احوال وطن

شاہین باغ کے اطراف پولیس کی غیر ضروری ناکہ بندیوں کی وجہ سے عوام کو دشواری ہورہی ہے

نئی دہلی: 23؍فروری (ذرائع) سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ مذاکرات کاروں کی چار دنوں تک مسلسل گفت و شنید کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ دھرنے کے تعلق سے وجاہت حبیب اللہ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔ انہوں  نےشاہین باغ کے احتجاج کو پرامن بتایا ہے۔ حلف نامہ میں ذکر کیا ہے کہ پولیس نے شاہین باغ کےقریب غیر ضروری ناکہ بندی کی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر ان ناکہ بندیوں کو ہٹا دیا جائےتو حالات معمول پر آسکتے ہیں۔ وہیں وجاہت حبیب اللہ نےکہا کہ شہریت قانون ،این پی آر اور این آرسی کے خلاف احتجاج کررہےمظاہرین سےحکومت کو بات کرنی چاہیے۔ آپ کو بتادیں کہ شاہین باغ میں خواتین کادھرنا ستر دنوں سے جاری ہے۔ چاردنوں تک سپریم کورٹ کی جانب سےمذاکرات کار مظاہرین سےبات چیت کرتے رہے لیکن خاطرخواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

حلف نامے میں ، انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مظاہرین سے بات کرنے کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ وجاہت حبیب اللہ نے سڑک کو بند کرنے کو لیکر حلف نامہ داخل کیا ہے۔ سپریم کورٹ نےسنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن کو شاہین باغ مظاہرے کو دوسری جگہ شفٹ کرانے کیلئے مذاکرات کار مقرر کیا ہے اور ساتھ ہی وجاہت حبیب اللہ کو مذاکرات کاروں کا ساتھی مقرر کیا ہے۔

آپ کو بتادیں کہ کل مصالحت کار سادھنارام چندرن شاہین باغ تنہا گئی تھیں اور انہوں نے مظاہرین سے بات چیت کی۔ جس کے بعد مظاہرین نے سات شرطیں رکھی تھیں جن میں سکیورٹی کو یقینی بنانا ۔حراست میں لیے گیے لوگوں کو چھوڑنا ۔اور این پی آر پر روک لگانا شامل تھا۔

سادھنا رام چندرن نے کہا تھا، ’’اگر راستہ نہ کھلا تو ہم آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہم احتجاج ختم کرنے کے لئے نہیں کہہ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میں یہاں حکومت کی طرف سے نہیں آئی ہوں۔ ہم سپریم کورٹ سے کہیں گے کہ آپ کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ آپ کو ایک پارک دے دیا جائے گا جہاں آپ احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔‘‘ تاہم، ان کی اس بات کو تمام مظاہرین نے یکسر مسترد کر دیا اور ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا، ’’ہماری مانگ ہے کہ اگر آدھی سڑک کھل جاتی ہے تو سیکورٹی کے لئے ایلومینیم شیٹوں کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ شاہین باغ کے لوگوں اور جامعہ کے طلبا کے خلاف درج مقدمات کو بھی واپس لیا جانا چاہیے۔‘‘

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×