آسام اسمبلی میں سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے والی بل پیش
گوہاٹی: 28؍دسمبر (عصرحاضر) آسام حکومت نے ریاست میں چلائے جانے والے دینی مدارس کو امداد فراہم نہ کرنے سے متعلق اہم فیصلہ لیا ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت نے آسام اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد آسام میں موجود دینی مدارس کو عام تعلیمی اداردوں کی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایسے میں آسام میں 600 سے زائد مدارس پر تالہ لگ جائے گا۔ حکومت کے اس فیصلہ سے ریاست آسام کے مسلمانوں میں سخت ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔
آسام حکومت تین روزہ آسام کی قانون ساز اسمبلی اجلاس کے شروع ہونے کے ساتھ ہی پیر کے روز سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے سے متعلق بل پیش کی۔
اسی سے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے ریاستی وزیر صحت ہیمنت بِسوا سرما نے کہا کہ "آج میں سرکاری امداد یافتہ مدارس کو منسوخ کرنے کے لئے ایک بل پیش کروں گا۔ بل منظور ہونے کے بعد آسام میں حکومت کے ذریعہ مدارس چلانے کا رواج ختم ہوجائے گا، جس کی شروعات مسلم لیگ کی حکومت نے آزادی سے پہلے آسام میں کی تھی’۔
اس ماہ کے شروع میں ریاستی حکومت نے تمام سرکاری مدارس اور سنسکرت اسکولوں کو بند کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی تھی۔ اس منظوری کے بعد آسام کے پارلیمانی امور کے وزیر چندر موہن پٹواری نے کہا تھا ، "ریاست میں ایک سیکولر تعلیمی نظام شروع کیا جائے گا۔”
اکتوبر کے شروع میں ریاستی وزیر تعلیم اور وزیر خزانہ ہیمنت بسوا سرما نے کہا تھا کہ "ہماری حکومت کی پالیسی کے مطابق ہم نے اس سے قبل ریاستی اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ مذہبی تعلیم کے لیے حکومت مالی تعاون نہیں دے گی۔
خیال رہے کہ آسام میں دو طرح کے مدارس چلتے ہیں، ایک جسے ریاستی حکومت چلاتی ہے یا سرکاری گرانٹ سے چلائے جاتے ہیں جبکہ دوسرے قسم کے مدارس کو نجی تنظیمیں یا ادارے چلاتے ہیں اور اس کا خرچ وہ ادارے ہی برداشت کرتے ہیں۔
آسام میں 614 سرکاری امداد یافتہ ہیں اور 900 کے قریب نجی مدارس ہیں۔ ریاست اس کے لئے سالانہ 260 کروڑ روپئے خرچ کرتی ہے۔ ملک میں سب سے پسماندہ اس ریاست میں 100 سنسکرت مراکز بھی چلائے جا رہے ہیں جبکہ 500 نجی سنسکرت ٹولس کے سہارے بھی تعلیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔
حکومت ہر سال مدرسوں پر تین سے چار کروڑ روپئے خرچ کرتی ہے جبکہ سنسکرت مراکز پر ایک کروڑ کا خرچ حکومت برداشت کرتی ہے۔
اس تعلق سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ 6 ماہ میں آسام میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ایسے میں حکومت غالباً اسے انتخابی موضوع بنانے کی کوشش جاری ہے جہاں بی جے پی اپنے ووٹروں کو نشانہ بنا کر پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہیمنت بسوا سرما اس سے قبل جب کانگریس حکومت میں وزیر تعلیم تھے، اس وقت انہوں نے مدارس کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے تھے لیکن بی جے پی میں آنے کے بعد وہ پوری طرح بدل گئے۔ ہیمنت بسوا سرما ریاست میں کافی لمبے وقفے سے وزیر تعلیم رہے ہیں لیکن بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی ان کے نظریات اور خیالات میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان تعلیمی اداروں کو بند کرنا نہیں چاہتی بلکہ اسے سرکاری خرچ پر مذہبی تعلیم سے اعتراض ہے، حکومت کے مطابق ان اداروں کو عام تعلیمی نصاب کے تحت چلانے کے لئے تبدیل کیا جا رہا ہے اور ان مدارس میں جدید تعلیم دی جائے گی۔ اس سے حکومت کو 300 کروڑ کی بچت نہیں ہوگی بلکہ اسے جدید تعلیم کے لئے خرچ کیا جائے گا اور اس دوران حکومت کسی کو بھی ملازمت سے نہیں نکالے گی۔