سیاسی و سماجی

طلاق ثلاثہ بل پاس۔۔۔ مسلمان کیا کریں؟؟

بالآخر طلاق ثلاثہ بل بنام ”شادی کے حقوق کا تحفظ بل “پاس ہوگیا اور اسے پاس ہونابھی تھا کیوں کہ؛حکومت وقت جس کے پاس ایوان زیریں میں ساڑھے تین سو کے قریب ممبران اور ایوان بالا میں نصف کے قریب ممبران ہیں جب اس نے اس کو پاس کرانے کی ٹھان ہی لی تھی تو اسے پاس کرانے سے کون روک سکتا تھانتیجے میں بل پاس ہوگیا؛لہذا آج سے یک لخت دی ہوئی تین طلاقیں ہندوستانی قانون کی رو سے ایک تو غیرنافذ ہوں گی اور دوسرے یہ کہ تین طلاقیں دفعتادینا قابل سزاجرم ہوگا جس کے نتیجے میں طلاق دینے والے شوہرکو تین سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتاہے۔اس سلسلے میں کی جانے والی مسلم پرسنل لابورڈکی ساری کوششیں،سارے جلسے اور مظاہرے،اویسی کی چیخ وپکاراوراس کے دلائل، اوردیگر پارٹیوں کی مخالفت صدابصحرا ثابت ہوئی اور آج سے ایک ساتھ تین طلاق دیناقابل سزاجرم بن گیا۔

اس بل کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ایک سول معاہدے کوغلط طریقے سے توڑدینے کو اتنابڑاجرم بنادیاگیاہے کہ اس کی سزا تین سال تک ہوگی؛ جب کہ اسی ملک میں زناکرنے اور ہم جنس پرستی کوقانونی جواز فراہم کردیاگیاہے۔دوسری بات یہ ہے کہ جس کمیونٹی کے لیے اس قانون کو بنایا گیا ہے اس کے اپنے مذہب کے ماہرین سے اس بل کے حوالے سے کوئی تفہیم وتفاہم سے کام نہیں لیاگیاجس سے یہ بات صاف پتہ چلتی ہے کہ اس کا مقصد قطعامسلم عورتوں سے ہمدردی نہیں بل کہ؛ مسلم نوجوانوں کو پابند سلاسل کرنااور مسلم عورتوں کودردرذلیل کرنااور مسلم گھرانوں کو تباہ وبرباد کرناہے اور اس کا سب سے بڑا پہلو یہ بھی نکل کر آتا ہے کہ شادی بیاہ کو اور مشکل بنا دیا جائے تاکہ زنا جس کو قانونی جواز حاصل ہے کو مسلم سوسائٹی میں بھی پذیرائی ہواور مسلم خاندان تباہ وبرباد ہوکررہ جائیں۔

خیر اب قانون تو بن ہی گیاہے، اور شایدملک کے مسلم قائدین ودانشوران اس کو عدالت عظمی میں چیلنج بھی کریں؛لیکن اگروہاں سے بھی اس بل کو منظوری مل گئی تو ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کریں؟تو اس کاجواب بس یہی ہے کہ مسلمان اپنے دین کا مزاج سمجھ کر اس کو کماحقہ اپنی زندگی میں نافذ کرلیں اور اس بات کو اپنے دل ودماغ میں راسخ کرلیں کہ ان کے لیے عزت کی زندگی اور قابل صدافتخار موت صرف اورصرف دین محمدی کو اپنی زندگیوں میں داخل کرلینے میں ہے۔ ان کے عزت وافتخار کے لیے سوائے ان کے دین کے کچھ نہیں ہے۔

