سیاسی و سماجی

زرد صحافت اور ہندوستان

شاید میرا موضوع گفتگو، آپ کو کچھ عجیب اور کچھ غریب سا لگاہوگا، لیکن اگر آپ صحافت (Journalism)  کی پچھلی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ "زرد صحافت ” (Yellow journalism) کسی ابن عطاءاللہ بنارسی کا وضع کردہ لفظ نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں (نیویارک) سے مشہور ہوا تھا، جب اہل صحافت نے ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں غلط اور جھوٹی خبریں شائع کرنا، نیز ہلکی پھلکی خبروں کو بڑی بنانے کی غرض سے نمک مرچ لگاکر پھیلانا شروع کیا، تو اس وقت کے دانشوران نے صحافت کی اس بدترین صورت، اور اشاعتی جنگ (Circulation War) کا نام پیلی سیاست رکھا تھا، جو صحافت کی دنیا میں، صحافت کی ایک قسم بن کر مشہور ہوگئ ؛
یہ پیلی صحافت آج کی تاریخ میں تقریبا ایک سو پچیس برس کی عمر رکھتی ہے، یوں تو اب ساری دنیا اسکی چپیٹ میں ہے، اور زمین کا کوئی حصہ اسکے زہر سے محفوظ نہیں، لیکن آج ہمارا وطن عزیز ہندوستان، کشمیر کی برفیلی وادیوں سے لیکر، کنیا کماری کےچمنستان تک، اور گجرات کے ساحل سے لیکر بنگال کی کھاڑی تک، چہار جانب سے اسکے حصار میں اور پوری طرح اسکے نرغے میں، اور بری طرح اسکی جال میں جکڑا ہوا ہے، اور 99 فیصد سے بھی زائد صحافت کا چولہ پہننے والے لوگ،صحافت کی کمائی کھانے والے لوگ، صحافت کے نام پر، کذب بیانی ،مکاری،عیاری، اور  (Dis information) کا بازارا سجاۓ ہوۓ بیٹھے ہیں، کوئی ان سے پوچھتا کہ آخر وہ کون سی صحافت کی کتاب پڑھ کر، صحافت کی کرسی پر بیٹھے ہیں؟ کیا صحافت پڑھتے ہوۓ انہوں نے یہی پڑھا تھا، کہ کس طرح جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کیا جاتاہے؟ یا یہ پڑھاتھا کہ برسر اقتدار جماعت کی غلامی اور اس سے سودے بازی کس طرح کی جاتی ہے؟
آپ آج ہندوستان کی حال زار پر اک سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے ملک کے جو سب سے بڑے مجرم ہیں، وہ یہی ایمان فروش، ضمیر بیچنے والے اور یہی پیلی صحافت کرنے والے لوگ ہیں، آپ صحافت کی اصطلاح میں خبر (News)  کی تعریف معلوم کریں، تو اسکی مشہور تعریف ہوگی ” اپنے شہر اپنے ملک یا دنیا کی حقیقی صورت حال، پھر وہ چاہے سیاست سے متعلق ہو، یا معیشت سے، یا معاشرت سے، یا کسی ایسے امر سے متعلق ہو جسکا ربط عوام الناس کی فلاح و بہبود سے ہو، چاہے وہ کیسی بھی صورت حال ہو، مثبت یا منفی، اسی کو خبر یا (News) کہتے ہیں، مثلاً جب پڑوسی ممالک میں پٹرول 50 روپیہ لیٹر ہے، بک رہا ہے، تو ہمارے میں اسکی قیمت 80 روپیہ لیٹر ہے، یہ خبر ہے، اسی طرح، یہ کہ چین ہماری سرحد پر داخل ہونے کی پلانگ کررہاہے، یہ بھی خبر ہے، لیکن ہندوستانی میڈیا کا معاملہ اسکے بالکل برعکس ہے، حالانکہ ایسےہی واقعات کو صداقت کےساتھ، محقق طریقے سے عام کرنے کو صحافت اور (Journalism) کہتے ہیں، خبر کی تعریف معلوم ہو جانے کے بعد، آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ تک خبر پہنچ رہی ہے؟ ”الا ماشاءاللہ “ اور صحافت جاننے کے بعد، آپ مجھے بتائیں کہ آج ہندوستان میں سواۓ چند نفوس کے، کوئی صحافی نظر آرہاہے؟ بیسویں صدی میں، برطانیہ کے مشہور و معروف صحافی ” لارڈ نورتھ کلف“ متوفی 1922ء ؛ نے خبر (News) کی تعریف کرتے ہوۓ لکھا تھا: ” News is information that one person wants to hide while everyone else wants to advertise it "
برطانیہ کا یہ مشہور صحافی لکھتاہے: خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتاہو، لیکن باقی لوگ اسے شہرت دینا چاہتے ہوں، تو ایسا واقعہ خبر ہے“   (مستفاد، از وکیپیڈیا اردو)
