سیاسی و سماجی

جمیعۃعلماءکی قابل تقلید سرگرمیاں

تقریباچھ ماہ سے کورونا کاقہر جاری ہے۔خلق خداپور طرح عالمی وباء کی زد پرہے۔ اب دنیا کے تقریباًتمام ممالک اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ایک طرف دنیابھر کے ’طبیبِ وقت‘ وباء کاعلاج دریافت کرنے میں ناکام ہیں تودوسری جانب’حاکمانِ مملکت‘ کوروناسے اپنے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھ پانے کی جدوجہد میں پسپائی کے شکار ہیں۔ ہرچندکہ بساط بھرہرکوئی اس تگ و دو میں ہے کہ کس طرح جلد سے جلد اس وباء کے بنیادی مادہ کی تشخیص کی صورت نکل آئے اور بنی نوع انسانی کو راحت بہم پہنچائی جاسکے مگرطبی تحقیق قدرت کے اس قہرکے سامنے پوری طرح بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اس وباکی وجہ سے انسانی زندگی ذہنی وجسمانی دونوں لحاظ سے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، اقتصادی نظام چوپٹ اورمعاشی صورتحال ابتر بن چکی ہے۔نتیجتاً تمام تراحتیاطی تدابیر کے باوجود پوری دنیااس کی گرفت میں آچکی ہے۔
ہماراملک ہندوستان کورونا کی عالمی درجہ بندی میں چوتھے مقام پر پہنچ چکاہے اوردن بہ دن یہاں بھی صورتحال خوفناک ہوتی چلی جارہی ہے۔ ہمارے ملک کا میڈیکل شعبہ بھی کسمپرسی کے نازک دورسے گزررہا ہے۔ایام کورونا میں اُن لوگوں کو بھی سخت دشواری جھیلنی پڑرہی ہے،جودوسری بیماریوں سے متاثرہیں۔ اگروقت رہتے انہیں طبی سہولیات مہیانہ کی گئی تو اُن کی جان کوخطرہ ہوسکتاہے۔ حکومت خاص کر صوبائی حکومتیں اپنے اپنے طورپر لوگوں کو طبی سہولیات پہنچانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن اس وباکی شدت کے سامنے ہر ایک کوشش بے اثراورہر ایک حکمت عملی بے فیض ثابت ہورہی ہے۔
موجودہ حالات میں ملک کی اقلیت خاص کرمسلم اقلیت کو اس مہاماری کے دور میں کئی محاذ پر پریشانیوں کا سامناہے۔ چاہئے وہ میڈیاکے ایک طبقہ کے ذریعہ تبلیغی جماعت کی آڑمیں یہاں کے مسلم اقلیت کو معتوب ٹھہرانے کی بات ہو،سی اے اے مخالف پرامن احتجاج میں شامل افراد کی گرفتاری ہو،اولیاء اللہ کی شان میں میڈیا کی گستاخی ہویاپھر معاشی طورپر لوگوں کے کاروبارکا دیوالیہ ہوجانا ہو،یہ تمام تر ایسے معاملے ہیں،جن سے مسلمان براہ راست متاثرہوررہے ہیں۔
کوروناکی وجہ سے بالعموم اگرملک کے غریب لوگوں کی غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ بہ طورخاص ملک کے مسلمانوں کیلئے ’ایام کورونا‘ چیلنج بن کرنمودار ہواہے۔یوں ملک کی مسلم اقلیت پر جو چوطرفہ مار مار پڑرہی ہے،اُس کی منظر کشی سے الفاظ قاصر ہیں۔جب مسلم اقلیت معاشی اورمعاشرتی دونوں لحاظ سے مصیبت میں گرفتار ہوتو ایسے حالات میں فطری  بات ہے کہ مسلم اداروں کی دقتیں بھی بڑھیں گی اور اِنہیں بھی حالات کی ستمگری کا شکار ہونا پڑے گا۔چنانچہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ فی الوقت ملک میں کئی سطحوں پر پھیلے ہزاروں مدارس ومکاتب کے بقا اوروجودتسلسل پرایک سوالیہ نشان لگ گیاہے۔ آئے دن یہ خبریں آرہی ہیں کہ فلاں ادارے نے اپنے ملازمین کو فی الحال کام سے فارغ کردیا ہے،جو لمحہ فکریہ ہے۔
