کسان تنظیمیں مذاکرات کے لئے تیار‘ حکومت صاف نیت سے بات کرے اور تجاویر تحریری شکل میں دے
نئی دہلی: 23؍دسمبر (عصرحاضر) کسان تنظیموں نے ایک بار پھر میٹنگ کر کے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ حکومت ایک ٹھوس تجویز اور کھلے دل کے ساتھ بات چیت کے لیے آگے آئے۔ کسانوں نے کہا صاف نیت سے بات کرے حکومت، ٹھوس تجاویز تحریری شکل میں دیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اب تک حقیقی طور پر کسانوں نے صاف گوئی سے مذاکرات کیے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس مذاکرات میں چالاکی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ متحدہ کسان مورچہ نے بدھ کے روز میٹنگ کے بعد کہا کہ مظاہرہ کررہے کسان اور کسان تنظیمیں حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ حکومت کب کھلے ذہن ، کھلے دماغ اور صاف نیت سے اس بات چیت کو آگے بڑھائے۔ مورچہ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ مسترد کردہ تجاویز کو دہرانے کے بجائے تحریری طور پر کوئی ٹھوس تجویز بھیجے تاکہ اس کو ایجنڈا بناکر جلد سے جلد دوبارہ بات چیت شروع کی جاسکے۔ متحدہ کسان مورچہ نے بتایا کہ حکومت کو ایک خط بھیجا گیا ہے جو کہ حکومت کے 20 دسمبر کے اس خط کے جواب میں ہے جو کسان یونین پنجاب کے درشن پال کو بھیجا گیا ہے۔ یہ خط حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل رہے 39 دیگر تنظیموں کو بھیجا گیا ہے۔ آج میڈیا کے سامنے متحدہ کسان مورچہ نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ حکومت کے ذریعہ بھیجے گئے خط میں یہ پوچھا گیا ہے کہ ہمارا گزشتہ خط صرف ایک شخص کی رائے ہے یا یہ کہ تمام تنظیموں کا نظریہ ہے۔ کسان مورچہ نے مزید کہا کہ سابقہ خط ڈاکٹر درشن پال کے نام بھیجا گیا تھا اور یہ خط متحدہ کسان مورچہ کی اس تحریک میں شامل تمام تنظیموں کی باہمی بات چیت کے بعد متفقہ رائے ہے۔ اس کے بارے میں سوالات اٹھانا حکومت کا کام نہیں ہے۔
مورچہ نے کہا ہے کہ یہ کہنا انتہائی افسوسناک ہے کہ حکومت کی بہت سی دیگر کوششوں کی طرح یہ خط بھی کسانوں کی تحریک کو نئے طریقوں سے بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ حکومت پورے ملک کے کسانوں کی پرامن اور قانونی جدوجہد کو علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کے طورپر پیش کرنے، فرقہ وارانہ اور علاقائی رنگوں میں رنگنے اور اس کو مضحکہ خیز اور غیر معقول طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسانوں نے صاف گوئی سے مذاکرات کیے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس مذاکرات میں چالاکی کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نام و نہاد کسان رہنماؤں اور کاغذی تنظیموں کے ساتھ متوازی بات چیت کرکے اس تحریک کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے جس کا جاری تحریک سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
واضح ہو کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ لائے گئے تینوں زرعی قوانین کے خلاف تقریباً ایک مہینے سے دہلی کے بارڈرس پر کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ جاری ہے، لیکن حکومتی نمائندوں اور کسان لیڈروں کے درمیان کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی مسئلہ کا حل نہیں نکل سکا ہے۔ گزشتہ دنوں مودی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ تجویز کو کسانوں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس میں کسانوں کے مطالبات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، اور ساتھ ہی کسانوں نے آئندہ کوئی بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ لیکن اب ایک بار پھر کسان تنظیموں نے میٹنگ کر کے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرہ کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ حکومت ایک ٹھوس تجویز کے ساتھ اور کھلے دل کے ساتھ بات چیت کے لیے آگے آئے۔