احوال وطن

جسمانی محنت کی کمی اور جنک فوڈ کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے لوگ تیزی سے موٹاپے کا شکار ہورہے ہیں

دنیا بھر میں موٹاپا ایک مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے جس نے ہر کسی کو پریشان کر رکھا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچے ہیں۔ جسمانی مشقت کی کمی، بیٹھ کر کھانا کھانے اور جنک فوڈ کے رجحان نے موٹاپے کے مسئلے میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ ساتھ ہی، کووڈ کے بعد، حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، یورپ میں 60 فیصد بالغ اور ایک تہائی بچے زیادہ وزن اور موٹے کا شکار ہیں۔ یورپ سے آگے امریکہ ہے جہاں موٹاپا وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

حالات پہلے ہی خراب ہیں، ایسے میں فوڈ ڈلیوری ایپ کی وجہ سے لوگ مسلسل موٹاپے کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او WHO کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یورپ میں ہونے والی تمام اموات میں سے 13 فیصد کے پیچھے کی ایک بڑی وجہ موٹاپا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یورپ میں سالانہ کم از کم 2 لاکھ افراد کی موت کینسر سے ہوتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ موٹاپا ہے۔
جسم کی اضافی چربی کئی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ جس میں کینسر کی 13 اقسام، ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کا مسئلہ اور پھیپھڑوں کے امراض شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ معذوری کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ موٹاپا ایک پیچیدہ بیماری ہے جو غیر صحت بخش خوراک کھانے اور جسمانی سرگرمی کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ریجنل ڈائریکٹر (یورپ) ڈاکٹر ہینس کلوگ کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک ایسی بیماری ہے جو کسی قسم کی حد کو ہیں مانتی ہے۔ یورپ کے کئی علاقوں میں لوگ کسی نہ کسی طرح موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس پر قابو پانے کا واحد طریقہ صحت کا ایک مضبوط نظام تیار کرنا ہے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دن بہ دن ڈیجیٹل ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی قسم کی ضرورت کا حل فون میں موجود تمام ایپس میں موجود ہے۔ یورپ میں کھانے کے اس ڈیجیٹل ماحول کا بہت برا اثر ہوا ہے۔ لوگ کب، کیا اور کیسے کھاتے ہیں؟ اس پر وگٹ نظر رکھی جانی چاہیے کیونکہ یہ ‘کھانے کی ڈیلیوری ایپس’ زیادہ چکنائی، زیادہ چینی اور مشروبات کے استعمال میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
برطانیہ کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گھر پر کھانا آرڈر کرکے منگوانا یعنی گھر پر بنائے کھانے کے مقابلے میں اوسطاً روزانہ 200 کیلوریز زیادہ لینا ۔ اس کا مطلب ہے کہ بچہ ہفتے میں 8 دن کا کھانا کھا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×