سیاسی و سماجی

ہندوستان برہمنیت کے نرغے میں

شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتاہے فلک اپنے جہاں کا”
سرزمین ہندوستان پر بسنے والے باخبر اور ہوش مند مسلمانو! اور نوجوان ساتھیو!
تمہاری قوم کی ایک بھٹکی ہوئی آواز تم سے عرض کرتی ہے، دیکھو! کیا عرض کرتی ہے؟
آزاد ہندوستان کی بہتر (72) سالہ تاریخ میں جو جھوٹ سب سے زیادہ بولے، لکھے، سنے اور سناۓ گئے، ان جھوٹوں میں دو جھوٹ سرفہرست ہیں، پہلا جھوٹ مسلمانوں کی آبادی سے تعلق رکھتا ہے، دوسرا مسلم بادشاہوں سے؛
مسلمانوں کی آبادی سے متعلق جو جھوٹ بولا گیا، جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے، وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت  Minority  میں ہیں، اور ہندو اکثریت Majority میں ہیں؛
اگر آپ نے ہندوستان کی تاریخ کا کچھ ورق بھی پڑھاہوگا تو اس روشن حقیقت سے ناواقف نہ ہونگے کہ ہمارے ملک میں ایک دو نہیں بلکہ متعدد مذاہب کے پیروکار بستےہیں، جنمیں مسلم، برہمن، سکھ، عیسائی، بدھشٹ، جین، پارسی، آدی واسی، یہودی، وغیرہ شامل ہیں، انکے علاہ ایک بڑا طبقہ دلتوں کا ہے، جو بہت سے مذاہب کی پچھڑی ہوئی نسلوں کا مجموعہ ہے، اور ایک طبقہ آزاد پرستوں یعنی لادینیوں کا بھی ہے،
اگر تمام مذاہب کا تناسب نکالا جاۓ، تو مسلمان بحیثیت ایک قوم اور ایک مذہب کے،آج ہندوستان میں سب سے بڑی تقریبا 30 کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ جب کبھی بھی، اور کہیں بھی اقلیت کا ذکر آتاہے تو ہمارے ذہنوں میں ہمارا یعنی مسلمانوں کا چہرا گردش کرنے لگتا ہے؟
اور کیا وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں مسلم اور غیر مسلم کی اصطلاح کے بجاۓ ہندو اور مسلمان کی اصطلاح چل رہی ہے؟ گویا ملک میں دو قومیں ہی ہیں ایک مسلمان دوسری ہندو، جبکہ حقیقت بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ دنیا میں نہ پہلے کبھی ہندو نام کا کوئی مذہب تھا، اور نہ ہی آج ہے، اسکی سب سے واضح اور موٹی دلیل یہ ہے کہ مہابھارت، گیتا، رماین، سے لیکر برہمنوں کی معمولی مذہبی کتاب اور عام دستاویز تک، کہیں بھی لفظ ہندو موجود نہیں، در اصل لفظ (ہند)  سنسکرت کا لفظ ہے ہی نہیں؛
پھر یہ ہندومت کی چال، اور ہندو مسلم کی تفریق کب اور کہاں سےآئی؟
اسکے لئے آپ کو ایک نظر آزادی کی تاریخ کے آخری باب پر ڈالنی ہوگی، جو باب، تقسیم ہند سے لیکر ہندوستان میں قانون سازی یعنی 1950ء تک کے چند برسوں پر مشتمل ہے؛
جب ہندوستان آزاد ہوا اور ساتھ ہی تقسیم بھی ہوگیا، تو اس وقت کے سیاست دانوں کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ یہ تھا کہ ہندوستان کا اقتدا کس کے ہاتھ میں ہو؟
چونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی الگ ہوچکی تھی، لہذا مسلمانوں کا تنہا ایک جمہوری ملک میں حکومت قائم کرنا آسان نہ تھا، ضرورت تھی کسی دوسرے گروہ کی، لہذا ہمارے سیاسی رہنما کانگریس کی پالیسیوں کو کچھ سمجھ کر اور کچھ بلا سمجھے اسکے ساتھ آگئے، اسلئے کہ اسکے علاوہ دوسرا کوئی چارۂ کار نہ تھا،
اور اس وقت ملک میں جو سیاسی نظریہ سب سے زیادہ اثر انگیز اور پالیسی زدہ تھا، وہ گاندھی اور گاندھی وادیوں کا نظریہ تھا، گاندھی چونکہ نسلا برہمن تھے، لہذا ہندوستان کو برہمنیت کی عیاری اور مکاری میں جکڑنے کا مکمل پلان تیار کیا،کہ ملک جمہوری بھی کہلاۓ،مسلمان بھی ہمارے ساتھ رہیں، اور ایک مخصوص قوم یعنی برہمنوں کا پنجۂ استبداد بھی قائم رہے، ان درپردہ اور نہایت دور رس سازش کے تحت گاندھی نے کار نامہ انجام دیا، جسمیں وہ برسوں سے منہمک تھے، اپنی سب سےبڑی چال چلتےہوۓ ملک کو دو سیاسی گروہ یعنی ہندو اور مسلمان میں تقسیم کردیا، یہاں تک کہ دلتوں کو باوجود ”بھیم راؤ امبیٹکر“ کے آواز اٹھانے کے الگ قوم کا خطاب نہیں دیا، بلکہ ضد پر اڑے رہے کہ وہ بھی ہندو ہیں، تاکہ ملک دو قوموں یعنی ہندو اور مسلم میں تقسیم ہوجاۓ، اور اس طرح مسلمان اقتدار میں آنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکیں، اور دیگر قومیں خود کو اکثریت میں شامل سمجھ کر، برہمنوں کےساتھ رہیں، تاکہ برہمن قوم آسانی کےساتھ ہندوستان کی مسند سے چپکی رہے، چنانچہ گاندھی کی اس خطرناک پالیسی کو سمجھنے کےلئے کسی تاریخی روایت کی ضرورت نہیں، ہندوستان کی ہر آنکھ نے دیکھا ہے کہ آزاد ہندوستان کی نصف صدی سے بھی زائد حصہ پر کتنی شان سے گاندھی وادیوں نے حکومت کی ہے،گاندھی کا نظریہ چونکہ عیارانہ اور مخفی تھا، گاندھی اور گاندھی وادی مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ہم اپنے ساتھ رکھیں، لیکن انہیں بڑھنے اور ترقی کے مواقع نہ فراہم کریں؛
چنانچہ کانگریس نے اپنے 65 سالہ اقتدار میں اسی نظریے کے تحت کام کیا اور سیکولرازم کا وہ ڈھونگ جو گاندھی نے رچا تھا اسے خوب ترقی بخشا؛
یہ تھی اقلیت اور اکثریت کی مختصر سی حقیقت، اور اس حقیقت میں چھپی ایک برہمن قوم کی عیاری جو ماضی اور گذشتہ سیاست سے وابستہ تھی؛
اب روۓ سخن دوسری جانب یعنی موجودہ سیاست کی جانب کرتے ہیں؛
اگر ہندوستان کی بیسویں صدی کے اوائل کی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آزادی کے وقت ملک میں گاندھی کے علاوہ ایک اور نظریہ کارفرما تھا، اور وہ نظریہ تھا، برہمنوں ہی کی دوسری اور نہایت متشدد قوم یعنی Rss کا
اسکا نظریہ گاندھی سے ہی ملتا جلتا تھا، لیکن قدرے مختلف تھا، گاندھی کا نظریہ مسلمانوں کو ساتھ لیکر چلنے کا تھا، اگر چہ دھوکے میں رکھ کر، لیکن Rss کا نظریہ تھا کہ مسلمانوں کو ساتھ رکھا ہی نہ جاۓ، بلکہ اگر وہ ملک میں رہیں بھی تو دوسرے درجہ کا شہری یا غلام بن کر، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ یہ اس نظریہ کےبھی حامل تھے کہ ہندوستان پر سواۓ برہمنوں کے کسی کا حق نہیں پھر وہ چاہے، کسی بھی مذہب کا ہو، لہذا انکو ضرورت تھی، گاندھی کے نظریات کو مٹانےکی، اور اسکے لئے سب سے پہلے خود گاندھی کو مٹانا ضروری تھا، چنانچہ 30 جنوری 1948ء کو گوڈ سے کے ہاتھوں گاندھی قتل کردۓگئے،
