سیاسی و سماجی

عالمی ادارۂ صحت (WHO) پر، مبنی بر حقیقت تجزیہ

”چپ رہ نہ سکا، حضرت یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند“
ہمارا یہ تجزیہ مشتمل ہے، عالمی ادارۂ صحت یعنی (World Health Organization)  پر، مناسب معلوم ہوتاہے کہ تجزیہ سے قبل سرسری طور پر اسکا تعارف سپرد اسکرین کردوں؛
معلوم ہو کہ جب 1945ء میں اقوام متحدہ (United Nations)  کا قیام عمل میں آیا، تو منتظمین اقوام متحدہ نے اپنے امور کو بسہولت انجام دینے کی غرض سے، اقوام متحدہ کے تمام امور کو الگ الگ شعبوں میں تقسیم کیا تھا، جسمیں سے ایک شعبہ عالمی ادارۂ صحت یعنی ”ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“ بھی تھا، جسکا مخفف یعنی (Abbreviation)  (WHO)  ہے، اس ادارے کا قیام 7 اپریل1948ء کو، یعنی اقوام متحدہ سے تین سال بعد عمل میں آیا، فی الحال اسکا مرکزی دفتر سوئزر لینڈ کے شہر جنیوا میں موجود ہے،بیان کیا جاتاہے کہ اس کا مقصد جیساکہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کو بیماریوں سے حفاظت اور انکے علاج و معالجے کے طریقوں سے روشناس کراناہے؛
اب آئیے! بر سر مطلب
بہت سے لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ دنیا میں (WHO)  نام کا کوئی طبی ادارہ ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ در اصل وہ اقوام متحدہ کا ایک شعبہ ہے؛
اب آپ کہیں گے کہ آپ کا تجزیہ عالمی ادارۂ صحت پر مبنی ہے، تو پھر اقوام متحدہ کا تذکرہ کیوں؟ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو شاید مجھے یہ تجزیہ لکھنا بہت ضروری تھا، اسلئے کہ عالمی ادارۂ صحت کا دھاگا پوری طرح اقوام متحدہ ہی سے جڑا ہوا ہے، بغیر اقوام متحدہ کے (WHO)  نام کی کسی شئ کا کوئی وجود نہیں ہے، اور آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی کمان کن کے ہاتھوں میں ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اقوام متحدہ کن کی زیرنگرانی ہے؟ اگر نہیں معلوم اور میں بتاؤں تو شاید آپ کو کچھ تردد ہوگا، اسلئے دلیل کے ساتھ اپنا مدعا پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کسی قسم کی کشمکش میں مبتلا نہ ہوں،
جسکےلئے میں آپ کے سامنے دو سوال پیش کرتا ہوں؛
پہلا سوال یہ کہ
 کیا آپ نے کبھی اقوام متحدہ، یا پھر (WHO)  کا علامتی نشان (Emblem) دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو پہلے انہیں دیکھئے! اور اگر دیکھا ہے، تو امید کرتا ہوں کہ آپ نے (اسرائیل)  کا بھی قومی نشان  National coat of arms دیکھا ہوگا، جسکی خاص پہچان ہے کہ اس پر، گندم (گیہوں) کی بالیوں جیسی دو بالیاں چھپی ہوئی ہیں جن کے درمیان میں دنیا کا جغرافیائی نقشہ بھی ہے، دو بالیاں خاص ہیں، ورنہ درمیان میں کہیں کہیں نقشہ کی جگہ سانپ یا اور دوسری چیزیں بھی چھپی ہوتی ہیں؛
دوسرا سوال یہ ہے کہ
اسرائیل کا قومی نشان اور اقوام متحدہ و عالمی ادارۂ صحت  (WHO) کے نشانات و علامات، ایک ہونے کا کیا مطلب؟ آخر اسرائیلی علامت کا ان اداروں سے کیسا ربط ہے؟
 مجھے امید ہے کہ میرے ان دو سوالوں سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ (WHO) کن کی زیر نگرانی ہے؟
