سیاسی و سماجی

فیصلہ ہوا انصاف نہیں!

بابری مسجد کی شہادت کے ملزمین بَری کردیئے گئے۔ کوئی تعجب نہیں‘ کوئی حیرت نہیں۔ 9/نومبر 2019ء کو چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی نے جو فیصلہ سنایا تھا اس کے بعد مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں سے متعلق کسی قسم کے فیصلوں کے لئے امید نہ رکھنا حماقت یا اپنے آپ کو مغالطہ میں رکھنے کے مماثل ہے۔ بعض فیصلے حالیہ عرصلہ کے دوران مسلمانوں کے لئے امید اور حوصلہ افزا رہے۔ مگر جن فیصلوں کی بنیاد پر ایک ہندو راشٹر کی بنیاد رکھی جارہی ہے‘ وہ تو ایسے ہی ہوں گے جیسے کہ 30/ستمبر 2020ء کو سنائے گئے۔ ایک ایسا بدبختانہ، ناخوشگوار سانحہ جس نے ہندوستان کی صدیوں کی چلی آرہی مذہبی رواداری، سیکولر کردار اور اقدار کو پامال کردیا۔ ایسا حساس اور سنگین مقدمہ جس کا فیصلہ اگر ملزمین کے خلاف بھی آجاتا تو رام مندر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ یکے بعد دیگر ظلم و ستم، ناانصافی کی چکی میں پسے جانے والے مسلمانوں کو کسی قدر تسلی ہوتی‘ ان کے زخمی جذبات و احساس کو مرہم لگ جاتا۔ اصل جو فیصلہ ہونا تھا وہ تو ہوچکا، رام مندر کا سنگ بنیاد دوسری مرتبہ 5/اگست 2020ء کو رکھا جاچکا ہے۔ رہی بات 49 میں سے زندہ بچ گئے 32 ملزمین کو بَری کئے جانے کا فیصلہ تو بقول محمود دریابادی ایک طرح سے اچھا ہی ہوا ورنہ جو لوگ زیرو بن گئے تھے‘ ایک بار پھر ہیرو بن جاتے۔ جو 17ملزمین مرچکے ہیں‘ ان کا نام لینا والا بھی کوئی نہیں۔ اور جو 32 زندہ ہیں‘ ان کا زندوں میں شمار نہیں وہ بے بسی، لاچارگی اور عبرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ 28-30 برس پہلے انہوں نے اپنے یا اپنی پارٹی کے اقتدار کے لئے جو مہم چلائی تھی‘ اس میں وہ کامیاب رہے۔ قدرت کا یہ فیصلہ تھا کہ انہیں وہ مقام نہیں ملا جس کے لئے انہوں نے اس ملک کی شبیہہ کو عالمی سطح پر مسخ کردی تھی۔ البتہ ان کا جو مشن تھا وہ کامیاب رہا۔ انہوں نے بنیاد رکھی‘ اور ان کے بعد کی نسل نے اس پر ایک ہندو راشٹر کی بنیاد رکھ دی۔ اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونئے کٹیار، کلیان سنگھ یہ سب کہاں ہیں‘ نئی نسل تو شاید ان کے نام سے واقف بھی نہیں۔ کیوں کہ گذشتہ 5-7 برس کے دوران اس ملک کی قیادت، یا باگ ڈور ایک فردِ واحد کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اور مستقبل میں اگر ہندو راشٹر بنتا ہے‘ رام مندر تعمیر ہوگی تو اس کا کریڈٹ اُسی فرد واحد کو مل سکتا ہے۔
سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج نے کتنی آسانی کے ساتھ ملزمین کو بے قصور ثابت کردیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اِن قائدین کے بھیڑ کو اُکسانے کے ثبوت نہیں ملے۔ جو تصاویر شہادت کے طور پر پیش کی گئی‘ اس لئے قابل قبول نہیں کہ اس کے نیگیٹیوز نہیں ہیں۔ ان قائدین کی تقاریر کے آڈیو اور ویڈیو واضح نہیں ہیں۔ اور گنبد پر چڑھنے والے غیر سماجی عناصر تھے۔ جو لوگ بابری مسجد کی شہادت کے افسوسناک سانحہ کے وقت موجود تھے‘ انہیں 6/دسمبر 1992ء سے پہلے کے واقعات بھی ذہن نشین ہیں۔ ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی‘ 6/دسمبر واقعہ کی بنیاد تھی۔ اوما بھارتی کا نعرہ ”ایک دھکا اور دو بابری مسجد کو توڑ دو“، سادھوی رتمبرا کے اشتعال انگیز تقاریر کو کون بھول سکتا ہے۔ 6/دسمبر کے واقعہ کے کئی دن پہلے سے ایودھیا میں سادھو سنتوں اور کٹر ہندوؤں اکٹھا ہونے کے لئے کس نے اُکسایا تھا۔ جس وقت بابری مسجد کو تربیت یافتہ کارسیوک پہلے بنیادیں اور پھر دیواریں کھوکھلی کرنے کے بعد رسیوں کی مدد سے گرارہے تھے۔ اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے مسجد کے گنبدوں پر کارسیکوں کی کدال کی ہر ضرب پر تالیاں بجانے والے اہم قائدین میں کون کون تھے؟ یہ سب اخبارات، قومی اور بین الاقوامی جرائد میں ڈاکومنٹری فلموں میں محفوظ ہیں۔ پی وی نرسمہا راؤ کا دامن بھی بے داغ نہیں تھا جو ملک کے وزیر اعظم تھے اور اس قدر سنگین واقعہ کے دوران اس وقت تک سوتے رہے جب تک بابری مسجد کی پوری عمارت زمیں دوز نہیں ہوگئی۔ یہ بال ٹھاکرے تھے جنہوں نے سینہ ٹھوک کر بابری مسجد کی شہادت کا کریڈٹ لیا تھا۔ 19/اپریل 2017ء کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام میں مجرمانہ سازش سے اتفاق کیا تھا۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے وزیر اعظم مودی کے نام ایک مکتوب میں مطالبہ کیا تھا کہ بابری مسجد کی انہدامی کاروائی کے دوران مرنے والے کارسیوکوں کو شہید قرار دیا جائے اور ایودھیا میں ان کے نام کی تختیاں لگائی جائیں۔ اتنے ثبوت اتنے گواہوں کے باوجود عدالت کے فیصلے جانبدار ہوسکتے ہیں‘ ایک عظیم جمہوری ملک کے شایان شان نہیں ہے۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی ایم پی نے بجا طور پر فیصلے کے بعد ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے 30/ستمبر 2020 کو ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ کا سیا ہ ترین دن قرار دیا۔ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں مقدمہ دائر کرے۔ بیرسٹر اسداویسی کے احساسات اپن جگہ واجبی ہے مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ مقدمہ لڑتی بھی ہے اور برسوں بعد جو فیصلہ آئے گا وہ تاریخ دوہرانے کے مماثل ہوگا۔
لگ بھگ ڈیڑھ سو برس تک ہندوستانی مسلمان بابری مسجد کی لڑائی لڑتے رہے۔ ایک طرح سے ایک باب کا خاتمہ ہوا۔ اب یہاں سے کاشی اور متھرا کی مسجدوں کی لڑائی شروع ہوگی۔ متھرا کو کرشن جنم بھونی کہتے ہیں۔ دہلی سے آگرہ سفر کرنے والے سیاح کو گائیڈ متھرا کے بجائے کرشن جنم بھومی کے طور پر بتاتاہے اور یہاں مندر سے چند گز کے فاصلے پر تاریخی شاہی عیدگاہ مسجد ہے۔متھرا میں مسلمان 8فیصد کے لگ بھگ ہیں اور اس میں بڑی حد تک کمی بھی ہوئی ہوگی۔ جہاں مسجد ہے اس کے اطراف بہت کم مسلمان نظر آتے ہیں۔اس سے چار قدم کے فا صلے پر کرشن جنم استھان مندر میں ہزاروں کی تعداد ہندو پوجا پاٹ کرتے نظر آتے ہیں۔اگر راتوں رات بھی مسجد کو نقصان پہنایا جائے تو پتہ نہیں چل سکتا چوں کہ مسجد کو قانونی طور پر یا جبری طور پر حاصل کرناسیاسی مقصد ہے اس لئے جو بھی کیا جائے گا علی الاعلان کیا جائے گا۔
