احوال وطن

شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے

نئی دہلی: 20؍دسمبر (ذرائع) شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرہ ہورہا ہے کئی جگہوں سے تشدد کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ دہلی میں لیفٹ پارٹیوں کے احتجاج کے بعد حالات بگڑ گئے ہیں، انتظامیہ کو کچھ وقفے کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کرنی پڑی۔ ۳۰؍ سے زیادہ میٹرواسٹیشن بند رہے، پچاس سے زیادہ سڑکیں بلاک اور سو سے زائد راستوں کے روٹ تبدیل کیے گئے۔ دہلی کے علاوہ ممبئی، بہار، اترپردیش، آسام، مغربی بنگال، حیدرآباد، بنگلورو میں بھی زبردست احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔ پولس نے کئی جگہوں سے مشہور سماجی اور سینئر لیڈران کو گرفتار بھی کیا ہے ۔ احتجاجی مظاہرے کے دوران بنگلورو میں مشہور مورخ رام چندر گوہا، دہلی میں کانگریسی لیڈر سندیپ دکشت، طلبا لیڈر عمر خالد، ڈاکٹر تسلیم رحمانی، یونائٹیڈ اگیسنٹ ہیٹ کے ندیم خان، سماجی کارکن یوگیندر یادو، تحسین پونا والا، اور سی پی آئی لیڈر سیتا رام یچوری سمیت پوری دہلی سے پانچ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیاہے۔ آئین مخالف قانون کے خلاف راجدھانی دہلی کے لال قلعہ، منڈی ہائوس جامعہ علاقے میں زبردست احتجاج ہوا ، وہیں بھوپال، بنگلورو، حیدرآباد، چنئی، ممبئی ، احمد آباد اور جموں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ دیگر ریاستوں میں بہار کی راجدھانی پٹنہ، دربھنگہ، اتردیش کی راجدھانی لکھنو اور سنبھل اضلاع شامل ہیں، حیدرآباد، کرناٹک میں بھی زبردست احتجاج ہوا۔ گلبرگہ میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود پچاس ہزار کے قریب عوام سڑکوں پر اتر آئے، وہیں بنگلورو میں بھی یہی صورت حال رہی۔واضح رہے کہ بائیں بازو کی جماعتوں اورسماجی تنظیموں نے شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے جمعرات کو ملک گیر بند کا اعلان کیا تھا۔ جس کی وجہ سے پورے ملک میں متنازعہ قانون کے خلاف ایک لہر دوڑ گئی ۔مظاہرے اور تشدد کے واقعات تقریباََ سبھی ریاستوں میں پیش آئے۔ ۶ریاستوں میں جہاں احتجاج ہوا ہے ، وہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ بیشترجگہوں پردفعہ 144 نفاذکے باوجود جم کر مظاہرے ہوئے ۔ممبئی، بنگلورو، پٹنہ، لکھنو، دہلی، کولکاتہ، حیدرآباد، احمدآبادسمیت اہم شہروں میں پورانظام درہم برہم ہوگیا،بہارکے مختلف اضلاع میں ٹرینیں روکی گئیں۔امارت شرعیہ سمیت اہم تنظیموں نے بھرپورساتھ دیاہے۔اہم شہروں میں ٹریفک کا تو برا حال رہا ہی، دہلی میں پروازیں منسوخ ہوئیں، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اورفون کال بند کرنا پڑا، لکھنو کے بائیس اوردہلی کے تیس میٹرو اسٹیشن بندکیے گئے ۔اس دوران مظاہرین کاایک ہی مطالبہ ہے کہ اس غیرآئینی قانون کو واپس لیاجائے۔گرچہ حکومت دلاسے دے رہی ہے اور متضاد بیانات بھی آرہے ہیں لیکن اصل سوال کاجواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ اترپردیش کے سنبھل میں مظاہرین نے بس کو نذر آتش کردیا۔ لکھنؤ میں ، ہجوم نے پولیس پر فائرنگ کردی۔ملازمین دہلی-گڑگاؤں ایکسپریس وے پرجام کی وجہ سے پھنس گئے ، انڈیگو کو دہلی سے ۱۹؍پروازیں منسوخ کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ 16 پروازوں میں تاخیر ہوئی۔ مرکزی وزارت داخلہ شہریت کے قانون کی مخالفت کے معاملے پر ملک بھر میں ایک اجلاس کرے گی۔ اسی دوران ، کانگریس کی کورکمیٹی کا اجلاس اس معاملے پر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر ہوا ہے۔ کولکاتہ میں اسی جلسے میں ، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ یا نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن جیسی منصفانہ تنظیموں کو یہ جاننے کے لیے کہ کتنے لوگ اس کی حمایت میں ہیں اور یہ جاننے کے لیے کہ شہریت ترمیمی قانون کے معاملے پر رائے شماری کرنی چاہیے اوراس کے خلاف کتنے ہیں۔دہلی میں ۳۰ میٹرو اسٹیشن بند کرنے پڑے،جگہ جگہ سخت جام کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جامعہ کیمپس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آج ساتویں دن بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور گردو نواح میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف زبردست احتجاج جاری رہا، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ آج کے اس احتجاج میں جامعہ کے طلبا ء کے ساتھ بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں، دیر شام تک خواتین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولس تشدد اور طلبا کی حمایت میں قندیل مارچ نکالا، آج کے اس احتجاج میں طلبا برادری نے بھی بڑی تعداد شرکت کی جس میں لڑکیوں کی تعداد بھی کافی تھی۔ آج سکھ برادری کی جانب سے کھانے پینے کا بھی نظم کیاگیا تھا، جبکہ دیگر سماجی تنظیموں اور اوکھلا کے مقامی باشندوں کی جانب سے چائے ، پانی، ناشتہ ، کھانا وغیرہ کا بھی نظم تھا۔ طلبا کا یہ احتجاج پرامن تھا گیٹ نمبر ۷ اور ۸ کے آس پاس طلباء رسیوں دائرہ بناکر ایک طرف احتجاج کررہے تھے جبکہ دوسری طرف سے لوگوں اور گاڑیوں کی آمدورفت میں کوئی دشواری نہ ہو اس کے لیے رضاکارانہ طور پر جامعہ کے طلبا سفید ٹوپی پہن کر پورے احتجاج کو منظم طریقے سنبھالتے ہوئے دیکھے گئے۔ ادھر دوسری جانب ہائی کورٹ میں آج پولس تشدد کے خلاف دائر عرضی پر شنوائی ہوئی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وکیلوں نے شواہدات پیش کیے ساتھ ہی کورٹ کو بتایا کہ کس طرح سے پولس بغیر انتظامیہ کی اجازت کے کیمپس میں داخل ہوئی اور طلبا کو مارا پیٹا ، بائیک اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی ، لائبریری میں پڑھ رہے طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا، مسجدوں میں نمازیوں کو بھی زدوکوب کیا، ان تمام کی شنوائی کے بعد ہائی کورٹ نے دہلی پولس سے جلد از جلد جواب داخل کرنے کےلیے کہا ہے۔ اور ابھی شنوائی کی تاریخ ۶؍فروری متعین کی ہے۔ آج جامعہ ملیہ انتظامیہ نے پریس ریلیز جاری کرکے وضاحت کی کہ ’’کیمپس میں پولیس کارروائی سے متاثرجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی مدد کے لئے رضاکارانہ عطیات / شراکت کے لئے کچھ لوگوں کی طرف سے اپیل کا نوٹ لیتے ہوئے، یونیورسٹی نے واضح کیا ہے کہ اس نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے کسی بھی تنظیم کی کسی بھی کوشش کی یونیورسٹی حوصلہ شکنی کرتی ہے کیونکہ اس کے پاس طلبہ کو تمام طبی امداد فراہم کرنے کے لئے وسائل موجود ہیں‘‘۔وہیں سی پی آئی-ایم کارکنوں نے بہار کے پٹنہ، دربھنگہ سمیت کچھ شہروں میں ریلوے پٹریوں کو روک دیا۔ کانگریس لیڈر سندیپ ڈکشٹ سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا،جنہوں نے دفعہ 144 کے باوجود دہلی میں مظاہرہ کیا۔ ۳۰میٹرو اسٹیشنوں کو بند کرنا پڑا۔ بنگلورو میں ایک مظاہرے کے دوران پولیس نے مورخ رام چندر گوہا کو تحویل میں لیا۔ 50 افراد کو تلنگانہ کے حیدرآباد میں بھی حراست میں لیا گیا۔کولکاتہ میں ریلی کے دوران ، وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے ریلی میں کہا ہے کہ بی جے پی کا قیام 1980 میں ہوا تھا۔ آج وہ ہم سے 1970 کی شہریت کے دستاویزات مانگ رہی ہے۔ سنبھل میں مظاہرین نے ایک بس کو نذر آتش کردیا۔ لکھنؤ کے ٹھاکر گنج اورحسن گنج میں 6 مقامات پر تشدد ہوا۔ لکھنؤ میں مدھی گنج چوکی کے قریب تین بائیکیں جل گئیں۔ شرپسندوں نے فائرنگ کردی جس کے بعد پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی۔ٹھاکر گنج کی ستھکھنڈا چوکی جلا دی گئی۔ اور پریس کلب کے قریب آتش زنی کی۔ ایک ٹی وی چینل کی او بی وین کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔ لکھنؤ کے 22 میٹرو اسٹیشن بند کردیئے گئے۔ہزاروں افراد حضرت گنج مین مین چوراہے سے پرانے لکھنؤتک سڑکوں پر اترے۔ پولیس کو شرپسندوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑی۔پولیس نے کانگریس کے ریاستی صدراجے کمار لالو اور ایس پی کے یوتھ ونگ کے متعدد رہنماؤں سمیت 20 سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔سیکیورٹی کے پیش نظر ، تمام اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ احتیاط کے طور پر 3 ہزار افراد پر پابندی ہے۔ 65 افراد کو گرفتار کیاگیا۔لال قلعے کے آس پاس سیکشن 144 نافذ ہونے کے بعد بھی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی۔وسطی اور شمالی اضلاع کے علاوہ منڈی ہاؤس ، سلیم پورجعفرآباد ، مصطفی آباد ، جامعہ نگر اور بوانا کے علاقوں میں صبح 9 بجے سے دوپہر 1 بجے تک انٹرنیٹ بند رہا۔ جامعہ اور سلیم پور میں پرتشدد مظاہروں کے بعد پولیس نے حساس علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہاہے کہ اس وقت ملک میں امن وامان کی صورتحال منہدم ہوگئی ہے۔ میں مرکز سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ شہریت کا قانون واپس لیں اور نوجوانوں کو ملازمت دیں۔ شہریت کے قانون کے خلاف ریاست کے کئی شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ سی پی آئی(ایم) کے کارکنوں نے پٹنہ ، دربھنگہ اورکھگڑیا میں ٹرینیں روکیں۔ جہان آباد میں قومی شاہراہ 10 اور این ایچ 83 نے بلاک کردیا۔ اس بند کو کانگریس ، آر ایل ایس پی اور دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔کلبرگی میں ، بائیں اورمسلم تنظیموں نے سیاہ پرچموں سے مظاہرہ کیا۔ پولیس نے 20 افراد کو حراست میں لیا۔ بنگلورو ، کلبرگی ، جنوبی کنڑا اور اس سے ملحقہ اضلاع میں آئندہ تین دن (21 دسمبر کی رات تک) دفعہ 144 نافذ رہے گی۔ وزیراعلیٰ بی ایس یدیورپا نے کہا ہے کہ احتجاج اوربندکے پیچھے کانگریس کا ہاتھ ہے۔احمد آباد کے علاقے سردرباغ میں پولیس کو شرپسندوں پر لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ سہ پہرکے وقت ، ہجوم نے مرزا پور کے علاقے میں پتھراؤ کیا۔ شام کے وقت ، شاہ عالم کے علاقے میں پتھراؤ کے نتیجے میں 20 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔وہیں ممبئی کے اگست کرانتی میدان میں بھی زبردست زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں ہندومسلم ایک ساتھ ملک اور آئین ودستور کی حفاظت کےلیے شریک ہوئے اور مودی شاہ حکومت کے خلاف نعرے بازی کی ۔ وہیں مالیگاؤں ، ناسک ، جلگاؤں اور منمند اور امراوتی میں بھی بند رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم طبقےکے لوگ اور کالج کے طلبا وطالبات سڑکوں پر اترے۔ مظاہرین نے قانون کوواپس لینےکا مطالبہ کیا۔ طلباء وطالبات کا کہنا تھا کہ وہ دہلی واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کی حمایت میں سڑک پراترے ہیں، جب تک اس قانون کوواپس نہیں لیا جائےگا، تب تک ہمارا احتجاجی مظاہرہ جاری رہےگا۔ بھوپال کےاقبال میدان میں ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئےلوگوں نےقانون کی مخالفت میں پرامن طریقے سےاحتجاج کیا۔حیدرآباد میں ریلی میں شرکت کیلئے جانے والوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔نامپلی نمائش میدان سے باغ عامہ تک ریلی نکالنے کی بائیں بازو کی جماعتوں نے اپیل کی تھی جس پر نامپلی کے قریب پولیس کو بڑے پیمانہ پر تعینات کردیاگیا۔پولیس نے اس ریلی میں حصہ لینے کے لئے آنے والوں بشمول برقعہ پوش مسلم لڑکیوں اور خواتین کو بھی حراست میں لے لیا۔سابق رکن پارلیمنٹ و سی پی آئی رہنما عزیر پاشاہ سمیت طلبہ،نوجوانوں اور طلبہ تنظیموں کے لیڈروں کو بھی حراست میں لے لیا۔کلکتہ میں فلمی دنیا اور فن و ثقافت سے وابستہ کئی اہم شخصیات سڑک پر اتر شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کی قیادت کی۔ڈائریکٹر اور اداکار اپرنا سین اور پلے رائٹر کوشک سین مظاہرین کے اگلے صف میں تھیں۔کسی بھی سیاسی جماعت کے بینر کے بغیر بڑی تعداد میں لوگ اس مہم میں شامل تھے۔اس میں کلکتہ یونیورسٹی سمیت کئی اہم یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء نے بھی اس جلوس میں شرکت کی۔
انقلاب زندہ باند، مودی شاہ مردہ باد کے نعروں کی گونج، جامعہ اور اے ایم یو کے طلبا پر تشدد کی مذمت، دہلی میں پانچ ہزار کے قریب گرفتاری، دفعہ 144؍ غیر موثر، یوگیندریادو،رام چندر گوہا، سندیپ دکشت اور عمر خالد کی گرفتاریوں سے احتجاج میں شدت، عام زندگی مفلوج، نظم ونسق درہم برہم، مرکز اور ریاستی سرکاروں کے پسینے چھوٹے، یوپی ،بہاراور گجرات تشدد، فائرنگ ، پتھراؤ، آتش زنی کی واردات، پٹنہ اور بکسر میں ٹرینیں روکی گئیں، کجریوال کا ایکٹ واپس لینے کا مطالبہ ، سبھی کمپنیوں کے فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ، ۱۶؍پروازیں منسوخ، دہلی کے ۳۰ لکھنو کے ۲۲ میٹرو اسٹیشن بند ، جامعہ کے طلبا کا ساتویں روز بھی احتجاج جاری ، تشدد عرضی پر دہلی ہائی کورٹ میں سماعت، پولس سے جواب طلب
سی اے اے واپس لینے کے لیے مجبور کریں گے:سیتارام یچوری
بی جے پی نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کےلیے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا: جسٹس کاٹجو
یہ بل ہندو اور مسلمان نہیں بلکہ ہندوستان کے خلاف ہے : کنہیا کمار
ہم ایمر جنسی کے دور میں ہیں : تحسین پونا والا
جس قدر آواز دباؤ گے اتنی تیز آواز اٹھے گی: پرینکا گاندھی
یہ قانون ملک کی روح پر حملہ ہے: پپو یادو
تشدد کرنے والوں کی جائیدادضبط کریں گے: یوگی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×