میں مسلمانوں سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا دشمنان اسلام تمہارے ایک خداکی عبادت کرنے سے راضی ہیں؟ کیا تمہارے نماز پڑھنے اور تمہاری شاہکار مساجد اور عالیشان مدارس دیکھ ان کے سینوں پر سانپ نہیں لوٹتا؟کیاوہ تمہیں تمہارے اسلامی شعار کے ساتھ رہنے دینے کے لیے راضی ہیں؟ کیاوہ تمہارے قرآن کو پابندی کی زنجیرمیں جکڑدینا نہیں چاہتے؟ کیا وہ زبردستی بابری مسجد پر تسلط کرلینانہیں چاہتے؟ کیاوہ تمہارے ملک میں تمہیں دین سے برگشتہ کردینانہیں چاہتے؟ معاملہ واقعتا ایساہی ہے تو پھر ان سے وفا کی امید کیوں؟ ان کے درپر رحم وکرم کے سوالی بن کرکیوں جایاجائے؟

ایک طلاق ثلاثہ ہی ان کا مسئلہ نہیں ہے وہ تو اس کے ذریعے تمہارے دین میں دخل اندازی کرناچاہتے تھے جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔وہ اب تعدد ازواج پر قانون بنائیں گے۔وہ حلالہ پر قانون بنائیں گے۔ وہ یکساں سول کوڈ کو پاس کریں گے۔ وہ اور نہ جانے کیا کیا اسلام مخالف قوانین بنائیں گے اور تم تماشہ بینی کر نا!

جانتے ہواس میں غلطی کس کی ہے؟ یہ بات یقینی ہے کہ ان کے ارادے خراب ہیں لیکن ان ارادوں میں پختگی کس نے پیداکی؟ یقینا ہمارے اور تمہارے ظلم نے۔سب نے دیکھاہے لوگوں کو اپنی بیویوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ہوئے۔ کھانے میں صرف نمک تیز ہوگیااس پر تین طلاق۔ فون نہیں اٹھا اس پر تین طلاق۔ بیوی اپنے میکے ایک دن زیادہ رک گئی اس پر تین طلاق۔ گویا یہ طلاق نہ ہوکر کے کوئی مذاق ہو جو اسے جب چاہے جہاں چاہے چسپاں کردے۔نوبت بایں جارسید کہ بیوی نے صرف بیٹیاں پیدا کیں اس پر تین طلاق۔افسوس ہے اور صدافسوس کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نام لیوا صرف بیٹیوں کی پیدائش پر بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں۔کیا یہ ظلم وستم کی انتہانہیں؟؟

غلطی مسلمان مردوں کی ہے کہ وہ طلاق دیتے ہی کیوں ہیں اور اگر دینے کی واقعتا ضرورت ہو تواسلامی طریقہ طلاق کو اختیار کیوں نہیں کرتے؟ کیوں وہ طلاق حسن یا احسن نہیں دیتے؟ ہربات پر ہی تین طلاق ان کی زبانوں پر کیوں آجاتی ہے؟ضرورت تھی کہ اس کو روکا جائے اور ہر ممکن طریقے سے روکاجائے۔ اور یہ قانون یقینا ہمارے اسی ظلم کی ہمارے اوپر منجانب اللہ مار ہے۔لہذمسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے۔

اس ظالمانہ قانون سے بچنے کی فکر کرنے کے لیے صرف ایک کام کرنا ہے سب کو، علما کو، خطباء کواور تمام عوامی سطح پر کام کرنے والوں کو کہ وہ لوگوں کو بتلائیں کہ طلاق دینا کتنا غلط کام ہے۔اور نوبت دینے کی ہی آجائے تو طلاق احسن یاحسن دیں۔طلاق بدعت سے بچیں۔ اس ایک بدعت سے بچ جائیں تو اس قانون کے حوالے سے ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔بڑوں کا جو کام ہے وہ کرتے رہیں گے۔ ہم چھوٹوں کو چاہیے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے دین کی طرف از خود رجوع ہوجائیں ورنہ جس طرح بھیڑیا بکریوں کو ایک جٹ کرتاہے اور ایک جٹ ہونے تک میں کچھ بکریاں اس کا شکارہو جاتی ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی کچھ کا شکار کریں گے پھرسب یک جٹ ہوں گے اور شاید تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×