اب ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کی نگاہ سے دیکھا جاۓ، تو سوال پیدا ہوتاہے کہ جب (WHO) ایک عالمی ادارہ ہے، جیسا کہ بیان کیا جاتاہے، تو انصاف کا تقاضا تھا کہ اس ادارے کا نشان کوئی اجتماعی نشان یا کوئی خاص نشان ہوتا، اور اس ادارے کی نگرانی دنیا کی تمام اقوام اور تمام ممالک سے وابستہ ہوتی، بلکہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اسکی شاخیں اور دفاتر قائم کئےجاتے، تاکہ تمام عالَم کو اس سے وابستہ ہونے میں سہولت ہوتی، اور ساری دنیا اسکے سیاہ اور سفید پر نظر رکھتی، لیکن معاملہ اسکے بالکل برعکس ہے، نام تو ہے عالمی ادارہ، اور ٹھیکا فقط ایک قوم اور ایک ملک نے اٹھا رکھا ہے، جسکی زندہ دلیل ادارے پر اس قوم کے نشانات ہیں، بات ہضم ہونی تو دور، گلے سے نیچے بھی نہیں اترتی کہ ایک ادارہ جسے عالمی کہا جاتاہو، اس پر صرف ایک ہی قوم کی اجارہ داری ہو؟ آخر کیوں؟ اور تعجب ہے کہ ساری دنیا اسی پر خوش اور مطمئن ہے، کیا یہ ذہنی غلامی کی طرف اشارہ نہیں ہے؟
”کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! “
داستاں اسی پر تمام نہیں ہوتی
بلکہ اس داستاں کے بڑے عجیب و غریب ابواب ہیں؛
اس ادارے کےبہتر (72) سالہ ادوار پر، نظر غائر کرنے سے، یہ راز بھی منکشف ہوتاہے کہ اس ادارے نے روز قیام سے ابتک، ایک بھی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے کہ جس سے اسکی نیت پر بھروسا کیا جاسکے، ماضی سے قطع نظر، اگر میں حال کو زیر بحث لاؤں تو بات زیادہ معنی خیز ہوگی؛
 گذشتہ نو (9) ماہ سے دنیا جس زہر خیز اور مہلک وائرس سے دوچار ہے، وہ سب کےسامنے عیاں ہے، اس ادارے کا فرض منصبی تھا، کہ یہ ادارہ اپنے بلند بانگ دعوے کا ہی لحاظ کرتےہوۓ دنیا کے درد کا درماں بنتا، اور اس طوفان میں کشتئ انسانی کو کنارےتک لے جانے کا سامان کرتا، کسی دوا کسی ویکسین کی تخلیق نہیں تو کم از کم انکا نظریہ ہی پیش کرتا، لیکن سواۓ اسکے کہ یہ ادارہ یہ فیصلہ کرے کہ کس ملک میں وائرس ہے اور کس ملک میں نہیں، کس ملک میں کس درجہ پر ہے اور کس ملک میں کس درجہ پر ؟ اور کچھ بھی نہیں کیا، جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے؛
آپ مجھے بتائیں کہ ایک شخص کے اندر اتنی صلاحیت ہےکہ وہ مرض کی شناخت کرسکتاہے، لیکن وہی شخص اپنےہی شناخت کردہ مرض کا علاج نہیں جانتا، اور نہ ہی اس مرض کو مٹانے کی سعی کرتاہے، تو مجھے بتائیں کہ وہ شخص سواۓ اسکے کہ لوگوں کو اپنی جھوٹی شان کا قائل کرے، اور کیا کررہاہے؟
یہ ادارہ ساری دنیا کو باور کرا رہاہے کہ فلاں ملک میں اس درجے کا وائرس ہے اور فلاں میں اس درجےکا، لیکن نہ اسکا کوئی حل بتا رہا ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین تیار کررہاہے، اسکا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ ادارہ دنیا کو ایک اندیکھے خوف میں مبتلا کرنا چاہتا ہے؟
کیا کرونا وائرس کا علاج یہی ہے کہ دن بھر ہاتھ دھلا جاۓ، ناک بند کرلی جاۓ،اور ساری دنیا پر قفل جڑ کر گھر کے کسی کونے میں بیٹھ رہا جاۓ؟ وقتی طور پر بچنے کا یہ راستہ تو ہوسکتاہے، مگر اسے علاج تو نہیں کہہ سکتے؛