 گاندھی کو تو مار دیاگیا لیکن گاندھی کے نظریات کو نہ مار پاۓ، اسے مارتےمارتے کئ عشرے گزر گئے، لیکن جیسا کہ دنیا کی روایت رہی ہےکہ ہر دور میں سیاست کی کارستانیاں اور حصول مسند کی مکاریاں بدلتی رہی ہیں، لہذا گردش دوراں کے اس انقلاب سے ہمارا ہندوستان بھی دیر تک محفوظ نہ رہ سکا، آخر گاندھی کی موت کے ٹھیک 68 برس بعد، انکے نظریات پر قائم اقتدار کا سورج غروب ہوگیا، اور دوسری برہمن قوم یعنی Rss کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا، غور طلب امر یہ ہے کہ ملک برہمنیت سے نجات نہ پاسکا، جس قوم کے اقتدار کا سورج غروب ہوا وہ بھی برہمن تھی، اور جس کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا وہ بھی برہمن ہے؛
موجودہ برسراقتدار قوم کو ضرورت تھی کہ پہلے وہ گاندھی کی ہندو مسلم تفریق جو فرسودہ محبت پر قائم تھی، اسے نفرت میں تبدیل کر دیا جاۓ، تاکہ انکا پہلا مقصد مسلمانوں کو الگ کرنا، آسان ہو جاۓ، اور جب ہندو مسلم تفریق نفرت میں بدل جاۓ گی، تو خود بخود ملک دو نظریات یعنی ہندو مسلم میں بٹ جاۓ گا، اور انکا راستہ آسان ہوجاۓگا؛
لہذا اپنے اس ایجنڈے کے تحت اس برہمن طبقے نے انگریزوں کی پالیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو” کو اپنایا اور مکمل طور پر اپنایا، شروع سے ابتک وہ اسی پالیسی پر کار بند ہے، جس کے لئے اسنے قسم قسم کے اور رنگ برنگ کے جھوٹے قصے، مسلم بادشاہوں بالخصوص، محمود غزنوی، اورنگ زیب، اور ٹیپو سلطان رحمھم اللہ سے منسوب کرکے، پھیلاۓ، بلکہ ہندوستان کو اس جھوٹ میں بری طرح جکڑنے کےلئے ان گڑھےہوۓقصوں کو اسکول اور کالج کے نصاب میں بھی داخل کیا گیا، انہیں خود ساختہ قصوں کا شاخسانہ، بابری مسجد کی شہادت، نیز کاشی اور متھرا کے بے بنیاد دعوے کی شکل میں رونما ہوا؛
ہمارا جو عنوان تھا ”ہندوستان برہمنیت کے نرغےمیں“ ہم ابھی تک اسی عنوان پر لکھتے آۓ ہیں، قابل غور ہے کہ ہمارا ہندوستان کس طرح دو برہمن قوم کی چپیٹ میں ہے، لیکن ہم اصل بیماری کو سمجھنے کے بجاۓ، بی جے پی اور کانگریس کے چکر میں پھنسے ہیں، در اصل بی جےچی اور کانگریس، دو جسم اور ایک جان، یا ایک سکہ اور دو پہلو کا نام ہے، ہندوستان کو اقلیت اور اکثریت میں الجھا کر یا نفرت کا بازار گرم کرکے یہ دونوں برہمنی طبقے برسوں سے ہندوستان کی اصل مسند سے راج کررہے ہیں؛
ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم اپنے دل سے اقلیت میں ہونے کی غلط فہمی نکالیں، تاکہ ہماری احساس کمتری ختم ہو، اور دوسری طرف جو پس ماندہ قوم ہے جیسے آدی واسی اور دلت، انکو بتلائیں کہ کس طرح انکو جھانسے میں رکھ کر انکو اپنے مطلب کی چکی میں پیسا جارہاہے؟ انکو یہ باور کرائیں کہ اگر تمہارا اور موہن بھاگوت کا مذہب ایک ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم اس مندر میں نہیں جاسکتے جسمیں موہن بھاگوت یا دوسرا برہمن جاتاہے؟
 اور اس راز کو بھی فاش کرنا ہوگا کہ ملک میں غیر مسلم کا معنی برہمن یا ہندو نہیں ہے، بلکہ سکھ، عیسائی، جین، بدھشٹ، سب اسمیں شامل ہیں، اور جب سب شامل ہیں تو پھر اقتدار فقط برہمن کے ہاتھ میں کیوں؟ اور جب ہندو نام کا کوئی مذہب ہی نہیں تو پھر ہندو راشٹر کا نعرہ کیوں؟ علاوہ ازیں ہمیں مسلمان بادشاہوں کی سی پالسی یعنی مسلم اور غیر مسلم کے اتحاد کی پالیسی جو پالسی ہندوستان کی تاریخ کا سب سے مستحکم اور ہندوستانی مزاج کےبالکل مناسب Suitable  رہی ہے، اسی پالیسی کے تحت کام کرنےکی ضرورت ہے، ہم یہ تحریک چلائیں کہ جب ہندوستان کی بنیاد جمہوریت پر قائم ہے، تو پھر اقتدار ایک خاص نظریہ کی حامل جماعت کے ہاتھ میں کیوں ہے؟ اگر ہم نے بھیم راؤ امبیٹکر کے مرتب کردہ قانون اور حقیقی سیکولرزم کو بنیاد پر تحریک چھیڑا تو ان شاءاللہ حالات ضرور بدلیں گے، اور اقوم ہند اس راز سربستہ سے ضرور واقف ہوگی کہ انکو جس ہندو راشٹر کا سبز باغ دکھلایا جارہاہے، وہ ہندو راشٹر نہیں بلکہ برہمن راشٹر ہے،  اسکی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ ابھی گذشتہ کل Rss کے خصوصی ٹوئٹر ہینڈل پر موہن بھاگوت نے ایک ویڈیو کلیپ کےذریعہ اپنا یہ پیغام نشر کیا جسمیں بھگوا جھنڈے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ”ہم نے اور ہمارے آبا نے جب بھی ملک کے لئے کارنامہ انجام دیا ہے اسکا مرکز یہی جھنڈا یعنی بھگوا جھنڈا رہاہے“
مطلب صاف ہے کہ آج بھی انکا سارا کارنامہ اپنے اسی مرکز کے تحت انجام پا رہا ہے؛
 اب بھی اگر کسی کو ہندو راشٹر یا برہمن راشٹر میں فرق نہ محسوس ہو، اور Rss کی اس سیاہ پلانگ پر شک ہو تو اسکی عقل پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے؟
آخر میں اگر اپنوں سے کچھ گلہ کئے بغیر بات ختم کردوں تو میرا یہ سیاست پر تجزیہ ایک منصفانہ تجزیہ نہیں ہوگا، اسلئے کہ ہندوستان کی سیاست ہندوستان کی تمام قوموں کےگرد گھومتی ہے، لہذا دیکھنا ہوگا کہ آج سیاست میں ہمارا کیا کچھ دخل ہے؟
عرض کرتا ہوں، اس امید کےساتھ، کہ
"انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جاۓترےدل میں مری بات”