آج ہندوستان کی مرکزی حکومت، ہندوستان کی جس صورت حال کو چھپانا چاہ رہی ہے، اور تمام اپوزیشن پارٹیاں، جس صورت حال کو اجاگر کرنا چاہ رہی ہیں ”لارڈ نورتھ کلف“ کے مطابق وہی صورت حال، حقیقی خبر ہے؛
ایک ماہر صحافی تو خبر کا معنی کچھ اور بتلا رہاہے، اور ہندوستانی صحافی کچھ اور ہی پیش کررہے ہیں، چین ہماری سرحد میں گھستاہے،ہندوستانی میڈیا کہتاہے” کہاں کوئی آیا ہے؟ “ چین ہماری زمین پر قبضہ کرتاہے، ہندوستانی میڈیا کہتاہے ” سب جھوٹ ہے“ یعنی جس خبر کو اجاگر کرنا تھا،اس خبر کو اہل خبر چھپاتےہیں، اور پھر سینہ تان کر، گردن مروڑ کر، ناک پھلاکر،ماتھا چڑھا کر، چٹخارے بھرتے ہوۓ،مکمل بے شرمی کے ساتھ، خود کو صحافی بھی کہتےہیں؛
انہوں نے صحافت کا مطلب، ”مودی جی“ کی تعریف اور انکی قصیدہ خوانی سمجھ لیا ہے،
یہ دن میں جتنی بار ”مودی جی“ کو یاد کرتے ہیں، خود کو بھی نہیں کرتے ہوں گے، چاند تک جانے کی کوشش ہمارے ہندوستانی سائنسدان اور (ISRO) کی جماعت کرتی ہے، اور ہندوستانی میڈیا کہتاہے: مودی جی کے کرم سے ہندوستان پہنچا چاند پر” چین سے مقابلہ ہماری فوج کرتی ہے، ہندوستانی میڈیا کہتاہے: چین مودی جی کے سامنے ڈھیر“  کرونا وائرس سے پورا ملک لڑرہاہے، اہل طب کی جماعت اس زہر کا تریاق تلاش کرنے میں سرگرداں ہے، ہندوستانی میڈیا کہتاہے: مودی جی نے کرونا کے خلاف چھیڑا یودھ”
کیا ہندوستانی میڈیا، اوپر نیچے، دائیں بائیں، آگے پیچھے، کسی بھی جانب سے دیکھ کر میڈیا لگ رہا ہے؟ صبح کو سنو تو مودی مودی، دوپہر کو سنو تو مودی مودی، شام کو سنو تو مودی مودی، رات کو سنو تو مودی مودی، آٹھوں پہر یہ صرف مودی اور مودی ہی کی رٹ لگاتےہوۓ، دیکھے اور سنے جاتے ہیں، کیا ایسا نہیں لگتا کہ انہوں نےصحافت کو بیچ کر مودی جی کو جپنےکےلئے مالا خرید لیا ہے؟ یا انکو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ یہ صحافی نہیں بلکہ مداڑی کو آخر تک چلانےکےلئے بھاڑےکے تماشا باز ہیں؟ یا انکو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ جس طرح نوابوں کے محلوں میں، مجنوں و لیلی، اور شیریں و فرہاد کی جھوٹی شکل بنا کر، بھاڑے کے ناچنے والے بلاۓ جاتے تھے، اسی طرح صحافیوں کی سی شکل اختیار کر کے، مودی جی کا جھوٹا قصیدہ پڑھنے کےلئے، بھاڑے پر بلاۓ گئے قصیدہ خواں ہیں؟  ہندوستانی میڈیا
بابری مسجد سے لیکر رام مندر تک، تین طلاق سے لیکر  گھر واپسی تک، لو جہاد سے لیکر کرونا جہاد تک، گذشتہ چھ سالوں میں فرقہ پرستوں کے تمام پروپیگنڈے میں پورے تن من دھن کےساتھ انکا جانب دار رہاہے، بلکہ جانب داری کی ایسی بدترین مثال قائم کی ہے، کہ جسکا رکاڈ  ائندہ سو سال تک نہ ٹوٹے، دہلی میں  CAA مخالف تحریک کے درمیان جو کچھ ہوا، اور اس وقت اتر پردیش میں جو کچھ ہورہاہے، دہلی کے فساد میں جس طرح بے گناہوں کو پھنسایا گیا، اور آج اتر پردیش میں گناہ گاروں کو جس طرح بچایا جارہاہے، جس طرح ”وکاس دوبے“ کا منہ ، افسانوی اور ڈرامائی طور پر بند کیا گیا، اور اس کہانی میں میڈیا نے جو کردار ادا کیا، غور کریے تو دماغ کی رگیں درد سےپھٹتی ہیں کہ آخر ہندوستانی میڈیا کتنا بڑا مکار اور کتنا ماہر چال باز ہے؟
 سو سال قبل نیویارک میں جب صحافت کی یہ بدترین قسم پیدا ہوئی تھی تو اس وقت کے دانشوروں نے اسے ”زرد صحافت“ نام دیا تھا، ایک صدی قبل کے دانشوران اگر آج ہوتے تو یقینا، اسکا نام (Yellow journalism) کے بجاۓ (Black Journalism) رکھتے،  یا دیکھتے کہ سوسال قبل امریکہ میں جسکا نام انہوں نے پیلی صحافت رکھا تھا، وہ آج ہندوستان آکر پیلی سے کالی ہوگئ ہے؛
"زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے "

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×