ریاست و ملک

اردو زبان کو فروغ دیجئے، مکاتب دینیہ اور اعلیٰ عصری تعلیم کے کوچنگ مراکز قائم کیجئے :مولانا شبلی القاسمی

پٹنہ: 9؍جنوری (عادل فریدی) مورخہ ۸؍جنوری۲۰۲۱ء؁روز جمعہ کو یکہتہ ، بلاک کھٹونہ، ضلع مدھوبنی میں حضرت مولانا مطیع الرحمن فلاحی صاحب گیدڑ گنج کی صدارت میں منعقد نقباء و نائبین نقباء امارت شرعیہ، علماء مدارس و ائمہ مساجد ، سماجی ، ملی اور تعلیمی کارکنان او ر دانشوروں کے ایک اہم اجتما ع سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام ناظم امارت شرعیہ جناب مولانا محمد شبلی القاسمی نے کہاکہ نئی نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے بنیادی دینی تعلیم کو عام کرنا بہت ضروری ہے ، ملک جس سمت میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، تعلیم کے بھگوا کرن کو حکومت نے اپنی ذمہ داری سمجھ لیا ہے، ان حالات میں مکاتب دینیہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کی ہدایت پر امارت شرعیہ آج گاؤں گاؤں میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کی جو تحریک چلا رہی ہے ، اس کی اہمیت کو جلد ہی آپ محسوس کریں گے کہ آج کے دور میں اپنے بچوں کو دین و شریعت کا علم سکھانا کتنا ضروری ہو گیا ہے ۔

انہوں نے گاؤں گاؤں میں مکاتب قائم کرنے اور دینی بنیادی تعلیم کو عام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی نسلوں کے دین کے تحفظ کے لیے مکاتب کی تعلیم سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ہے،خاص طور پر حکومت ہند نے نئی قومی تعلیمی پالیسی لا کر جس خاص مذہب میں اس ملک کے تمام بچے بچیوں کو رنگ دینے کی کوشش کی ہے ، اس تناظر میں دینی بنیادی تعلیم کے مکاتب کی اہمیت کا احساس ہر فکر مند با شعور ،ذمہ دار حضرات کو ہونا چاہئے ، ہر محلہ ، ہر گاؤں میں جہاں مسلمانوں کی چھوٹی آبادی ہو یا بڑی،دینی تعلیم کی فکر کرنی چاہئے ،مساجد کے ائمہ کرام سے تعلیمی خدمات لیں اور اس خدمت پران کی حوصلہ افزائی کریں ،بڑی آبادی ہے تو الگ سے معلمین بحال کریں ، امارت شرعیہ خود کفیل تعلیم کا جو نظام مرتب کیا ہے ، اس کے مطابق کام کو مہم کے طور پر آگے بڑھائیں ،اسی طرح آج اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ عصری علوم اور خاص طور پر سخت مقابلہ جاتی امتحان میں ہمارے بچے اور بچیاں کامیاب ہو ں ، اس کے لیے لازم ہے کہ ہر علاقہ میں اہل علم اور فکر مندحضرات آگے بڑھیں اور بچے اور بچیوں کے لیے با صلاحیت اساتذہ کی مدد سے کوچنگ سنٹر قائم کریں ۔ امیر شریعت مفکر اسلام حضر ت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے اب سے تیرہ سال پہلے ملک میں عصری تعلیم کو آسان بنانے اور اس راہ میںمسلم بچے اور بچیوں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب ہونے کے لیے رحمانی تھرٹی کا نظام قائم کیا ، یہ نظام کم وقت میں کامیاب بھی ہوا اور مقبول بھی ،اور مسلم بچے بچیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور انہیں کامیابی تیزی سے مل رہی ہے ، رحمانی تھرٹی کے طرز پر گرچہ پورے ملک میںسیکڑوں فکر منداور ملت کا درد رکھنے والے افراد نے عصری مقابلہ جاتی تعلیم کے لیے کوچنگ سنٹر کھولے ، لیکن ان کی تعداد آج بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے ،یہ تعداد بڑھنی چاہئے اور ہر علاقہ میں ، ہر بڑی مسلم آبادی میں کوچنگ سنٹر قائم ہو نا چاہئے ۔ اس کا فائدہ جہاں عصری تعلیم کے میدان میں کامیابی سے ملے گا ، وہیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اسلامی ماحول میں اچھے اخلاق و تربیت سے ہمارے بچے آراستہ ہوں گے اور کوچنگ سنٹر کے نام پر مسلم لڑکے اور لڑکیوں کی بے دینی کی جو شکایا ت ملتی ہیں ، اور بسا اوقات وہاں سے ارتداد کے شکار وہ بچے اور بچیاں ہو جاتے ہیں ، اس پر بھی بند لگے گا ۔مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ تیسری اہم بات مجھے یہ کرنی ہے کہ ہماری علمی وراثت اس ملک میں بڑی حد تک اردو زبان میں محفوظ ہے ،ارد و زبان و ادب کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام ہوا، بلکہ اس ملک کی تعمیر و ترقی ، اور اس ملک کی آزادی میں اردو زبان کا بڑا دخل رہا ہے ،اس زبان نے دلوں کو جوڑنے اور سماج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اب یہ زبان ایک خطہ اور ایک مذہب کی زبان نہیں رہ گئی بلکہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ، ریاست بہار میں اس زبان کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے ، لیکن اس کے با وجو داس کی خواندگی کی شرح تیزی سے گھٹ رہی ہے ، جس کے اسباب و عوامل اور وجوہات پر غور کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ جہاں حکومت میں بیٹھے اعلیٰ افسران کی عصبیت ہر دن اسکی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے ، اردو کو کمزور کرنے اور اس کے پڑھنے والوں کی تعداد کم کرنے اور اس کے جاننے والوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، وہیں کہیں نہ کہیں ہماری بھی کمیاں ہیں ، اورہم نے بھی بڑی حد تک ارد وزبان کے ساتھ نا انصافی کی ہے ، ہمارے بچے اور بچیاں اردو نہیں پڑھتے،ہمارے گھر والوں کی زبان اردو ہونی چاہئے، اردو لکھنے ، پڑھنے اور بولنے کا عام مزاج جوہو نا چاہئے، اس میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور نظر آرہی ہے ،اردو اخبار اور اردو کی کتابوں کامطالعہ کثرت سے ہونا چاہئے،اس لیے امارت شرعیہ کا تیسرا اہم پیغام یہ ہے کہ اردو زبا ن کی ترویج و اشاعت ، اس کے فروغ، اس کے پڑھنے ، پڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔چوتھی بات آپ حضرا ت سے یہ عرض کرنی ہے کہ اتحاد امت کی اس وقت بڑی ضرورت ہے ، اس ملت کا نقصان خارجی فتنوں کے مقابلہ میں اندرونی و داخلی اختلافات سے زیادہ ہو ا ہے ،اس وقت ہر خاندان ،ہر گاؤں اور ہر علاقہ مختلف ناموں پر انتشار کا شکار ہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ ایک امت ، ایک ملت ، ایک جماعت بن کر زندگی گزاریں ، اگر آپس میں کسی طرح کا کوئی تنازع کھڑا ہو جائے تو اسے معاف کرنے اور اسے اپنے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر حل کرنے اور زیادہ سے زیادہ دار القضائ امارت شرعیہ تک لانے کی کوشش کریں،آپ کے تمام جھگڑوں اور ملت کے تمام مسائل کا حل اللہ کی نازل کردہ کتاب قرآن کریم میں اور اللہ کے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں موجود ہے ، اپنے مسائل کا حل اپنی کتاب میں تلاش کیجئے،اپنے مسائل کورٹ کچہریوں، پولیس اور تھانے تک لے جا کر اپنی قوت، اپنی طاقت، اپنی دولت ، اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو ہر گز ضائع نہ ہونے دیجئے ۔ اس وقت امارت شرعیہ کے یہ چار نکاتی اہم پیغام ہیں ، ان چاروں باتوں کا ہر جگہ تذکرہ ہونا چاہئے ،اور اسے زمین پر اتارنے کے لیے فوری اقدام کرنا چاہئے، عمومی مجالس میں بھی اور نجی بیٹھکوں میں بھی حضرت امیرشریعت مد ظلہ کی ان چار ہدایات کا اتنا چرچہ ہوکہ لوگ ان کو اپنی ضرورت سمجھنے لگیں اور اسے اپنی زندگی میں اتاریں ۔

اس موقع سے معروف عالم دین حضرت مولانا ممتاز علی مظاہری ؒ کی یاد میں سہ ماہی مجلہ صدائے ممتاز کا بھی اجرا ء کیا گیا، اس مجلس میںبڑی تعداد میں موجود امارت شرعیہ کے نقباء، نائبین نقباء حضرات کو ان کی نقابت کی سند بھی تقسیم کی گئی اور ان سے عہد لیا گیا کہ ہم اپنے گاؤں ، سماج، پنچایت، بلاک اور ضلع کے مسائل کو مثبت اور تعمیری رخ دیں گے اور سماج کی تعمیر و ترقی ، ان کی دینی ، تعلیمی ، معاشی بہتری کے لیے فکر مندی سے کام لیں گے اور حضرت امیر شریعت کی ہدایات اور پیغامات پر مضبوطی سے عمل کریں گے اور اپنے اپنے گاؤں اور محلہ میں دینی بنیادی تعلیم کے مکاتب قائم کرنے کی تحریک چلائیں گے ،اور بڑی آبادیوں میں زیادہ سے زیادہ عصری تعلیم میں کامیابی کے لیے ماہر ،مخلص ، با صلاحیت اساتذہ کی مدد سے کوچنگ سنٹر قائم کریں گے ، اردو زبان کی تعلیم و ترقی کے لیے کوشاں رہیں گے اور اپنے نزاعات کا حل اپنے سماج ، معاشرہ اور کتاب اللہ سے نکالنے کی کوشش کریں گے ۔اس اجلاس میں کئی موقر علمائ، دانشوران اور سماجی و ملی کارکنان نے اظہار تاثر کرتے ہوئے امار ت شرعیہ کی اس چار نکاتی فکر کو وقت کی ضرورت بتایا اور حضرت امیر شریعت کی دو ر اندیشی ، ان کی بصیرت اور ان کے ذریعہ دیے گئے خاص طور پر ان چار احکامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ،اجلاس میں شرکت کرنے والوں میںمولانا منظور احمد شمسی صدر بلاک کھٹونہ، مفتی انوار احمد قاسمی سنگرام، مولانا مطیع الرحمن قاسمی پرنسپل مدرسہ رحمانیہ یکہتہ ، مولانا منت اللہ قاسمی باگھا کسمار، ازبق احمد علیگ مکھیا یکہتہ،مولانا احسان الحق قاسمی نقیب بیر پور پنچایت، مولوی محمد اعلیٰ صاحب نرھیا بازار، حافظ بشیر الدین صاحب یکہتہ،مولانا سعود عالم صاحب مجھوڑا، مولانا ہارون صاحب طوفان پور، مولانا ظل الرحمن ندوی طوفان پور، مولوی محی الدین مظاہری پرساہی، پروفیسر کاظم صاحب وغیرہ کے نام اہم ہیں ، اس موقع سے مدرسہ یعقوبیہ کے اساتذہ اور منتظمین ، خاص طور پر ادارہ کے سر براہ جناب مولانا مشتاق علی اور قاضی رضوان احمد صاحب نے اہم رول ادا کیا۔اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری امارت شرعیہ کے نائب ناظم جناب مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نے بہتر طریقہ سے انجام دی، جناب نائب ناظم امارت شرعیہ نے اتحاد امت ، اخوت و محبت کی اہمیت پر پر مغز خطاب کیا اور لوگوں سے امیر شریعت کی ہدایات پر عمل کرنے کا عہد لیا۔ آخر میں صدر مجلس کی دعا پر پروگرام کا انتخاب ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×