سیاسی و سماجی

وطنِ عزیز ہندوستان آج بھی آزادی کا منتظر ہے

آج ملک ۷۴/واں یومِ آزادی منا رہا ہے۔ ہم سب اِس سے واقف ہیں کہ کس طرح ہندوستان انگریزوں کے ظلم و ستم، جابرانہ پالیسیوں اور غلامی کی زنجیروں سے ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوا۔ آزادی کے متوالوں نے بلند حوصلوں کے ساتھ کیسی کیسی قربانیاں پیش کیں۔ مجاہدینِ آزادی کی سخت جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی جیسی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان آج بھی صحیح معنوں میں آزادی کا منتظر ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ملک میں غریب، مزدور، خواتین، دلِت اور مسلمان محفوظ نہیں ہیں مگر ہاں گائے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ انسان کی جان سے زیادہ اہمیت جانور کی ہوگئی ہے۔
 
آج ہم آزادی کے بعد ۷۳/سال کا سفر طئے کر چکے ہیں لیکن آج اِس ملک کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے اور آزادی کے حقیقی ثمرات سے ہندوستان کے عوام محروم دکھائی دیتے ہیں۔ جدوجہد آزادی کے معماروں نے ہندوستان کو جس راہ پر گامزن کرنے کا خواب دیکھا تھا، اُس راہ سے ہندوستان نے خود کو الگ کر لیا ہے اور اب عالمی طاقتوں کا آلہ کار بنتا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اب بھی تشنہ جواب ہے کہ کیا واقعی آزاد ملک کا خواب پورا ہوا ہے؟ آزاد ہندوستان کا خواب اُسی وقت پورا ہوگا جب پورا ہندوستان ترقی کرے گا۔ پسماندہ افراد کو ترقی کے عمل میں شامل کیا جائے گا۔ مجروح اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو ’مین اِسٹریم‘ میں لایا جائے گا۔ ہم اکثر اپنے ماضی کی حصولیابیوں پر اِنتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اُن کامیابیوں پر مطمئن ہوجانا غلط ہوگا۔
 
آزادی کا مطلب ہر شخص کوکھلی فضا میں سانس لینے کا حق ہے۔ آزادی ایک بیش بہا نعمت، قدرت کا بیحد انمول تحفہ اور زندگی جینے کا اصل احساس ہے۔ اِس کے برعکس غلامی و عبودیت ایک فطری برائی، کربناک اذیت اور خوفناک زنجیر ہے۔ اِس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ جس طرح معاشرے میں شخصی آزادی نہایت اہم ہے اُس سے کہیں زیادہ اجتماعی آزادی کی اہمیت و ضرورت ہے۔ یا یوں کہئے کہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے، اِس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز نہیں اور اِس کی حفاظت ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داری ہے۔
 
یومِ آزادی ایک خاص اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کے جذبہ سے بھرپور ایک خاص دن ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی ہندوستان کی عوام نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھی۔ پندرہ اگست ملک کے یومِ آزادی کے طور پر ہی نہیں بلکہ اِسی اجتماعی جذبے کو یاد کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔ ہندوستان کے سَوا سَو کروڑ عوام کو سوچنا چاہئے کہ جشنِ آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، اپنی قومی پیش رفت، ترقی و بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی سالمیت کی بقاء کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کے محاسبہ کا نام ہے۔ یومِ آزادی دراصل خود احتسابی کا دِن ہے۔ آج ہم یہ عہد کریں کہ جس طرح ہم سب نے مِل کر ملک کی آزادی حاصل کی ہے اُسی حوصلہ و جذبہ سے سرشار ہو کر ہندوستان کو عظیم ملک بنائیں گے۔
 
ستر سالہ طویل عرصہ کے گزر جانے کے بعد ہندوستان دنیا کی سب سے کامیاب جمہوریتوں میں سے ایک ہے اور اب وہ آزادی کے سفر سے ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے نصب العین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن منزل کے حصول میں اِسے غربت، بے روزگاری اور ایسے ہی کئی اہم مسائل سے آزادی حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ مذہب کے نام پر منافرت، فرقہ وارانہ تشدد عام ہے۔ آج ملک بھر میں نفرت، ہجومی تشدد، فرقہ پرستی کے واقعات دیکھنے کو مِل رہے ہیں۔ اقلیتی طبقہ کو ہر لحاظ سے تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ خوف و ہراس کے ماحول میں بے قصوروں کی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے۔ اِن ساری باتوں کو ذہن میں رکھ کر سوچیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان آج بھی آزادی کا منتظر ہے۔
 
چل کر فرنگیوں کی پالیسی پر قدم بہ قدم
ظالم کرنا چاہتے ہیں اِک نئ تاریخ رقم
اب بھی جاری ہے وطن میں ظلم و ستم
جشنِ آزادی منائیں تو، کیسے مَنائیں ہم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×