مسلم اداروں کوبالخصوص ایسی دقتیں جھیلنی پڑرہی ہیں جس کا تصوربھی فی الحال ممکن نہیں ہے۔ ملک کے اکثرمدارس ومکاتب اور ملی تنظیموں کی تمام تر سرگرمیاں قوم کے غیوراور صاحب ثروت لوگوں کے چندوں سے ہی انجام پاتی رہی ہیں اور موجودہ حالات میں مالیات کا حصول چونکہ ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے،لہٰذامسلم اداروں کیلئے یہ’دورِ کورونا‘ وجودبچانے کی ایک چیلنج بن گیاہے۔یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے کہ آج جو ہمارے سروں پرچند ٹوپیاں گاؤں درگاؤں اورشہردرشہر نظرآرہی ہیں یہ ان ہی مدارس ومکاتب کی دین ہیں۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ آج بھی ملک کے دورافتادہ علاقوں میں لوگ لاعلمی کی وجہ سے اپنے دین کا سوداکربیٹھتے ہیں۔ہماراوہ طبقہ جو سوشل سائٹ پر سرگرم ہے، جذبات میں آکر ہمہ وقت اپنے بڑوں کی قیادت کو قال وقیل سے تعبیر کرتے ہوئے بعض وقت حدسے آگے نکل جاتا ہے، اسے احساس ہی نہیں رہتاکہ باغ میں بوڑھے شجر کی چھاؤں نئے درختوں کے بہ نسبت کہیں زیادہ دیر پاہوتی ہے!۔
موجودہ تناظرمیں پورے اعتماد کے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سرخیل اکابرین امت، جنگ آزادی کے ہراول دستہ کے سپہ سالاراورمجاہدین جنگ آزادی کی نیم سحرگاہی کی امانت ’جمعیۃعلماء ہند‘جو اپنے شاندارماضی کے سوسال پورے کررہی ہے، اس نازک گھڑی میں جب کہ ملت ناہموارراستہ سے گزررہی ہے، اس جماعت کی قیادت نے آگے آکر ملت کی شیرازہ بندی کے کام کوآگے بڑھ کر انجام دیا ہے اور لوگوں کو اس بات کا احساس کرایاہے کہ ہم آپ کو اس طرح منجدھار میں تنہانہیں چھوڑسکتے ہیں۔ بزروگوں کی اس قدیم جماعت کی قیادت موجودہ وقت میں ایک ایسے درویش صفت انسان کے ہاتھ میں ہے جس نے اپنی پیرانی سالی،ضعیف العمری اور وقت کا محدث ہونے کہ باوجودبھی اس جماعت کی سرگرمیوں پر آنچ نہیں آنے دی ہے۔ چاہئے وہ دہشت گردی کے الزام میں مقید بے قصورنوجوانوں کی رہائی کا معاملہ ہویا پھر کسی دنگافسادمیں بیوہ ہوگئی بے یارو مددگار بیوہ کی ماہانہ معقول وظیفہ سے کفالت کا،یا مالی طورپر بدحال ملت کے نوجوانوں کی تعلیمی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں آسانیاں پیداکرنے کیلئے تعلیمی وظاءٖف کا یہ وہ کام ہے جو جمعیۃ تسلسل کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔یہاں پر ماضی قریب کے کہنہ مشق، بیباک صحافی مرحوم حفیظ نعمانی ؒ کے موقف کوپیش کرنابرمحل ہوگاجن کا خیال ہے کہ”اس وقت پورے ملک میں تنہا مولانا ارشدمیاں ہیں جو ہر مورچہ پر تنہالڑرہے ہیں جو رفتہ رفتہ اپنے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کاعلمی اور روحانی مقام لے رہے ہیں،ارشدمیاں جمعیۃکے ایسے صدربننے والے ہیں جیسے شیخ الاسلامؒ تھے، پورے شمالی ہند میں شاید ہی کسی نے کیرالہ کے سیلاب میں ان کی کوئی مددکی ہولیکن مولاناارشدمیاں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ پورے ملک کے مسلمانوں کے سرپرست ہیں“ اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ انہوں نے اس رفاہی کاموں میں کبھی بھی مذہب کو آڑے نہیں آنے دیا۔یہی وہ صفت خاص ہے جو ان کو دوسرے سے منفرد کرتی ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ کورونا کے اس جاں گسل دورمیں جمعیۃعلماء ہند کی جو سرگرمیاں ہے وہ ہر لحاظ سے قابل تقلید ہے جمعیۃعلماء ہند کے سدرمولانا سیدارشدمدنی کی تمام تر قانونی جدوجہد درحقیقت قوم کو احساس کمتری کے اثرسے باہر نکالنے کیلئے ہیں،جمعیۃکے موجودہ قیادت آزمائش کی اس گھڑی میں جو انسانی خدمت انجام دے رہی ہے وہ بھی سراہنے کے قابل ہے۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ملک کی زہر آلودمتعصب میڈیا نے تبلیغی جماعت کی آڑمیں مسلمانوں کو ویلن بناکر ملک کے سامنے پیش کیا اور برادران وطن کے دلوں میں اس وبائی جرثومہ کے پھیلنے کی وجہ مسلمانوں کو قراردیدیا۔ نتیجتاً ملک کا مسلمان مشکوک نظروں سے دکھاجانے لگا۔ اس وقت بھی جمعیۃنے ان متعصب اور بے لگام میڈیا کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنے کا کام کیا اور ملک کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے تبلیغی جماعت کے غیرملکی ساتھیوں کی بروقت پیروی کرکے ان کی ضمانت کاا نتظام کیا، ان کے ملکوں کے سفارت خانہ سے رابطہ کرکے ان کو جماعت کے ساتھیوں کی فہرست مہیاکرائی تاکہ سفارتی مددکا راستہ ہموارہوسکے۔ مولانا محمد الیاس ؒ کے قائم کردہ عالمی تبلیغی مرکزپر جب بدخواہ لوگوں کی بدنگاہی دیکھی گئی اورجیسے ہی مولانا مدنی کی دوررس نگاہ نے اسے محسوس کیاتوفوراًانہوں نے ملک کے اخبارات میں نمایاں طورپر یہ اشتہارشائع کراکرایک مثبت پیغام دیا جو آب زرسے لکھنے کے قابل ہے۔
”جماعت تبلیغ ایک عوامی خالص مذہبی اور عالمی تحریک ہے، جمعیۃ علماء ہند موجودہ حالات میں جماعت تبلیغ کے ہر ممبر بلکہ ہر مسلمان تک یہ پیغام پہنچانا ضروری سمجھتی ہے کہ کورونا وائرس اور فرقہ پرست ذہنیت کے پیدا کردہ ان حالات کے باوجود تبلیغ کے کام میں تھوڑا سا بھی فرق آنا یا تبلیغی سرگرمی میں کمزوری کا پیدا ہونا خدانخواستہ ہمارے اکابر رحمہم اللہ کی قائم کردہ اس عالمی تحریک کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے،۔اگر فرقہ پرست طاقت مرکز پر تالا لگا کر تبلیغ کے کام کیلئے رکاوٹ بننا چاہتی ہے تو عبادت اور تبلیغ کیلئے ہر مسجد بلکہ زمین کا ہر قطعہ مسجد اور مرکز ہے،مسلمان پر لازم ہے کہ اللہ کے ہر کام کے لئے کورونا وائرس جیسی ہر رکاوٹ کو ٹھوکر مار کر ایک طرف کر دے اور اپنے وجود کو مستحکم بنائے۔ اس لئے تبلیغی جماعت کے موجودہ اکابر اور افراد کے لئے قوت کے ساتھ اپنے کام کو حکومت کی طرف سے دی گئی گائڈ لائن کو پکڑتے ہوئے جماعتی نظام زندہ رکھنا ضروری ہے اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہے اور جمعیۃ علماء ہند کے خدام آپ کی تائید کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اللہ نصرت فرمائے اور رکاوٹوں کو دور فرمائے۔ (آمین)“۔
شایدایسے ہی موقع کیلئے کلکتہ کے نمائندہ شاعرحسیب ہاشمی نے چندسال پہلے کہا تھا کہ’تم اپنی تباہی کوایک حادثہ مت سمجھو۔ اس قتل کا منصوبہ پہلے سے بناہوگا‘۔
ابھی چند دن پہلے ایک بڑے میڈیاہاؤس کے اینکرنے سلطان الہند خواجہ غریب نوازاجمیری ؒ کی شان میں دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لائیوشومیں نازیبا الفاظ کااستعمال کیا جس سے خواجہؒ کے کروڑوں عقیدتمندوں کی دلآزاری ہوئی۔عقیدتمندوں نے اس گستاخ اینکر کے خلاف ملک کے متعددشہروں میں ایف آئی آررجسٹرڈ کرائے لیکن ہونا کیا تھا وہی۔۔۔۔! ایسے موقع پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے اپنی عقیدت ومحبت کا جو اظہارکیا ہے وہ یقینا ان ہی کا حصہ تھا۔مولانامدنی لکھتے ہیں کہ”راقم اگرچہ کبھی سلطان الہند خواجہ اجمیریؒ کے عرس میں شریک نہیں ہوا،لیکن خودمیں اور میرے بزرگ جو اپنے آپ آپ کو خواجہ اجمیری ؒ کے درکاغلام مانتے ہیں ان کے آستانہ تک حاضری اور فاتحہ خوانی کو باعث سعادت گردانتے ہیں“۔
مختصر یہ کہاجاسکتاہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی قیادت ملک میں اس قت مظلوموں کی ایک مضبوط آواز ثابت ہورہی ہے اور اس کے بے لوث خادم مولانا ارشدمدنی امید کی ایک کرن قرارپارہے ہیں۔یہ وہی جمعیۃ ہے جس نے ہر مصیبت کی گھڑی میں دبے کچلے،بے یاروں مددگارکی دادرسی کی ہے،جو آج بھی اپنے فرائض منصبی کو پوری لگن سے انجام دے رہی ہیں۔ ہم دعاگوہیں کہ اللہ جمعیۃ کے مردمجاہدکی قیادت کو ہمارے لئے طویل سے طویل تربنائے۔
اے حسن سحرہم بھی حقدارتجلی ہیں
ہم نے بھی وفاؤں کی ہر رسم نبھائی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×