس طرح ہائی لائٹ کیاگیاکہ جیسے یہی ملک کاسب سے بڑامسئلہ ہو، اس کانتیجہ یہ نکلا کہ بعض لیدسے پلیدذہنوںکے حاملین نے سوشل میڈیاپرمسلمانوںکے خلاف مہم چھیڑدی کہ ان کویہاںسے بھگاؤ، یہ سمجھتے ہیںکہ یہ ملک صرف ان کے باپ کاہے؛ حالاںکہ اس ملک کی میراث میںہمارابھی اتناہی نہیں؛ بل کہ ان سے زیادہ حق ہے، جتناان کاحق ہے کہ ہم نے اس ملک کو’’سونے کی چڑیا‘‘ بنایاتھا، انگریزوںکے خلاف سب سے پہلے ہمارافتوی آیاتھا، جتنی قربانیاںہم نے دی ہیںاس ملک کے لئے ، اس کاعشر عشیربھی انھوںنے نہیںدی ہے۔
آج مرکزنظام الدین پرلوگ طرح طرح کے سوال اٹھارہے ہیں؛ حالاںکہ سوال حکومت سے ہوناچاہئے تھا، یہ مرکزپوری دنیاکے لئے مرکز کی حیثیت رکھتاہے، یہاں پوری دنیاکے لوگ سال بھرآتے جاتے رہتے ہیں، جس وقت ملک کے اندربغیرمہلت دئے لاک ڈاؤن کااعلان کیاگیا، اس وقت بھی یہاںسیکڑوںلوگ روحانی غذا کے حصول کے لئے جمع تھے، اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان سیکڑوںلوگوںکوکیسے بھیجاجاتا؟ اوربھیج بھی دیاجاتا؛ لیکن یہاںتونہ ٹرینوںکی آمدورفت کاسلسلہ جاری ہے، اورناہی بسوںکا، تو ان کوبھیجاکیسے جاتا؟ پھرمرکزکے ترجمان محمداشرف کے بقول ہم لوگ انتظامیہ کے رابطہ میںتھے اوران سے انتظام کے لئے باربارکہہ رہے تھے؛ لیکن ابھی تک کسی قسم کاکوئی انتظام نہیںکیاجاسکا، یہ دواورچارلوگوںکامسئلہ نہیںتھا کہ جیسے تیسے ان کوباہرکردیاجاتا، سیکڑوںلوگوںکامسئلہ تھا، پھرحکم یہ ہے کہ جوجہاںہے، وہیںرکے، نہ آئے، نہ جائے، اس چکرمیں نہ جانے کتنوںکی ہڈیاںٹوٹیں، کتنوںکی پیٹھ پرڈنڈوںکے نشانات بنے اورتواورجان جانے کی بھی خبرموصول ہوئی ہے، ایسے میںمرکزکوذمہ دارٹھہرانے سے زیادہ حکومت کوذمہ دارٹھہراناچاہئے کہ اس نے لاک ڈاؤن سے قبل ۲۴؍۴۸؍یاپھر۷۲؍گھنٹے کی مہلت کیوںنہ دی کہ ملک کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے لوگ اپنے اپنے آشیانوںتک جاپہنچتے؟ میڈ یا کوچاہئے تھا کہ وہ حکومت سے سوال کرتی کہ اتنے کثیرآبادی والے ملک میںاکدم سے اس طرح کالاک ڈاؤن کرناکتنادرست ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ اس ملک کی میڈیانے مذہب کاچشمہ اپنی آنکھوںپرڈال رکھا ہے، ان کے پاس دوپیمانے ہیںدیکھنے کے، ایک کے لئے الگ پیمانہ اوردوسرے کے لئے الگ پیمانہ، اس کی کئی واضح مثالیںاس لاک ڈاؤن کے دوران دیکھنے کوملیں، لاک ڈاؤن کے فوراًبعداترپردیش کے سی ایم یوگی ادتیہ ناتھ جی اپنے لاؤلشکرکے ساتھ ایودھیاکاسفرکرتے ہیںاوروہاںپوجاپاٹ میںشریک ہوتے ہیں، کیایہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں؟ اورکیاان کے لاؤلشکرسے کورونا کے پھیلنے کاامکان نہیں؟ یاکوروناان کادوست ہے، جوانھیںسلام نمستے کرے گا، لاک ڈاؤن کے فوراً بعدمدھیہ پردیش کے سی ایم شیوراج سنگھ چوہان نے وہاںکی حلف برداری لی، جس میںسیکڑوںکامجمع تھا، کیایہ لاک ڈاؤن کے خلاف ورزی نہیںتھی؟ کیاوہاںجمع ہونے والی بھیڑ سے کوروناکے پھیلنے کاامکان نہیںتھا؟ یاکوروناان کابھی دوست ہے؟ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ کیاکورونا صرف مرکزکی بھیڑسے ہی پھیل سکتا ہے؟ دہلی کی سڑکوںپرامڈتی بھیڑ، راشن دکانوںپرجمع بھیڑ، سلم ایریازمیںجھگی جھونپڑیوںکی بھیڑ، بینکوںمیںلگی بھیڑ اورسبزی منڈیوںمیںلگی بھیڑسے نہیںپھیل سکتا؟ظاہرہے کہ ہرجگہ ڈسٹینسنگ کے حکم پرتوعمل نہیںہوتا، اس لئے مکمل طورپرمرکزکوموردالزام ٹھہرانابالکل بھی درست نہیں، جب کہ وہ وہا ںکے انتظامیہ کے ربط میںتھے۔
پھراس سلسلہ میںدہلی کے سی ایم کایہ کہناکہ اس پرایف آئی آردرج کرناچاہئے، ایک غیرذمہ دارانہ قول ہے، سی ایم صاحب سے سوال ہے کہ کیاآپ مرکزکے بارے میںنہیںجانتے؟ یقیناً جانتے ہوںگے، وہاںکی پوری کارکردگی سے واقفیت ہوگی اورہونی بھی چاہئے، لاک ڈاؤن کے بعدسب سے پہلے وہاںکارخ کرناچاہئے اوروہاںپر موجود لو گوںکونکالنے کی کوشش کرنی چاہئے، ایساکیوںنہیںکیا؟ گرفت سی ایم صاحب کی ہونی چاہئے، اتنابڑامرکزہے، پوری دنیا کے لوگ آتے جاتے ہیں، احتیاطی تدابیراختیارکرنے کے لئے سی ایم صاحب کوسب سے پہلے اس کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی، اورجب مرکز کی جانب سے اس سلسلہ میںبات کی گئی توبھی انتظامیہ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی ، مرکزگورنمنٹ نہیںہے، ان کے پاس لاک ڈاؤن کے بعدبھیجنے کے لئے اختیارات کہاںہیں؟ آپ گورنمنٹ ہیں، آپ کے پاس سارے اختیارات ہیں، پھرآپ نے اس کی طرف توجہ کیوںنہیںدی؟ مؤاخذہ توآپ سے ہوناچاہئے سراورایف آئی آرآپ کی انتظامیہ پرہوناچاہئے ، نہ کہ مرکزپراورمولاناسعدپر، اوریوگی جی وشیوراج جی بھی تو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے، انھیںکیوںچھوڑاجائے؟ میڈیااس پرکیوںخاموش رہی؟ ظاہرہے کہ وہاںچشمہ اجازت نہیںدے رہیاتھا کہ پیمانے توان کے پاس دوہیں نا!!jamiljh04@gamil.com/Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×