اب جاکر کہیں کہیں سے ویکسین تخلیق ہوجانے کی خبریں آرہی ہیں، مگر انکا تعلق الگ الگ ممالک اور انکے اپنے طبی اداروں سے ہے، اس ادارے کا کوئی کارنامہ نہیں ہے؛
یہ تو رہا اسکے ظاہری مقاصد پر تجزیہ، وہ مقاصد جسے دنیا کے سامنے بیان کیا جاتاہے، مگر آپ نے دیکھا کہ یہ ادارہ اپنےمقاصد کا کتنا اور کس طرح حق ادا کررہاہے؟
اب ذرا سا اسکے اندرونی اور درپردہ حالت پر بھی قلم چلانا ضروری سمجھتاہوں، اقبالؔ کے اس مصرعہ کےساتھ کہ۔ ع
” جرات آموز مری، تاب سخن ہے مجھ کو “
کرونا وائرس کی ابتک کی مدت میں، عالمی بندی رہی جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے، جسمیں بین الاقوامی بازار کا، لاک پوری طرح ڈاؤن رہا اور ابتک ہے، جسکا اثر معیشت Economy پر پڑنا لازم تھا، چنانچہ ہندوستان تو کیا امریکہ سے لیکر عرب ممالک تک تمام دولت مند ملک، آج معیشت کی بربادی پر اشک بہا رہے ہیں، وہ جو کل تک زمین کی طرف کم ستاروں کی جانب زیادہ دیکھتے تھے، انکا غرور آج خاک میں ملتا ہوا نظر آرہاہے، خود اقوام متحدہ نے بیان کیا ہےکہ امریکہ کے ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ غریبی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں؛
یہ وہ حقیقت ہے، جو ہماری بصارت یعنی سر کی آنکھوں سے نظر آرہی ہے،
مگر اللہ نے ایک اور دیکھنے والی چیز عطا کی ہے جسے بصیرت یعنی باطن کی نگاہ کہتے ہیں، اگر آپ اسے کام میں لائیں تو آپ کو ایک دوسری بھی حقیقت نظر آۓ، وہ حقیقت جو ہم سے چھپائی جا رہی ہے؛
ملاحظہ ہو،
 معیشت Economy کم زور ہونے کا مطلب یہ ہےکہ کسی ملک کی اپنی (GDP) اپنے موجودہ مقام سے نیچے اتر آۓ، یعنی ملک کی آمدنی کم ہوجاۓ، تو اسی کو معیشت کی کمزوری کہتے ہیں، اگر فقط ایک ملک کی معیشت گررہی ہے تو مطلب صاف ہے کہ وہاں کی سرکار تنہا اسکی ذمہ دار ہے، لیکن اگر عالمی معیشت گررہی ہے، تو بین الاقوامی بازار پر اسکی ذمہ داری عائد کی جائگی، عالمی معیشت گرنے کی کئی وجہیں ہیں، موجودہ لاک ڈاؤن اسکی اچھی مثال ہے؛
ایک سوال جو کئی صدیوں سے ماہرین اقتصادیات کے لئے درد سر بنا ہوا ہے کہ جب معیشت کم زور ہوتی ہے، اور کسی ملک کا خزانہ کم ہوتاہے، تو آخر وہ جاتا کہاں ہے؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ جو کہا جاتاہے پیسہ ختم ہوگیا، درحقیقت یہ ایک اصطلاح ہے ورنہ حقیقت میں پیسہ ختم نہیں ہوتا، وہ بس ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ، ایک جگہ سے دوسری جگہ، ایک دوکان سے دوسری دوکان، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرےملک، الغرض پیسہ اسی طرح گردش کرتا رہتا ہے، ختم ہونا یا کم ہونا کسی ایک یا کچھ فرد سے تعلق رکھتا ہے، ورنہ اسکا یہ بالکل بھی مطلب نہیں ہوتا کہ اسکا وجود ہی مٹ گیا، اب اگر عالمی لاک ڈاؤن سے کسی ملک کی معیشت کمزور ہوئی، تو پہلا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا جو خزانہ کم ہوا وہ کم ہوکر کہاں گیا؟ اگر کہا جاۓ کہ دوسرے ملک سے خرید و فروخت میں صرف ہوگیا، پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ جس ملک میں گیا، کیا وہاں کی معیشت آگے بڑھی یا نہیں؟ مگر معلوم ہو رہا ہے کہ ساری دنیا کی یہی حالت ہے، تو  آخر وہ خزانے گئے کہاں؟ زمین کھا گئ،یا آسمان نگل گیا؟
