احوال وطن

آخری عشرہ میں اپنے رُوٹھے رب کو منانے کے لئے کثرت سے عبادت کریں:مولانا محمد سلمان بجنوری

دیوبند،13؍ مئی (سمیر چودھری )امت مسلمہ کا ہر فرد اس بات سے واقف ہے کہ ماہ رمضان المبارک کو جو فضیلتیں اور مخصوص برکات حاصل ہیں وہ اسلامی کلینڈر میں کسی دوسرے مہینہ کو حاصل نہیں ہے، اس لئے امت مسلمہ کے ہرفرد کو چاہئے کہ اس ماہ سے وہ جس قدر فیض حاصل کرسکتا ہو حاصل کرے، کیونکہ زندگی اور موت غیب کی باتیںہیں اس لئے کچھ پتہ نہیں کہ آئندہ سال یہ ماہ مبارک کس کو حاصل ہو اور کون اس دنیا سے رخصت ہوجائے، ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر میری امت کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرتی کہ پورے سال رمضان ہی رہے۔ خود حضرت موسی علیہ السلام نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اللہ رب العزت مجھے امت محمدیہ میں شامل فرمادے تاکہ میں بھی رمضان المبارک کی برکات سے بہرور ہوسکوں۔دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا محمد سلمان بجنوری نے رمضان المبارک کے تیسرے اور آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ، عشرۂ رحمت کے بعد دوسرا عشرہ، عشرۂ مغفرت بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور ماہ صیام کا تیسرا اور آخری عشرہ جو جہنم سے نجات پانے کا عشرہ ہے، اس کاآغاز ہورہا ہے۔ مولانا سلمان بجنوری نے کہا کہ پہلے دو عشروں کے مقابلہ تیسرا عشرہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیو نکہ اس عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدرآتی ہے جس میں عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی راتوں کے برابر ہے ، دوسرے اس عشرہ میں مساجد میں اعتکاف کیا جاتا ہے، معتکفین کو بھی کثیر اجروثواب عطاکیا جا تا ہے۔ شب قدر کی اہمیت وفضیلت سے متعلق مولانا سلمان بجنوری نے بتایا کہ نبیٔ کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو حکم دیا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں راتیں طاق راتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی رات شب قدر ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر علماء و صلحا کی رائے یہ ہے کہ شب قدر 27ویں شب میں ہوتی ہے، تاہم یہ یقینی نہیں ہے اس لئے شب قدر پانے کے لئے آخری عشرہ کی ہر طاق رات میں کثرت کے ساتھ عبادت وریاضت کرنی چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ آخری عشرہ کے کسی بھی لمحہ کو ضائع نہ ہونے دیں اور کثرت تلاوت اور عبادت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ مولانا سلمان بجنوری نے کووڈ19کی مہلک وبا کے پوری دنیا پر اثرات اور اس کے سبب نافذ لاک ڈائون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہجری سال 1441؁ھ (2020)کا ماہ رمضان اسلامی تاریخ میں الگ نوعیت کا رمضان درج ہوگا کیونکہ اسلام کی ابتداء سے اب تک شاید یہ پہلارمضان ہے جب تقریباً پوری دنیا میں مسلمان مساجد میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی،نماز تراویح اور جمعۃ الوداع کی نماز ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ عمرہ کی ادائیگی کے لئے بارگاہ رسالت میں حاضری کی سعادت سے محروم ہیں، روزہ داروں کو افطار نہیں کراسکتے، مستحقین اور دینی اداروں کا دل کھول کر تعاون نہیں کرسکتے اور اب امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب کے اعلان اور بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ماہ صیام کی خیروبرکت کے اختتام پر عیدگاہ میں نماز عید الفطر بھی ادانہیں کرسکیں گے۔ مولانا موصوف نے کہا کہ یہ سب باتیں تاریخ میں درج ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایمانی نظر سے دیکھا جائے تو تمام مسلمانوں کے لئے یہ بڑا محرومی کا وقت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ سے کس قدر سخت ناراض ہیں کہ عام مساجد تودور کی بات بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی تک بھی رسائی بند ہے یہ ہم سب کے لئے عبرت کا مقام ہے لیکن لاک ڈائون کی وجہ سے ہمارے پاس یکسوئی اور فرصت کے مواقع ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم فرصت کے ان لمحات کو عبادت وریاضت اور اپنے روٹھے ہوئے رب کو راضی کرنے کے لئے گزاریں، لیکن شاید افسوس کہ ابھی بھی ایسا نہیں ہورہاہے بلکہ فضولیات میں ہم اپنے قیمتی لمحات کو ضائع کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف چند بندگان خداہی مساجد کو آباد کئے ہوئے ہیں لیکن گھروں میں عبادت کے لئے پابندی نہیں ہے، اس کے باوجود ہم رمضان کی حرمت وعزت کو نظر انداز کرکے معاصیات کے مرتکب ہورہے ہیں اور لاک ڈائون کے خاتمہ کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ مولانا سلمان نے کہا کہ اللہ رب العزت نے ہم سب کو صحت و تندرستی جیسی عظیم نعمت سے نواز رکھا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کیسی ناشکری کی بات ہے کہ موجودہ جان لیوا عالمی وبا کی غضبناکی کے باوجود عبادت وریاضت نیز توبہ واستغفار سے غافل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غفلت کو چھوڑ کر باری تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور کرنا چاہئے کہ ’’اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کروگے تو میں تمہیں مزید نوازوں گا لیکن اگر ناشکر ی کروگے تو میری پکڑ بہت سخت ہے‘‘ ۔ اس لئے ہمیںیہ غور کرنا چاہئے کہ رب کریم کی بے پناہ نوازشات کے باوجود اس کی بندگی سے غفلت ہلاکت خیز اور کفران نعمت ہے، جو یقینا اس کے غضب اور ناراضگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ مولانا موصوف نے کہا کہ آقائے دوجہاں ؐ کا ارشاد ہے کہ ہلا ک وبرباد ہو وہ شخص کہ جس کو ماہ مبارک نصیب ہو اور وہ اپنی بخشش کا سامان نہ کرسکے اس لئے ہمیں غوروفکر کرنا چاہئے کہ کیا ہم مذکورہ حدیث کا مصداق بننا چاہتے ہیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×