ہماری قوم کے جو لوگ ہندوستان میں یکجہتی کے مٹ جانے کا رونا روتے ہیں، اور نفرت کے بدلے نفرت ہی کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو میدان میں اتر کر حالات کو سمجھنے کی زحمت نہیں اٹھاتے، صرف بند کمروں میں بیٹھ کر، بی جے پی کے کمینہ پن پر لیکچر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اب یکجہتی کا نعرہ نہ لگایا جاۓ، بلکہ جیسے کو تیسا والا فارمولہ اپنایا جاۓ، تاریخ کے ان بے گانوں اور حالات سے انجانوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ہندوستان میں یکجہتی کے بغیر حکومت کرنا ممکن ہوتا، تو پھر اورنگ زیبؒ، کو مندروں کےپجاریوں کےلئے تنخواہیں مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟  ہم سعودی عرب یا پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان میں بستے ہیں، اور یہ مت بھولو کہ ہم ہندوستان میں ہیں؛
اور ہندوستان میں خوشحالی کےساتھ زندگی جےنےکےلئے یکجہتی کا نعرہ لگانا ضروری نہیں تو مجبوری ضرور ہے، جو نوجوان جہاد کے بارےمیں سوچ رہےہیں، انسے گذارش ہے کہ وہ ملک کی اس نازک سیاست کو سمجھیں نادانوں کی سی بہکی بہکی باتیں نہ کریں، ہاں ایک کام کریں اگر کچھ کرنے کا جزبہ ہو تو، یہ کہ اقوام ہند کو بےدار کریں اور اس بیدار کرنے ہی کو فی الحال اپنا جہاد سمجھیں، اسلئے کہ مسلمانوں کا اسلام دشمن سے کم ملک  دشمن سے مقابلہ زیادہ ہے، اور یاد رکھئے Rss کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ تہجد پڑھتے ہیں یا نہیں، بلکہ انکو اس سے فرق پڑتا ہے کہ ایک مسلمان سیاست میں حصہ لے رہا ہے یا نہیں؟ اسلئے کہ اگر وہ سیاست میں مستحکم ہوگئے، تو پھر انکو آپ کی تہجد پر پابندی لگانے میں وقت نہیں لگے گا، لہذا ہمیں انکو اقتدار سے دور کرنا ہوگا، اور انکو اقتدار سے بےدخل کرنےکے لئے انکی ہندو راشٹر کےپردےمیں چھپی برہمن راشٹر کی خطرناک پالیسی کو بےنقاب کرنا ہوگا، اور اس کےلئے یکجتہی کے نعرے اور بھیم راؤ امبیٹ کےقانون کی دہائی کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں؛
  جنکو اب بھی اور ابھی بھی یکجہتی پر اعتراض ہے انسے گزارش ہے کہ ہجرت کر جائیں خدا کی زمین بہت وسیع ہے؛
معاف کیجئے گا موضوع سخن برہمنیت کی چال بازی سے اپنوں کی سادگی کی طرف چلا گیا، لیکن ضروری  تھا کہ بیماری کا ذکر کیا ہے تو لگے ہاتھوں علاج بھی بتاتا چلوں، اور اس علاج کو میری ذات سے منسوب کرکے ٹھکرانے سے قبل ہندوستان میں ہمارے تمام موجودہ مذہبی اور سیاسی قائدین کے نظریات پر ایک نظر ضرور ڈال لیجئے گا بلکہ جمعیت علماۓ ہند کی تاریخ پر بھی ایک سرسری نگاہ پھیرلیجئےگا اسلئے کہ ہم نے مذکورہ خیالات وہیں سے مستعار لئے ہیں، اور ہندوستان کےحالات پر کئی دن اور کئی رات غور کرنے کے بعد اپنے خیالات کو الفاظ کی شکل دے رہےہیں، ایسے وقت میں کہ جب چہار جانب رات کا سنٹا ہے اور گھڑی میں ٹھیک دو بج کر بیس منٹ ہوۓ ہیں؛
اس تاریکی میں احمد فرازؔ کے اس تخیل کو روشن کر رہےہیں، کہ
"شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×