معیشت کی کمی یا زیادتی آخر کسی سے تو تعلق رکھتی ہوگی؟ آخر کوئی تو ہوگا جو دنیا کی معیشت پر دست رس رکھ رہا ہے؟ پھر وہ چاہے کوئی تنظیم ہو، کوئی ادارہ ہو، یا اور کوئی؛
اب میں آپ کو بتاؤں کہ دنیا کی معیشت پر نگاہ رکھنے والی کوئی اور تنظیم نہیں بلکہ یہی اقوام متحدہ ہے، جی ہاں، یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے مسند نشیں ہی کرتے ہیں کہ کس ملک کی معاشی حالت کس درجہ پر ہے؟
اور آپ کو پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ عالمی ادارۂ صحت، (WHO) اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہے، آپ کو یہ بھی معلوم ہوچکاہے کہ ان اداروں پر دنیا کی سب سے عیار و مکار، روباہی جسکی صفت اول ہے، وہی قوم قابض ہے، کیا اپنے عالمی ادارۂ صحت کےذریعہ دنیا کی معیشت کمزور کس طرح ہوگی، اور دنیا کو کس طرح مبتلاۓخوف کیا جاسکتا ہے، کہیں ایسے تجربات تو نہیں کئے جارہے ہیں؟
نہیں آپ ہرگز ایسا نہ سوچیں
میں ان میں سے نہیں ہوں جو کرونا وائرس کی حقیقت کے منکر ہیں، میں اس بات کا بالکل قائل نہیں کہ کرونا وائرس انسانی تخلیق ہے،یا اسکےبیچھے کسی کی سازش ہے،  ایسا بے دلیل دعوی کرکے اپنےقلم کو بے وقعت نہیں کرونگا، میں بھی دعوے کےساتھ دلیل کا قائل ہوں، میں بھی کھلی ہوئی آنکھوں سے دیکھ کر ہی کسی امر پر بحث کرنےکا نظریہ رکھتاہوں، اور میری یہی کھلی ہوئی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ اسی عالمی ادارۂ صحت کے ذریعہ کرونا وائرس کا بھر پور فائدہ اٹھایاجارہاہے،وہ اگر خدائی تخلیق ہے تب بھی؛
دنیا کے سامنے اسکے جو مقاصد بیان کئےجاتےہیں، وہ کس حد تک وفا ہورہےہیں، ہر ہوش مند شخص دیکھ رہا ہے،اور اسکےکارنامےدیکھ کر ہر زندہ دماغ یہ سوچ رہا ہے کہ اس ادارے کا کوئی اور بھی مقصد ہے جسے ظاہر نہیں کیا جارہاہے، مگر کیا؟    لیکن۔ ع
”کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے“
(ضروری وضاحت)
ہم نے (WHO) پر الزام نہیں لگایا ہے، اور نہ ہی اندھیرےمیں تیر چلائی ہے، جو بھی کہا ہے دلیل کےساتھ کہا ہے، اور جن امور کی بابت دلیل دستیاب نہ ہوسکی انکو سوالیہ انداز میں یا پست لہجے میں ذکر کیا ہے، اور اس طرح پست لہجےمیں بولنا، الزام لگانا نہیں ہوتا، ہاں اسے سوال کہا جاسکتا ہے؛
ہاں حیران ضرور ہوں کہ بھیڑیوں نے بکری کی محافظت کا دعوی کیا ہے اور یاران جہاں بھیڑیوں پر یقین کئے ہوۓ ہیں،
اور میں صرف حیران ہی ہو سکتاہوں، بھیڑیوں کو کھل کر بھیڑیا نہیں کہہ سکتا، اسلئے کہ بھیڑیوں نے شکل بدلی ہوئی ہے؛
دنیا اگر چہ ہمارے اس تجزیہ پر، ہم کو لعنت ملامت کرے، اور بعید نہیں کہ ہمیں جاہل بھی سمجھے، مگر دنیا کیا کہتی ہے اور کیا سمجھتی ہے، ہم کو اسکی کوئی پروا نہیں (WHO) کےکارناموں پر ہمیں تو بس اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ۔۔۔۔ ع
"دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ! یہ خیال اچھا ہے”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×