مساجد کی مرکزیت بحال ہوگی تومعاشرہ میں صالح انقلاب آئے گا
پٹنہ: 11؍جنوری (نمائندہ) مذہب اسلام میں مساجد کو ایک خاص مرکزیت حاصل ہے، وہ اسوۂ نبوی کے آئینہ میں صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ تعلیم گاہ، تربیت گاہ،مرکزدعوت دین اورملی وحدت واجتماعیت کے سبق کی عملی درسگاہ بھی ہے، جب تک مساجد کی یہ مرکزیت بحال رہیں، اس وقت تک اسی ایک پاورہائوس سے دین کے ہرشعبہ کو روشنی ملتی رہی، آج بھی ضرورت ہے کہ مساجد کی اس مرکزیت کو بحال رکھنے پر پوری توجہ دی جائے، ائمہ کرام اورمساجد کے ذمہ داران صرف مساجد کی ظاہری تعمیر پر توجہ نہ دیں بلکہ مساجد کو سجدوں سے آباد رکھنے، بنیادی دینی تعلیم کے لئے مسجد میں مکتب کا نظام قائم کرنے، ناخواندہ بزرگوں اورجوانوں کے لئے قرآن پاک سیکھنے کا حلقہ لگانے کا اہتمام کریں، مساجد کے انہیں کردار سے معاشرہ میں صالح انقلاب اوردین وایمان کی روشنی عام ہوسکتی ہے، ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم جناب مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نے بہار شریف کے کاغذی محلہ کی مسجد میں ضلع نالندہ کے ائمہ کرام اورخواص ودانشوران کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہی، انہوں نے قرآنی آیات، اسوۂ نبوی اورسیرت صحابہ کی روشنی میں مختلف جہتوں سے مساجد کی مرکزیت اوراس کے از سرنوبحال کرنے کی ضرورت پر زوردیا، اس موقع پر انہوں نے حضرت امیر شریعت مدطلہ کی ہدایت پر امارت شرعیہ کی طرف سے خود کفیل دینی مکاتب کے قیام، معیاری عصری تعلیم کے لئے معیاری اسکولس اورکوچنگ سنٹر کے انتظام اور اردو زبان کے پڑھنے پڑھانے کے لئے جاری تحریک کو بھی موثر انداز میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ نئی نسلوں کے دین وایمان کی حفاظت کے لئے بنیادی دینی تعلیم کو عام کرنا بہت ضروری ہے، تعلیم کے بھگواکرن کو حکومت نے اپنی ذمہ داری اوراصل سمجھ لیاہے، ان حالات میں مکاتب دینیہ کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، امیر شریعت مفکراسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کی ہدایت پر امارت شرعیہ آج گائوں گائوں ،قصبہ قصبہ اورشہر میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کی جو تحریک چلارہی ہے اس کی اہمیت وافادیت کو جلد ہی آپ محسوس کریں گے کہ آج کے دور میں بچوں کو دین شریعت کا علم سکھانا کتنا ضروری ہوگیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہرمحلہ کی مسجد میں مکاتب قائم کیے جائیں، کیونکہ نئی نسلوں کے دین وایمان کے تحفظ کے لئے مکاتب کی تعلیم وتربیت سے بہتر کوئی اورطریقہ نہیں ہوسکتاہے، خاص طورپر حکومت ہند نے جو نئی قومی تعلیمی پالیسی لاکر جس خاص مذہب میں اس ملک کے تمام بچے بچیوں کو رنگ دینے کی کوشش کی ہے اس کے پیش نظر دینی بنیادی کے مکاتب کی اہمیت کا احساس ہرفکر مند باشعور ذمہ دار حضرات کو ہونا چاہئے، شہر سے لیکر گائوں تک جہاں مسلمانوں کی چھوٹی بڑی آبادی ہو دینی تعلیم کی فکر کرنی چاہئے، مساجد کے ائمہ کرام سے تعلیمی خدمات لیں اوراس خدمت پر ان کی حوصلہ افزائی ہدیہ تحفہ کی شکل میں کریں، اسی طرح آج اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ بچی کی عصری علوم میں کامیابی اوران کی پاکدامنی کے لئے محلہ ہی میں کوچنگ وٹیوشن کا انتظام کے لئے اہل علم اورفکر مند حضرات آگے بڑھیں اورباصلاحیت اساتذہ کی مدد سے کوچنگ سنٹر قائم کریں ،اس کا فائدہ جہاں عصری تعلیم کے میدان میں کامیابی ملے گی وہیں دوسرا فائدہ یہ ہوگاکہ اسلامی ماحول میں اچھے اخلاق وکردار اورتربیت سے آراستہ ہوں گے۔اسی طرح اردو زبان جوہمارا ایک ملی سرمایہ ہے اس زبان کے پڑھنے پڑھانے کی چلن کو بھی زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے۔اس اجتماع کے انعقاد اوراس کی کامیابی میں محترم جناب انصار رضوی صاحب اورنوجوانوں کی مقامی ٹیم نے کلیدی حصہ لیا۔