اُسی طرح کاشی یابنارس کی گیان واپی مسجد کا معاملہ بھی ہے‘ جس کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب نے شیوا وشواناتھ کے مندر کو ڈھاکر گیان واپی مسجد تعمیر کی تھی۔ فی الحال بابری مسجد کے بعد شاہی عیدگاہ مسجد اور گیان واپی مسجد اگلا ہدف ہے۔ اور برسوں تک یہ تحریک چلائی جاتی رہے گا۔ جانے کتنے فسادات ہوں گے۔ یوں تو ایک عام اندازے کے مطابق 3ہزر مساجد پر دعویٰ کیا جارہاہے جن کے بارے میں الزام ہے کہ ان مندروں کو مساجد، درگاہوں اور خانقاہوں اور دیگر مقبروں میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ان میں متھرا اور کاشی کے علاوہ گجرات کے ضلع پٹن کی جامع مسجد سدھ پورکے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ ردرا مہالیہ مندر تھی جو بارہویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور علاء الدین خلجی کے آرمی کمانڈر اُلغ خان اور نصرت خان جالیسری نے اُسے مسجد میں بدل دیا۔مدھیہ پردیش کے دھار ضلع میں کمال مولیٰ کی مسجدکے سرسوتی مندر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہا جاتا ہے یہ راجہ بھوج نے 1034 عیسوی میں تعمیر کیا تھا۔ اس مسجد کے بالکل سامنے بھوج شالاہے۔ کمال مولیٰ نامی ایک درویش نے یہاں بسیراکیاتھا اور اس کے ہاتھ پر کئی افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔
الزام ہے کہ 1305ء میں علاء الدین خلجی نے حملہ کیا تھا دلاور خان نامی حکمران نے یہاں نماز شروع کی۔ اور پھر درویش کمال کامقبرہ بنایا۔مغربی بنگال کی ادینہ مسجد، احمد آباد کی جامع مسجد، مدھیہ پردیش کے ویدیشا میں بیجامنڈل مسجد،دہلی کاقطب میناراور مسجد قوت الاسلام پر بھی نشانہ ہے۔ ہم بابری مسجد کو اس لئے نہیں بچاسکے کہ قانونی لڑائی اگر ہم ایک امت واحدہ کے طور پر لڑتے تو جیت ہماری ہوتی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے ایک اور فرقہ اس کا فریق بن گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا موقف کمزور ہوگیا۔ ان کی طاقت تقسیم ہوگئی۔ اور جب کبھی ایسا کوئی حساس مسئلہ آتاہے‘ مفاد پرست عناصر مسلمانوں کے دونوں فرقوں کے قائدین کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں‘ اور معمولی مفادات کے لئے ہم ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اُترپردیش ہو یا کل ہند سطح پر مسلم نام کے قائدین کا کیا حال ہے‘ کس طرح سے وہ اپنے سیاسی اور مالی مفادات کیلئے ہندوستانی مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں۔ شیعہ سنی اختلافات نے ملت اسلامی کا سب سے زیادہ نقصان پہنچاہے۔چاہے وہ ہندوستان میں ہو یا عالم اسلام میں۔ آج شیعہ سنی بلاک میں مسلمان تقسیم ہیں۔ سی آئی اے کے ایک سابق عہدیدار نے حال ہی میں ایک بیان دیاتھا کہ شیعہ سنی اختلافات ان کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔ کاش ہم سمجھ سکیں۔
سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے جو فیصلہ دیا اس پر اب افسوس، رنج و غم کا اظہار کرکے کیاحاصل جبکہ ہم ابتدائی ہی سے یہ کہتے رہے ہیں کہ عدالت کا جو فیصلہ ہوگا قابل قبول ہوگا۔اتحاد کا تو ملت میں فقدان ہے ہی‘ دانشوروں، ایماندار سیاست دانوں، زندہ ضمیر مذہبی رہنماؤں، قابل ماہرین قانون کی بھی کمی کا شدت سے احساس ہونے لگاہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×